یاد رفتگان خواجہ حمید الدین شاہد

میرا کالم مجتبیٰ حسین
پودوں میں مجھے سورج مکھی کے پودے پر جہاں پیار آتاہے وہیں ترس بھی آتا ہے ۔ پیار اس لئے کہ ہمیشہ اپنا چہرہ روشنی کی طرف رکھتا ہے اور ترس اس لئے کہ زمین میں اس کی جڑیں چاہے کسی بھی سمت میں ہوں وہ اپنا چہرہ سورج کی طرف رکھنے پرمجبور ہوتا ہے۔ بلا شبہ وہ طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کامنظر تو دیکھ لیتا ہے لیکن سورج جاتے جاتے اپنے پیچھے اندھیروں کے جو لمبے سائے پھیلاتا چلا جاتا ہے ، اُن سے تشکیل پانے والے منظر کو سورج مکھی کے کسی پھول نے آج تک نہیں دیکھا۔
اپنے کرم فرما اور بزرگ جناب خواجہ حمید الدین شاہد کے بارے میں کچھ لکھنے بیٹھا ہوں تو اچانک مجھے سورج مکھی کے پھول کا خیال آگیا ۔ غالباً اس لئے کہ کچھ پودے انسانوں کی طرح ہوتے ہیں اور کچھ انسان پودوں کے سمان بھی ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے تو شاہد صاحب سورج مکھی کا پودا ہی ہیں اور حیدرآباد اُن کا سورج ہے ۔ مجھے ان میں اور سورج مکھی کے پودے میں صرف اتنا فرق نظر آیا کہ سورج جب مشرق سے مغرب تک اپنا سفر پورا کرلیتا ہے تو سورج مکھی کا پھول بھی اپنا چہرہ ایک اُفق سے دوسرے افق تک گھمالیتا ہے لیکن شاہد صاحب کے سورج کا معاملہ دوسرا ہے۔ وہ جامد و ساکن ایک جگہ کھڑا ہے سو کھڑا ہے اور شاہد صاحب بھی ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہے ہیں سو دیکھ رہے ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ شاہد صاحب کی جڑیں پچھلی تین دہائیوں سے کراچی میں پیوست ہیں مگر اُ ن کا چہرہ اپنے سورج یعنی حیدرآباد کی طرف مستقلاً مڑا ہوا ہے ۔ آپ اس پوزیشن میں تین دہائیوں تک کھڑے ہوکر دکھادیں تو پتہ چلے کہ جینے کا کرب کسے کہتے ہیں۔ شاہد صاحب زندگی کیا گزار رہے ہیں، یوگا کا ایک مشکل ترین آسن جمائے کھڑے ہیں۔

میں بزرگوں کے بارے میں کچھ لکھنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں اور خاص طور پر ایسے بزرگوں کے بارے میں لکھنے سے تو اور بھی گریز کرتا ہوں جن کے ذکر کے ساتھ ہی مجھے اپنا ماضی بھی یاد آنے لگ جائے۔ یادش بخیر ! میں نے خواجہ حمیدالدین شاہد صاحب کو پہلے پہل 1953 ء میں دیکھاتھا جب میں عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج میں بی اے کے پہلے سال میں داخلہ حاصل کرنے کی غرض سے گلبرگہ سے حیدرآباد آیا تھا ۔ ان دنوں شاہد صاحب چادر گھاٹ کالج میں انٹرمیڈیٹ کے طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے۔ وہ کبھی میرے اُستاد نہیں رہے لیکن میں بالواسطہ طور پر اُن کا شاگرد ضرور رہا، آرٹس کالج میں اتفاق سے میرے جو نئے دوست بنے وہ شاہد صاحب کے شاگرد رہ چکے تھے ۔ منیر صفوی ، جو میرا عزیز ترین دوست تھا ، شاہد صاحب کے ذکر کے بغیر سانس بھی نہیں لے سکتا تھا ۔ ایک دن آرٹس کالج میں منیر صفوی کی معرفت ہی شاہد صاحب سے ملاقات بھی ہوگئی۔ حیدرآبادی شیروانی زیب تن کئے ہوئے اور سر پر تُر کی ٹوپی اوڑھے ہوئے شاہد صاحب نہایت شفقت سے ملے ۔ ملتے رہنے کی تاکید کی اور ہوا کی سی تیزی کے ساتھ آرٹس کالج کے کاریڈورس میں غائب ہوگئے۔ اس کے بعد شاہد صاحب کو جب جب اور جہاں جہاں دیکھا عجلت ، تیزی اور روانی میں ہی دیکھا ۔ کم از کم حیدرآباد میں میں نے انہیں کبھی فرصت اور فراغت میں نہیں پایا ۔ ہر لمحہ مصروف ، ہر لمحہ تیز رفتار،’ ہر گھڑی کہیں جانے کی جلدی یا کوئی کام کرنے کی عجلت۔ ان دنوں اُن کا دائرہ عمل بھی بہت وسیع تھا۔طلبہ کو پڑھا رہے ہیں۔ زور صاحب کے ایوان اردو کی سرگرمیوں میں دخیل ہیں۔ ماہنامہ سب رس کی ادارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ عملی کاموں سے فراغت پاتے تو تہذیبی کاموں میں جا الجھتے ۔ فائن آرٹس اکیڈیمی کے فنکاروں کی سرپرستی کرتے۔ ان کے تہذیبی پروگراموں میں اس قدر بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے کہ فنکار تو پیچھے رہ جاتے اور یہ خود آگے کو نکل جاتے ۔ بڑی مشکل سے انہیں روکنا پڑتا۔ دکنی لوک گیتوں کی دھنیں بن رہی ہیں۔ کسی پروگرام میں گائی جانے والی غزلوں کا انتخاب ہورہا ہے ۔شاعروں کو موسیقی کے اسرار و رموز سے واقف کرایا جارہا ہے اور گانے والوں کو قلی قطب شاہ ، ولی دکنی اور ملا وجہی کے شعروں کا مطلب سمجھایا جارہا ہے۔

