محمد ریاض احمد
بابری مسجد سانحہ
شہادت بابری مسجد کے باعث ساری دنیا میں ہندوستان کی سیکولر شبیہ شدید متاثر ہوئی ۔ قوم پرست ہونے کا دعوی کرنے والے بی جے پی اور سنگھ پریوار کی دیگر ذیلی تنظیموں کے قائدین و کارکنوں نے ، اس دن صرف بابری مسجد شہید نہیں کی بلکہ ہندوستان کے دستور کو ڈھایا تھا ۔ شہادت بابری مسجد کے بعد سارے ملک میں ہندو دہشت گردوں نے فتح کی ریالیاں نکالتے ہوئے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کیا جس کے نتیجہ میں پھوٹ پڑے فسادات میں 2000 سے زائد قیمتی جانیں چلی گئیں ان میں بیچارے غریب مسلمانوں کی اکثریت تھی ۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، ونئے کٹیار ، اشوک سنگھل ، سادھوی رتھمبرا ، اوما بھارتی اور دیگر کے خلاف سی بی آئی نے چارج شیٹ بھی پیش کی لیکن ملک میں اس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو تقریباً 23 سال کے بعد بھی پھانسی پر لٹکایا گیا اور نہ ہی کسی کو سزائے قید سنائی گئی ۔ بابری مسجد کے تمام مجرمین بالکل آزاد گھوم رہے ہیں ، حد تو یہ ہے کہ ان میں سے کئی حکومت میں اہم عہدوں پر فائز ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بابری مسجد کے مجرمین کو پھانسی پر کیوں نہیں لٹکایا گیا ؟انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے کیوں نہیں ڈھکیلا گیا ؟ اس کا جواب ہر انصاف پسند ہندوستانی جانتا ہے اور وہ جواب یہ ہے کہ بابری مسجد شہادت کے مجرمین یعقوب میمن یا افضل گرو نہیں تھے ۔
ممبئی فسادات 1992-93
شہادت بابری مسجد کے بعد ملک میں فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کیلئے سب سے زیادہ بدنام ریاست مہاراشٹرا میں شیوسینا اور پولیس میں شامل غنڈوں نے ڈسمبر 1992 اور جنوری 1993 میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ مسلم مردوں ان کی بیویوں ، بچوں کو زندہ جلایا، ان کے جسموں کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے ، مسلم لڑکیوں اور خواتین کی عصمتیں تار تار کردیں ، جی کھول کر مسلمانوں کی املاک کو لوٹا گیا اور سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کے مطابق یہ سب کچھ شیوسینا قائدین خاص کر بال ٹھاکرے کی ایماء پر ہوا ۔ پولیس نے شیوسینا کے غنڈوں کی بھرپور مدد کی ۔ ان فسادات میں 900 سے زائد لوگ مارے گئے جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی ، مسلمانوں کو جہاں زبردست جانی نقصان برداشت کرنا پڑا وہیں 9000 کروڑ روپئے کی املاک سے بھی ممبئی کے شہریوں کو محروم ہونا پڑا ۔ بی این سری کرشنا کی قیادت میں ایک انکوائری کمیشن قائم کیا گیا جس نے واضح طور پر کہا کہ ممبئی فسادات اور وہاں مسلمانوں کے قتل عام میں شیوسینا کے غنڈوں بی جے پی کے درندوں اور کانگریس کے اشرار کا اہم رول رہا ۔ اس سلسلہ میں کمیونسٹ لیڈر حنان ملا نے سابق یو پی اے حکومت کے دوران اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ پر عمل آوری کرانے کی جانب توجہ دلائی تھی ۔ اس مکتوب میں انھوں نے سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا تھا کہ برسوں گزر جانے کے باوجود کانگریس ۔ این سی پی حکومت نے اس رپورٹ کو کوڑے دان کی نذر کردیا ہے ۔ انھوں نے ڈاکٹر سنگھ سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ آیا مہذب دیانتدار اور حساس ہندوستانی ممبئی فسادات میں شیوسینکوں اور ان کے آقاؤں کی درندگی کو فراموش کرپائیں گے ۔
