یمن میں انسانی بحران

یمن میں بڑھتے انسانی بحران کے بعد امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ کے قاصدین نے یمن کے فریقین میں فوری جنگ بندی کے لئے زور دیا جس کی سعودی عرب حکومت نے بھی حمایت کی ہے۔ انسانی بحران اور امدادی کاموں کی انجام دہی میں رکاوٹ کو ایک وقفہ کے لئے دور کرنے کی کوشش کے بجائے یہاں ایک مستقل جنگ بندی کے لئے مضبوط اقدامات کی ضرورت ہے۔ 19 اکٹوبر کی نصف شب سے 72 گھنٹے کی اس جنگ بندی میں توسیع کے لئے اقوام متحدہ کو ہی موثر رول ادا کرنا ہوگا۔ یمن عوام کو خون خرابے سے محفوظ رکھنے کے لئے انسانیت پر بین امدادی کاموں کو وسعت دینے پر توجہ دی جائے۔ یمن میں جنگ بندی کی سابق میں بھی کوشش کی گئی تھیں مگر اس میں ناکامی ہوئی۔ یمن میں ہر کوئی جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے۔ اگر ایران کی حمایت والے حوثی گروپ نے امن کی بحالی کے لئے عالمی امن کوششوں میں تعاون کیا تو خون خرابے کی شرح کو کم کیا جاسکتا ہے۔ مقامی طور پر عوام کا احساس ہے کہ حوثی گروپ نے ماضی میں جنگ بندی معاہدہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ اب پہلے سے زیادہ شعوری پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے لڑائی کو بند کردینا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے قاصد کو دیگر دو ممالک امریکہ اور برطانیہ کے قاصدوں کے ساتھ انسانی بحران کو دور کرنے کے لئے موثر کوشش کرنی چاہئے۔ اس وقت زائد از 1.5 ملین بچے خوراک کی شدید ناکامی کا شکار ہیں۔ ان میں سے 3,75,000 بچوں میں غذا کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریاں ہونے کا اندیشہ ہے۔

یمن کے 6 ملین عوام کو اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام سے راشن ملتا ہے۔ یمن کے انسانی بحران کو ساری دنیا کے دیگر بحرانوں میں سے ایک بدترین بحران قرار دیئے جانے کے باوجود یہاں امدادی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہورہی ہے۔ دو متحارب گروپس میں جنگ اور لڑائی نے یمنی شہریوں کو بے بس بنا دیا ہے۔ زائد از 12 ملین یمنی باشندے فوری زندگی بچانے والی راحت و امداد کے منتظر ہیں۔ لڑائی کی وجہ سے یہاں کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ 1990ء میں ملکی اتحاد کے بعد سے اندرون ملک کشیدگیوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ عرب بہار کے دوران شدید احتجاجی مظاہروں کے بعد طویل مدت سے حکمرانی کرنے والے علی عبداللہ صالح کو بیدخل کردینے کے بعد سے جنگ جیسی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ سعودی قیادت نے یمن میں عارضی جنگ بندی سے اتفاق کیا ہے تو یہاں ایک مستقل لڑائی بندی کے لئے بھی کوشش ہونی چاہئے۔ جن طاقتوں نے ایران، سعودی عرب کے درمیان خفیہ جنگ بھڑکنے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے اس سے برعکس یمن کے اندر سب سے پہلے امن کی بحالی کے لئے اقدامات کرنے پر توجہ ہونی چاہئے۔ مارچ 2015ء سے یمن میں اپنے سپاہیوں کی کارروائیوں کے ذریعہ حوثی کے خلاف سعودی عرب نے جس طرح کا محاذ بنایا ہے

اس سے حوثی گروپ کو یہ تو معلوم ہوا کہ یہاں اب اسے اپنے قدم مضبوط کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی۔ اس بنیاد کو مدنظر رکھ کر یہاں کی صورتحال سے انصاف کیا جائے تو فاقہ کشی، غذائی کمی سے رونما ہونے والی صورتحال پر فوری قابو پایا جاسکتا ہے۔ یمن کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بے قابو ہوچکی ہے۔ ’’عرب بہار‘‘ کے بعد ہر علاقہ میں سیاسی طاقت ابھرنے والے گروپس کا اثر بڑھتا جارہا ہے۔ ایسے میں اقوام متحدہ، امریکہ اور برطانیہ نے جنگ بندی کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔ ان ملکوں کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ گزشتہ 20 ماہ سے جنگ بندی کا جذبہ و عمل بدبختانہ طور پر متزلزل رہا ہے۔ اس لئے یمن میں سیاسی آرزو رکھنے والوں نے جس جنگ کو چھیڑا ہے اس میں مزید شدت پیدا کرنے والی کارروائیاں کی ہیں۔ جنگ کا یہ ماحول جوں کا توں برقرار ہوگا۔ ہر ایک کو اپنی ذمہ داری کے احساس کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تاکہ یمن کے انسانی بحران، بچوں میں غذا کی کمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا خاتمہ ہوسکے۔ عرب ممالک میں عوامی شعور میں اضافہ کو دیکھتے ہوئے عالمی طاقتوں کو اس خطہ میں امن کی بحالی کی سمت کوشش کرنی چاہئے۔