پہلا حصہ
نلنجن مکھوپادھیائے
ایودھیا کا مسئلہ حالیہ ہفتوں میں دوبارہ زور پکڑگیا ہے۔مختلف تنظیمیں اور سنگھ پریوار کے ممبرز جن میں سے بعض حکومت میں شامل ہیں، وہ سب رام مندر کی یکایک تعمیر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے 9 نومبر 1989ء کی اہم موڑ والی ’شیلانیاس‘ تقریب کے 30 ویں سال کے موقع پر اسے یاد کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہی عمل آگے کے فتنہ کا سبب ثابت ہوا … عجیب اتفاق ہے کہ اس کے برعکس اُسی روز ’دیوارِ برلن‘ گرا دی گئی۔ 1989ء میں سنگھ پریوار نے ایودھیا مسئلہ، یا رام جنم بھومی ایجی ٹیشن کو قوم کے اصل سیاسی منظر پر رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔ تب وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اس کی نمایاں عوامی تنظیم تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) لوک سبھا میں محض دو ارکان کے ساتھ حاشیہ پر موجود پارٹی تھی۔ اُس سال کی شروعات تشویشناک انداز میں ہوئی۔ 31 جنوری کو مسلم تحفظ پسند تنظیم ’’آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی‘‘ نے بابری مسجد کیلئے حفاظتی دستے تشکیل دینے کا اعلان کردیا۔ اس کے جواب میں پہلی مرتبہ کمبھ میلہ بمقام الہ آباد کو استعمال کیا گیا اور ہندو مذہبی گوشے کو جوش دلاتے ہوئے رام مندر کیلئے عوام کو تحریک دلائی گئی۔ وی ایچ پی نے سَنت سمیلن کا اہتمام کیا جو یکم فبروری کو اختتام پذیر ہوا، اور اس کے لیڈروں نے ایودھیا میں مندر کی بنیاد اُس روز رکھنے کے اپنے منصوبوں کا اعلان کیا جسے ’دیووتھ تھن ایکاداشی‘ کہتے ہیں یعنی ہندو کیلنڈر کے مطابق وہ دن جو وشنو کے اُبھر آنے سے منسوب ہے! اس تہوار میں روایتی طور پر پُرسکون ’ٹمپل ٹاؤن‘ کو بڑی تعداد میں یاتری آتے ہیں اور وی ایچ پی نے حکمت سے اُسی روز کو منتخب کیا کیونکہ ہزاروں یاتری وہاں جوق در جوق آئیں گے۔
عوامی تائید و حمایت جٹانے کیلئے وی ایچ پی نے بہ یک وقت دو مہمات کا اعلان بھی کردیا … شیلا پوجن اور شیلا یاترا … جو فرقہ وارانہ ماحول کیلئے نقصان دہ ثابت ہونے والی تھیں۔ اس کے تحت لازمی بنایا گیا کہ ’شری رام‘ کے الفاظ کندہ کئے گئے اینٹیں تیار کرائیں اور اُن کو ’اَرپن‘ کریں۔ لاکھوں دیہات، قصبات اور شہروں میں رسمی پوجاؤں کے بعد یہ اینٹیں جلوسوں کے ساتھ ایودھیا لے جائی گئیں۔ یہ اینٹیں وہاں مندر کی تعمیر کیلئے استعمال کے مقصد سے پہنچائی گئیں۔ ان رسوم میں شامل ہونا، یا جلوسوں کے ساتھ سفر کرنے پر عوام کو کچھ یادگار لمحات میں حصہ لینے کا احساس ہوا۔ معمولی کشیدگی سے ایودھیا کا جھگڑا عوامی تحریک میں تبدیل کردیا گیا۔ بھاگلپور اور بجنور میں جھڑپوں کے بشمول فرقہ وارانہ فسادات چھڑ گئے جب یہ جلوس مسلم اکثریتی علاقوں سے اشتعال انگیزی کے ساتھ گزرے۔ اب سنگھ پریوار بھی اچھی طرح تیار مشین کی طرح کام کرنے لگا، جس کی ہر ملحق تنظیم اپنا رول عمدگی سے نبھا رہی تھی۔ آر ایس ایس ہیڈگوار صدسالہ یوم پیدائش تقریبات کے آخری مراحل کیلئے تیاری کررہا تھا اور ’’اقلیتوں کی مسلسل خوشامد‘‘ کے خلاف اپنی آواز اٹھانے لگا تھا۔ بی جے پی سکیولرازم اور گاندھیائی سوشلزم کے ساتھ اتحاد کے ڈھونگ کے بعد اپنی اصل ہندو شناخت کی طرف لوٹ گئی۔