ممبئی بم دھماکے مارچ 1993
انھوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی حکومت کو جھنجھوڑتے ہوئے یہ بھی یاد دلایا تھا کہ 1993 کے سلسلہ وار بم دھماکوں میں 257 افراد ہلاک اور 700 سے زائد زخمی ہوئے تھے اس کے برعکس ممبئی فسادات میں بم دھماکوں میں ہوئی ہلاکتوں سے تین گنا زیادہ ہلاکتیں ہوئی تھیں اور ہزاروں کی تعداد میں مسلمان بے گھر ہوئے ۔ کمیشن نے 31 پولیس عہدہ داروں کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ شیوسینا کے غنڈوں نے پولیس کی راست اور بالراست مدد سے مسلمانوں ان کے بچوں اور خواتین کو زندہ جلایا ۔ ان کے گلوں پر تلواریں چلائیں ۔ بال ٹھاکرے کے بشمول شیوسینا کے دیگر قائدین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے تھا ان میں سے درجنوں کو انسانیت کے خلاف سنگین جرم کی پاداش میں پھانسی پر لٹکایا جانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ ممبئی سلسلہ وار دھماکوں میں ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کرکے بالآخر 120 تا 100 کو اصل ملزمین قرار دیا گیا اور ان میں سے یعقوب میمن کو سزائے موت اور چند کو سزائے عمر قید کے علاوہ دوسروں کو 7 سال سے لیکر 15 سال تک کی سزائیں سنائی گئیں ۔ یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ممبئی میں مسلمانوں کے قاتلوں کو پھانسی پر کیوں نہیں لٹکایا گیا ؟ اس سوال کا بھی یہی جواب ہے کہ ممبئی فسادات کے مجرمین یعقوب میمن یا افضل گرو نہیں تھے بلکہ سری کرشنا کمیشن نے بال ٹھاکرے ، اس کی جماعت کے لیڈروں اور پولیس میں شامل فرقہ پرست بھیڑیوں پر انگلی اٹھائی تھی اور ایسے مجرمین کو ہندوستان میں پھانسی کیوں دی جائے گی وہ تو قوم پرست ہیں ؟ وہ تو اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جس سے ہندوستان کا پہلا دہشت گرد اور بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قاتل ناتھورام گوڈسے تعلق رکھتا تھا ۔ اس سے بڑھ کر کیا ناانصافی ہوگی کہ ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے سلسلہ میں تقریباً 120 ملزمین کو مجرم قرار دیا گیا جبکہ ممبئی فسادات میں مسلمانوں کے قتل عام کی پاداش میں اس وقت کی کانگریس حکومت میں مہاراشٹرا کی ’’بہادر‘‘ پولیس جو ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سرگرمی اور نانصافی کا مظاہرہ کرتی ہے ، شیوسینا کے صرف تین قائدین کو ہی اس کیس میں ماخوذ کرتے ہوئے انھیں مجرم ثابت کرسکی لیکن ان مجرمین کو زیادہ سے زیادہ ایک سال کی سزا سنائی گئی ۔ اس ناانصافی کو انصاف پسند عوام قانونی امتیاز ، تعصب اور جانبداری ، قانون سے کھلواڑ یہاں تک کہ قانون کا قتل نہیں تو اور کیا نام دیں گے ؟ بابری مسجد کی شہادت اور ممبئی فسادات کے وقوع پذیر ہونے اور اس کے بعد مسلمانوں کے قتل عام میں کانگریس کی بزدلی اور اس کے قائدین کی دوغلی پالیسی کا اہم رول رہا ۔ممبئی فسادات کی تحقیقات کرنے والے سری کرشنا کمیشن کی رپورٹ پر عمل آوری کی بجائے اس وقت کے کانگریس وزیراعلی ولاس راؤ دیشمکھ نے بال ٹھاکرے کے پیروں پر اپنا سر رکھ دیا تھا۔ اس وقت شاید ولاس راؤ دیشمکھ نے بال ٹھاکرے سے یہی کہا ہوگا کہ بالاصاحب آپ فکر نہ کریں مسلمانوں سے جتنی عداوت آپ کے دل میں ہے ہمارے دلوں میں بھی ان کے خلاف یہی جذبات ہیں ۔ اس وقت شاید دونوں یہ بھول گئے تھے کہ اوپر والے نے ان کی زندگیوں کے خاتمہ کا فیصلہ کرلیا ۔ اب بال ٹھیاکرے ہے اور نہ ہی ولاس راؤ دیشمکھ بلکہ ممبئی فسادات میں مسلمانو کے قتل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے شیوسینا لیڈر مادھوکر سرپوتیدار کی راکھ بھی شاید نالوں میں بہہ کر پاکستان پہنچ گئی ہوگی ۔
اندرا گاندھی قتل اور سکھ فسادات
دوسری جانب 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد دہلی میں مخالف سکھ فسادات پیش آئے جس میں 4000 سے زائد سکھوں کو قتل کیا گیا ۔ سکھوں کی تنظیموں کے مطابق ان مخالف سکھ فسادات میں 10ہزار تا 17 ہزار سکھوں کو بڑی بیدردی سے قتل کیا گیا ۔ 50 ہزار سے زائد سکھ بے گھر ہوئے ۔ اس وقت سکھوں کی بے سر و سامانی پر ہر ذی حس انسان آنسو بہارہا تھا ۔ ملک کی تاریخ کے اس بدترین فساد کے مقدمات میں ایک بھی ملزم یا مجرم کو تختہ دار پر نہیں چڑھایا گیا ۔ یہاں بھی پھر وہی سوال اٹھتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ اس سوال کا بھی یہی جواب ہے کہ اس قتل عام کے مجرم یعقوت یا افضل گرو نہیں تھے ۔ ہاں اگر کوئی میمن ، کوئی بھٹکل ، کوئی گرو ان فسادات میں مجرم قرار پاتا تو یقیناً اسے سولی پر لٹکادیا جاتا اور وجہ یہ بتائی جاتی کہ ان مجرمین نے تو 4000 سکھوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ انھیں زندہ رہنے کا حق نہیں ۔
نریندر مودی ، گجرات فسادات اور پولیس
سال 2002 کے دوران فرقہ پرستی اور اپنی دشمنی کیلئے ہندوستان سے لیکر امریکہ برطانیہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بدنام نریندر مودی کی ریاست گجرات میں جبکہ وہ عہدہ چیف منسٹری پر فائز تھے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ، لاکھوں کروڑ روپئے کی املاک کو لوٹا گیا ، تباہ و برباد کیا گیا ، کھیتوں ، کھلیانوں ، سڑکوں اور تباہ شدہ عمارتوں میں فرقہ پرست کتے مسلم خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی عصمت ریزی کا ارتکاب کرتے رہے ۔ بیویوں کی نظروں کے سامنے شوہروں کو کاٹا گیا ، ماں کے سامنے بیٹوں کوذبح کیا گیا ۔ مجبور و نہتے باپ کی نظروں کے سامنے بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں ۔ حد تو یہ ہے کہ حاملہ مسلم خاتون کے پیٹ میں پل رہے بچے کو نکال کر صرف اس لئے اس کے جسم کو تلوار کی نوک پر رکھا گیا کہ وہ مسلمان کی اولاد ہے ۔ اس قدر تباہی و بربادی اور شیطانیت کے باوجود کسی ہندو دہشت گرد اور اس کے آقاؤں کو پھانسی کی سزا نہیں دی گئی ۔ نروڈا پاٹیہ میں فسادات کے دوران کم از کم 97 مسلمانوں کو بڑی بیدردی سے شہید کیا گیا ۔ اس وقت فسادیوں کی قیادت مودی کی گجرات حکومت میں شامل رہی مایا کوڈنانی اور گجرات کا فرقہ پرست بھیڑیا بابو بجرنگی بھی موجود تھے ، لیکن ان فسادات میں کسی مجرم کو سزائے موت نہیں سنائی گئی ۔ واضح رہے کہ انہیں فسادات میں کانگریس سابق رکن پارلیمان احسان جعفری کو زندہ جلادیا گیا تھا ۔ نریندر مودی کو کلین چٹ دے دی گئی ۔ امیت شاہ کو بھی قانون کی گرفت میں نہیں لیا گیا ۔ یہاں بھی وہی سوال انصاف پسندوں کے ذہنوں میں ابھر کر آتا ہے کہ آخر اس قدر سنگین اور انسانیت سوز جرائم میں ملوث کسی مجرم کو سزائے موت کیوں نہیں دی گئی ۔ اس کے برعکس بے قصور اور نہتے مسلم نوجوانوں کو ملک کے طول و عرض میں برسوں جیلوں میں بند رکھ کر ان کی زندگیاں برباد کردی گئیں ۔ اس سوال کا جواب بھی یہی ہے کہ گجرات فسادات میں کسی یعقوب میمن کا رول نہیں تھا یہاں تو مودی پر الزامات عائد کئے جارہے تھے ، امیت شاہ کو قانون کی گرفت میں لینے کے مطالبات ہورہے تھے ۔ مایاکوڈنانی اور بابو بجرنگی جیسے انسان نما حیوانوں کو سخت سے سخت سزائیں دینے کی مانگ کی جارہی تھی ۔ ہاں اگر فسادات میں اقلیتوں کی بجائے اکثریت کا جانی و مالی نقصان ہوتا تو یقیناً ان نوجوانوں کو بھی سولی پر لٹکانے کی وکالت کی جاتی جنھیں صرف شبہ پر پکڑا گیا ہوتا ۔ گجرات میں ہی ممبئی کی 19 سالہ طالبہ عشرت جہاں اور دیگر تین نوجوانوں کا قتل ہوتا ہے ، ریاستی پولیس اسے دہشت گردوں کے انکاؤنٹر کا نام دیتی ہے لیکن عدالتیں اور خود سی بی آئی عشرت جہاں کے انکاؤٹر کے فرضی ہونے کا اعلان کرتی ہیں اس طرح سہراب الدین شیخ اور ان کی اہلیہ کے علاوہ تلسی رام پرجاپتی کا قتل ہوتا ہے ۔ آئی پی ایس عہدہ دار ان قتلوں کو بھی انکاؤنٹر کا نام دیتے ہیں لیکن خصوصی تحقیقات ٹیم اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ سہراب الدین شیخ اور کوثر بی اور تلسی رام پرجاپتی کو صرف اور صرف ترقی حاصل کرنے اپنے سینوں پر میڈلس سجانے اور اقتدار کے قریب رہنے کے لئے انتہائی بے دردانہ انداز میں قتل کیا گیا ۔ گجرات کی اے ٹی ایس ٹیم کا ایک سب انسپکٹر کہتا ہے کہ کوثر بی کو قتل کرکے جلانے سے قبل پولیس والوں نے اس کی عصمت ریزی کی تاہم عشرت جہاں ، سہراب الدین شیخ ، کوثر بی ، تلسی رام پرجاپتی کے قتل میں ملوث آئی پی ایس عہدیدروں میں سے کسی کو پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا ۔ الٹے نہ صرف انھیں بحال کیا گیا بلکہ اہم عہدوں پر ان کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔ ایک آئی پی ایس عہدہ دار چداسمہ پر تو بے شمار مقدمات تھے اسے بھی بحال کردیا گیا ۔ اب یہاں بھی یہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے سنگین جرائم کے مرتکبیں کو پھانسی کیوں نہیں دی گئی ؟ تو اس سوال کا جواب بھی یہی ہیکہ ان میں سے کوئی یعقوب میمن نہیں تھا ؟
مالیگاؤں اور مکہ مسجد دھماکہ
اب آتے ہیں ملک کے مختلف مقدمات پر پیش آئے بم دھماکوں کی طرف 2008 میں مسلم اکثریتی مالیگاؤں میں بم دھاکہ ہوئے ، ناندیڑ بھی بم دھماکوں سے دہل گیا ، حیدرآباد کی تاریخی مکہ مسجد میں بم دھماکوں کے ذریعے نمازیوں کا خون بہایا گیا ۔ اس کے بعد پولیس فائرنگ میں کئی نوجوانوں نے جام شہادت نوش کی ۔ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی درگاہ میں دھماکہ کیا گیا ۔ سمجھوتہ ایکسپریس کو دھماکہ سے اڑادیا گیا ۔ ان واقعات میں مہاراشٹرا اے ٹی ایس کے سابق سربراہ اور ممبئی دہشت گردانہ حملوں میں امر ہوئے ہیمنت کرکرے کی کوششوں کے نتیجہ میں سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر ، سوامی اسیمانند ، کرنل سری کانت پروہت اور دیگر کو گرفتار کیا ۔ سوامی اسیمانند نے تو بم دھماکوں میں آر ایس ایس اور اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا ۔ حد تو یہ ہے کہ سابق معتمد داخلہ آر کے سنگھ نے ببانگ دہل کہا تھاکہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے کم از کم دس دہشت گرد ان دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔ یہ وہی آر کے سنگھ ہیں جنھوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اب رکن پارلیمان بن بیٹھے ہیں ۔
وکی لیکس انکشافات
وکی لیکس نے امریکی سفیر کے حوالے سے ایک انکشاف یہ بھی کیا تھا کہ انھیں نائب صدر کانگریس راہول گاندھی نے بتایا تھا کہ آر ایس ایس ہندوستان کیلئے لشکر طیبہ سے بھی بہت بڑا خطرہ ہے اور بعض رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ملک میں پیش آئے کم از کم بم دھماکوں کے 16 واقعات میں ہندو تنظیموں کے کارکن ملوث ہیں ۔ ان بم دھماکوں میں بے شمار مسلمان شہید ہوئے لیکن کسی مجرم کو پھانسی کی سزا سنانے کی عدالتوں نے جرأت نہیں کی ۔ اس معاملہ میں بھی پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مجرمین کو پھانسی کے پھندے سے محفوظ کیوں رکھا گیا ہے ؟۔ اس سوال کا جواب بھی یہی ہوگا کہ ان دھماکوں میں کوئی یعقوب میمن ملوث نہیں تھا ۔ اترپردیش کے مظفرنگر میں فرقہ پرست کتوں نے درجنوں مسلمانوں کا ان کے گھروں اور کھیتوں میں قتل عام کیا ۔ مسلم لڑکیوں کے سروں سے عفت و عزت کی چادریں کھینچی گئیں ۔ اس قدر سنگین جرائم کے باوجود مجرمین نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ ان میں سے ایک دو کو ہمارے ترقی پسند وزیراعظم مودی نے اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے مسلم دشمنی پر ایک لحاظ سے انھیں انعام عطا کیا ہے ۔ یہاں بھی انصاف پسند عوام کے ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر مظفرنگر میں مسلمانوں کے قاتلوں اور زانیوں کو سزائے موت کیوں نہیں دی گئی ؟ اس کا بھی یہی جواب ہے کہ ان سنگین جرائم کا ارتکاب کسی یعقوب میمن نے نہیں کیا ورنہ اسے کبھی کے پھانسی پر لٹکادیا جاتا ۔
یعقوب میمن کوپھانسی اور سازشی پلان
اب ذرا ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزم یعقوب میمن کی پھانسی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ یعقوب میمن نے نیپال میں خود کو ہندوستانی انٹلیجنس کے حوالے کرتے ہوئے قانون کی بھرپور مدد کی اور کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر اس کے ساتھ معاہدہ بھی کیا گیا لیکن مہاتما گاندھی کی راہ پر چلنے کی کوشش بقول خود یعقوب میمن انھیں بہت بھاری پڑی ۔ یعقوب میمن کو 30 جولائی کو اسی دن پھانسی پر لٹکایا گیا جو ان کا یوم پیدائش یا سالگرہ کا دن تھا ۔ ایک شخص کو اس کی سالگرہ کے دن پھانسی پر لٹکانا انسانیت کے مغائر ہے ۔ یہاں کسی ملزم کی تائید کرنا مقصد نہیں بلکہ دہشت گردوں کو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں کیفر کردار تک پہنچایا جانا چاہئے لیکن انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ جس شخص نے مقدمہ میں سرکاری ایجنسیوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا اور 20 برس قید میں گذارے ،اسی کے ساتھ اس طرح کی دغابازی حکومت کی نیت پر کئی ایک شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے ۔ یعقوب میمن کی سزائے موت پر عمل آوری روکنے کیلئے پھانسی سے 3 گھنٹے پہلے تک بھی ملک کے انصاف پسندوں نے بھرپور کوشش کی ۔ گاندھی جی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی ، ممتاز قانون داں رام جیٹھ ملانی ، پرشانت بھوشن اور شتروگھن سنہا کے بشمول 300 دانشوروں اور سیاسی قائدین نے یعقوب کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی سوالات بھی اٹھائے کہ راجیو گاندھی اور سابق چیف منسٹر پنجاب بے انت سنگھ کے قاتلوں کے علاوہ دہلی میں بم دھماکوں کے مجرم کو سزائے موت دینے سے گریز کیا گیا ۔ ایسے میں یعقوب میمن کے ساتھ ایسی رعایت کیوں نہیں ۔ اب جبکہ یعقوب میمن کی سزائے موت پر عمل آوری ہوچکی ہے صدر جمہوریہ کے اختیارات پر ایک نئی بحث چھڑگئی ہے ۔ اکثر کا یہ کہنا ہیکہ صدر جمہوریہ کے عہدہ کو بااختیار بنایا جانا چاہئے تاکہ وہ حکومتوں کے دباؤ میں نہ آکر فیصلہ کرے ۔ صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی کے عہدہ صدارت پر فائز ہونے کے بعد افضل گرو ، اجمل قصاب اور یعقوب میمن کو پھانسی پر لٹکایا گیا ، وہ چاہتے تو ان سزاؤں کو عمرقید میں تبدیل کرسکتے تھے لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا کیونکہ ان پر بظاہر مرکزی حکومت کا دباؤ بڑھتا جارہا ہے ۔ اب لگتا ہے کہ بی جے پی حکومت کے مختلف اسکینڈلس اور اسکامس کا بھی یعقوب میمن کو جلد سے جلد پھانسی دیئے جانے سے گہرا تعلق ہے ۔ للت گیٹ ، ویاپم اسکام اور راشن اسکام سے مودی حکومت کی بڑی بدنامی ہوئی ۔اور اس بدنامی سے عوام کی توجہ ہٹانا ضروری تھا ۔ اب ان مسائل سے عوام کی توجہ ہٹ گئی ہے ۔ یعقوب میمن کی پھانسی ہی موضوع بحث بن گئی ہے۔ لیکن ایک بات ضرور ہے کہ 30 جولائی کو صرف یعقوب میمن کو ہی پھانسی پر نہیں لٹکایا گیا بلکہ ہندوستانی دستور قانون اور ہندوستان کی انسانیت نوازی کو تختہ دار پر چڑھایا گیا ۔ کئی حلقوں میں یہ سوال یہ گونج رہا ہے کہ بے قصور ہونے کے باوجود یعقوب میمن کو پھانسی دیتے ہوئے کیا مودی حکومت داؤد اور ان کی ڈی کمپنی کو اکسانے کی کوشش تو نہیں کررہی ہے ؟ اور یہ پیام تو نہیں دے رہی ہے کہ داؤد ہندوستان آؤ اور اس پھانسی کا بدلہ لو تاکہ ہم سیاسی فائدہ اٹھاسکیں ۔ سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر داؤد ابراہیم اور اس کے ساتھی یقوب میمن کی پھانسی کی بدلہ لیتے ہیں تو ایسے میں مودی حکومت کو عالمی برادری یا اقوام متحدہ میں باآواز بلند داؤد کی حوالگی کا مطالبہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے اس سے نہ صرف پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی بلکہ پاکستان سے داؤد کے ساتھ ساتھ حافظ سعید ، ذکی الرحمن لکھوی کو ہندوستان لانے میں کامیابی حاصل ہوسکے گی ۔ ایسا لگتا ہے کہ یو پی اور بہار میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے بھی یعقوب کو جان بوجھ کر پھانسی پر لٹکایا گیا ۔
mriyaz2002@yahoo.com