کولکتہ۔ 3 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) ایک زمانے میں فاسٹ بولروں کے ترکش میں ایک ایسا ہتھیار ہوتا تھا جسے اگر سلیقے سے استعمال کیا جاتا تو اس کی کامیابی قریب قریب یقینی ہوا کرتی تھی۔ اور وہ ہتھیار تھا ’’یارکر‘‘، لیکن یہ ہتھیار اپنی ہلاکت خیزی کھوتا چلا جا رہا ہے جس کی وجہ سے فاسٹ بولر اب نئے ہتھکنڈوں کی کھوج میں ہیں۔اگر آپ نے 80 کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے بولر دیکھے ہوں تو آپ یقیناً جوئل گارنر سے واقف ہوں گے۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کی نسبت ان کی رفتار کم تھی لیکن اس کی کمی وہ اپنی لمبائی سے پوری کر دیتے تھے۔ دس بارہ فٹ کی بلندی سے گیند بجلی کے کوندے کی طرح لپک کر اچانک بلے باز کے پنجوں تک آتی تو گویا اس کے پیروں تلے سے زمین ہی نکال لے جاتی تھی، اور اسے بیٹ نیچے کرتے دیر ہو جاتی جس کا نتیجہ وکٹ اڑنے کی صورت میں نکلتا۔اسی زمانے میں ایک روزہ کرکٹ مقبول ہونا شروع ہو گئی۔ ایسی گیندوں کو ’ٹو کرشر‘ (پنجہ توڑ) کا نام ملا اور بعض تبصرہ نگاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ اب بیٹسمین کو ہیلمٹ سر پر نہیں، بلکہ پیروں پر پہننا چاہئے۔