اٹل بہاری واجپائی جن کو طویل عرصہ ’غلط پارٹی میں صحیح شخص‘ مانا گیا، انھوں نے نئی دہلی میں اپریل میں منعقدہ ہیڈگوار صدسالہ ریالی میں اعلان کیا کہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد مسئلہ انتخابی موضوع ہے۔ ہندو راشٹر کی تائید میں آواز اٹھانے کے علاوہ انھوں نے اقلیتوں کو متنبہ کیا کہ اپنی منفرد شناخت ترک کردیں یا پھر بدترین صورتحال کا سامنا کریں۔
دو ماہ بعد 11 جون 1989ء کو بی جے پی نے اپنی معمول کی سہ ماہی نیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ کا پالمپور، ہماچل پردیش میں انعقاد عمل میں لایا۔ یہ کوئی معمولی اجلاس نہ ہوا کیونکہ اس نے اپنے ایجنڈے میں رام مندر کیلئے مطالبات کو شامل کرلیا۔ بی جے پی نے مطالبہ کیا کہ متنازعہ عبادت گاہ کو ’’ہندوؤں کے حوالے کیا جائے‘‘ اور یہ کہ کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں نے اس ملک کی ’’غالب اکثریت (ہندو برادری) کے احساسات‘‘ کے تئیں ’’بے حسی پر مبنی بے فکری‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ نمایاں طور پر اس پارٹی کی قرارداد میں اعلان کیا گیا کہ ’’تنازعہ کی نوعیت کچھ اس طرح ہے کہ اس کی محض قانون کی عدالت کے ذریعے یکسوئی نہیں کی جاسکتی ہے‘‘۔ سومناتھ مندر کی تعمیرنو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کے رول کی یاددہانی کرائی گئی۔ اسی کے ساتھ یہ مہم چھڑ گئی کہ پٹیل کو نہرو کی جگہ ’’حقیقی قوم پرست‘‘ کے طور پر پیش کیا جائے کیونکہ انھوں نے سکیولرازم کو فروغ دیا جو ’’ہندومت کیلئے ناپسندیدگی، اور مسلم خوشامدی کیلئے کے مترادف ثابت ہوا‘‘۔ پالمپور میٹنگ کے بعد ایجی ٹیشن محض ’’مسجد کی جگہ مندر‘‘ کیلئے نہیں رہ گیا۔ بلکہ اس نے نظریاتی رُخ اختیار کرلئے۔ بی جے پی نے موقف اختیار کیا کہ جب تک تنازعہ ہندوؤں کے اطمینان کے مطابق حل نہیں ہوتا، ہندوستانی قوم پرستی کی نوعیت اور اس کا مواد بدستور متنازعہ رہیں گے۔ پالم پور قرارداد رام مندر ایجی ٹیشن میں فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئی۔ اس کے بعد ایودھیا تحریک ہندوستانی نظام حکومت میں ایسے مرحلہ تک پہنچ گئی جب سیاست اور انتخابات پر اس کے اثر کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہا۔
صرف اور صرف کانگریس کی مخالفت اور راجیو گاندھی حکومت کے خلاف کرپشن کے الزامات کو وجہ بناتے ہوئے دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے بی جے پی کے مابعد پالم پور موقف سے صرفِ نظر کیا اور ملک گیر مخالف کانگریس اتحاد کی تشکیل کیلئے کام کیا۔ بائیں بازو کی پارٹیاں بھی متفق ہوگئیں حالانکہ انھوں نے بی جے پی کیساتھ راست طور پر اتحاد نہیں کیا۔ آخرکار، 1989ء کے الیکشن نے بی جے پی کو واجبیت دلائی اور اسے سیاسی طور پر اچھوت باور کرنا بند ہوگیا۔ لوک سبھا میں اس کی عددی طاقت بھی ڈرامائی طور پر چھلانگ لگاتے ہوئے 2 سے نویں لوک سبھا میں 85 ہوگئی۔
