یروشلم کو اسرائیلی راجدھانی قرار دینا قیام امن کیلئے آسان تر : نتن یاہو

 

l فلسطین پر مذاکرات سے الگ تھلگ رہنے کا الزام
l ٹرمپ کے داماد جارڈ کوشنر کا قیام امن کیلئے نئی تجویز پر غور
l نائب صدر مائیک پنس کی عنقریب نتن یاہو اور السیسی سے ملاقات
بروسلز ؍ واشنگٹن ۔ 11 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو نے آج ایک اہم بیان دیتے ہوئے کہا کہ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دینے سے قیام امن کا عمل آسان تر ہوجائے گا جو اب تک ناممکن نظر آرہا تھا۔ انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب عالمی سطح پر امریکہ کو اس متنازعہ فیصلہ پر تنقیدوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یاد رہیکہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے گذشتہ ہفتہ یہ اعلان کیا تھا جس کے بعد فلسطینی سرحدوں کے قریب احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ عالم اسلام میں بھی اس فیصلہ کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے جو شدید احتجاجی مظاہروں کے ذریعہ سامنے آیا۔ یوروپی یونین نے امریکہ کے اس فیصلہ پر تشویش ظاہر کی ہے۔ یروشلم شہر عرصہ دراز سے متنازعہ رہا ہے اور اب تک امریکی پالیسی نے بھی اس پر کوئی یکطرفہ فیصلہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ تاہم ٹرمپ کے اعلامیہ سے اب ایسا لگتا ہیکہ امریکہ نے اپنی ’’جامع‘‘ پالیسیوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ یوروپی یونین کے وزرائے خارجہ آج بروسلز میں نتن یاہو سے ملاقات کررہے ہیں جہاں وہ موصوف کو فلسطین سے بات چیت کے احیاء کیلئے آمادہ کرنے پر زور دیں گے۔ نتن یاہو نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے جو کچھ بھی کیا ہے وہ 70 سال سے حقائق پر مبنی پالیسی پر عمل آوری ہے جو انہوں نے سب کے سامنے میز پر رکھ دی ہے۔ یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی بنانے میں کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا کیونکہ یہ گذشتہ 70 سال سے اسرائیل کا دارالخلافہ اور 3000 سال سے یہودی عوام کا دارالخلافہ رہا ہے۔ یوروپی یونین کی سفارتی سربراہ فیڈریکا موگرینی سے ملاقات اور بات چیت کے دوران نتن یاہو نے کہا کہ ٹرمپ کا فیصلہ قیام امن کیلئے آسان تر ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حقائق کو تسلیم کرنا ہی قیام امن کی روح اور اس کی بنیاد ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری کشیدگی کو صرف اسی طرح ہی قائم کیا جاسکتا تھا جس کی ٹرمپ نے پوری پوری کوشش کی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ یروشلم اعلامیہ کے بعد موگرینی نے تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس فیصلہ سے صورتحال مزید تا ریک دور میں داخل ہوگئی ہے۔ موگرینی نے کہا تھا کہ یروشلم کو فلسطین اور اسرائیل کا مشترکہ دارالخلافہ بنانا ہی اس مسئلہ کا واحد حل تھا لیکن ٹرمپ نے اس پر پانی پھیر دیا۔ دوسری طرف نتن یاہو نے کہاکہ امریکہ کی جانب سے اس مسئلہ کے حل کیلئے ایک اور متبادل پیش کیا گیا ہے اور میرا خیال ہیکہ ہمیں ’’امن‘‘ کو ایک موقع اور دینا چاہئے اور ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم امن کے اس موقع کو اور کتنا آگے لے جاسکتے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہیکہ امریکہ فلسطین پرہی یہ الزام عائد کرتا ہیکہ وہ امن مذاکرات سے دور بھاگتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کیلئے امریکی نائب صدر مائیک پنس کے امکانی دورہ کیلئے کسی خاص دلچسپی یا پذیرائی کا اظہار نہیں کیا جارہا ہے۔ نائب صدر کے دفتر کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ نائب صدر موصوف اپنے دورہ کے دوران وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو اور صدر مصر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کے خواہاں ہیں۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ ٹرمپ کے داماد اور مشیر جارڈکوشنر اپنی ایک ٹیم کے ساتھ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن بات چیت کے احیاء کیلئے ایک نئی امریکی تجویز پر کام کررہے ہیں لیکن اس میں انہوں نے کہاں تک پیشرفت کی ہے اس کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔ لہٰذا فلسطینیوں کیلئے یہ ایک بہترین موقع ہوگا کہ وہ امن بات چیت سے خود کو الگ تھلگ نہ رکھیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیوگوٹیرس نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ برسوں کے تعطل کے بعد ٹرمپ کے داماد جارڈ کوشنر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیام امن کی نئی راہ ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ دریں اثناء نائب صدر مائیک پنس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جاروڈ ایجن نے بتایا کہ صدر موصوف نے نائب صدر کو اس خطہ کا دورہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