کانگریس ہندو احساسات مجروح ہونے کے خوف سے شیلانیاس اور شیلاپوجن کو روکنے میں ناکام ہوئی۔ اسے امید تھی کہ اگر شیلانیاس کی اجازت دے دی جائے تو اس کے انتخابی نقصانات کو ہونے والے نقصان کو محدود کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ قانون کی کوئی خلاف ورزی نہ ہونے پائے اور بابری مسجد کی حفاظت ہو۔ کانگریس نے باور کرلیا کہ ممکنہ طور پر اسے ہندو اور مسلمان دونوں بنیادپرست عناصر کے ووٹ حاصل ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح، نیشنل فرنٹ کو یقین ہوا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کٹرپسند ہندو تائید و حمایت دلائے گا جبکہ جنتادل بالخصوص شمالی ہند میں اقلیتی تائید جٹا سکتا ہے۔ اس کے باوجود، بی جے پی کو سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ نیز یہ کہ اس نے ماضی کی ’خوشگوار‘ باہمی ہم آہنگی کو مختلف مقصد کیلئے استعمال کیا اور بے شرمی سے سیاسی ہندومت کا پرچم لہرانے لگی۔ جہاں بی جے پی کے اُبھراؤ کیلئے سیاسی بنیاد ڈال دی گئی، وہیں وی ایچ پی نے اپنے جڑواں پروگراموں کی منصوبہ بندی کرلی۔ مرکزی وزارت داخلہ کے اعداد وشمار اشارہ دیتے ہیں کہ جب شیلاپوجن شروع ہوئی تو 30 سپٹمبر کے بعد سے فرقہ وارانہ جھڑپوں میں تعداد کے اعتبار سے اُچھال آیا۔ کانگریس کا سیاسی حوصلہ کمزور رہا۔ علاوہ ازیں، حکومت کے پاس پولیس پرسونل کی قلت تھی کیونکہ نومبر میں انتخابات ہونے والے تھے۔ وزیر داخلہ بوٹا سنگھ کو کوئی راستہ ڈھونڈنے کی ذمہ داری سونپی گئی کہ حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل جائے کہ اس نے ’’قانونِ ارض کے مطابق پروگرام‘‘ کی اجازت دی ہے۔
13 اکٹوبر کو لوک سبھا میں غیربی جے پی پارٹیوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کرتے ہوئے حکومت سے شیلانیاس کی اجازت نہ دینے کی درخواست کی اور وی ایچ پی سے ’’اپنا پروگرام منسوخ‘‘ کردینے کا مطالبہ کیا۔ اس مشورہ پر کسی نے کان نہیں دھرا۔ حکومت میں داخلی طور پر بوٹا سنگھ کے ہاتھ بندھے تھے کیونکہ پی وی نرسمہا راؤ وزراء گروپ بہ متعلق ایودھیا کی سربراہی کررہے تھے اور اس پروگرام کو روکنے پر آمادہ نہیں تھے۔ تمام تر کوششیں اس حد تک محدود رہیں کہ شیلانیاس کو قانون کی مطابقت کی آڑ میں منعقد ہونے دیا جائے۔ یہ معاملہ اگست میں الہ آباد ہائی کورٹ کے حکمنامہ کے بعد مشکل تر ہوگیا، جس نے متنازعہ عبادت گاہ اور اطراف کی زمینات پر جوں کا توں موقف برقرار رکھنے کی ہدایت دی۔ سوال یہ تھا کہ آیا وہ مقام جس کی نشاندہی وی پی ایچ نے یکطرفہ طور پر شیلانیاس کیلئے کرلی، متنازعہ قطعہ اراضی (اراضیات) کے اندرون ہے یا بیرون؟ 2 نومبر سے وی ایچ پی نے اُس مقام کو عملاً اپنے کنٹرول میں لے لیا اور کانگریس قائدین محض بات چیت کرتے رہ گئے کہ وی ایچ پی کو کسی غیرمتنازعہ مقام کو منتقل کیا جائے!۔