1955 ء کی بات مجھے اب تک یاد ہے ۔ حیدرآباد کے سارے کالجوں کی اردو انجمنوں کی جانب سے پہلے اُردو فیسٹول کے انعقاد کا فیصلہ ہوا ۔ اس کے تہذیبی پروگراموں کے انچارج شاہد صاحب تھے۔ آرٹس کالج کی بزم اردو کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے میں بھی اردو فیسٹول کی مجلس انتظامی کا ایک رکن تھا ۔ شاہد صاحب نے ساری انجمنوں کے جنرل سکریٹریز کو بلا کر تہذیبی پروگراموں کے ٹکٹ فروخت کرنے کی ذمہ داری سونپ دی ۔ میرے لئے ٹکٹوں کی فروخت کا ایک کوٹہ مقرر کردیا گیا۔ آپ تو جانتے ہیںکہ اس طرح کے ٹکٹ کس طرح فروخت کئے جاتے ہیں۔ بڑی بھاگ دوڑ کی۔ لوگوں کی منت سماجت کی۔ بعض سے نقد رقم وصول کی۔ بعض کو اُدھار ٹکٹ دیئے۔ اردو فیسٹول جس آن بان کے ساتھ ہوا، وہ تو سب جانتے ہیں لیکن مجھ پر جو بیتی وہ میں ہی جانتا ہوں۔ جن کو اُدھار ٹکٹ دیئے تھے وہ مجھ سے منہ چھپانے لگے ۔ ایک دن شاہد صاحب نے آرٹس کالج میں مجھے پکڑ ہی لیا ۔ بولے ’’میاں! وہ ٹکٹوں کی حساب فہمی ہونی ہے‘‘ ۔ میں نے کہا ’’سر! ٹکٹوں کی حساب فہمی ہوگی تو کئی غلط فہمیاں بھی پیدا ہوں گی ‘‘۔ بولے ’’میاں ! کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ رہو۔ میں حساب فہمی کے معاملے میں بہت کھرا اور سخت ہوں۔ اگلے ہفتہ تک سارا حساب ہوجانا چاہئے ، میں کچھ نہیں سننا چاہتا‘‘۔
وہ تو اچھا ہوا کہ اسی ہفتہ گھر سے میرا منی آرڈر آگیا اور میں نے اپنی جیب سے پچیس روپئے ادا کر کے نہ صرف زندگی کا ایک نیا تجربہ حاصل کیا بلکہ شاہد صاحب کی نظروں میں ایک ذمہ دار نوجوان بھی بن گیا ۔ شاہد صاحب بہت خوش ہوئے اور بولے’’میاں ! مستقبل میں بھی ہمیشہ اسی طرح ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے رہنا‘‘۔ میں نے کہا ’’گھر سے منی آرڈر آتا رہے گا تو یقیناً ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا رہوں گا‘‘۔ وہ دن اور آج کا دن زندگی میں جب کبھی مجھے پچیس روپیوںکی کمی یا ضرورت محسوس ہوئی ہے، مجھے شاہد صاحب یاد آئے ہیں کہ اگر وہ مجھے ذمہ دار شہری بنانے کی کوشش نہ کرتے تو میرے شخصی بجٹ میں پچیس روپئے کا خسارہ جاری و ساری نہ رہتا۔ سماج کے تئیں شاہد صاحب کی دیانتداری اور میری ذ مہ داری کا یہ ایک چھوٹا سا واقعہ تھا جو اچانک یاد آگیا۔
اس زمانے کے حیدرآباد میں ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور اور حضرت امجد حیدرآبادی دو ایسے بزرگ تھے جن کا شاہد صاحب حد درجہ احترام کرتے تھے ۔ زور صاحب تو خیر اُن کی کمزوری تھے ، جن سے یہ ہمیشہ توانائی حاصل کرتے رہے ۔ امجد حیدرآبادی کے یہ بے پناہ عقیدت مند تھے۔ اُن کی نجی محفلوں میں شریک رہا کرتے تھے۔ امجد حیدرآبادی کی رُباعیوں پر جتنا عمل شاہد صاحب نے کیا ہے ، شاید ہی کسی اور نے کیا ہو ۔ ہر لمحہ امجد حیدرآبادی کی کسی رُباعی کی عملی تفسیر بنے رہتے تھے اور شاید آج بھی رہتے ہوں۔ جو آدمی حضرت امجد حیدرآبادی کی رُباعیوں کا عملی نمونہ ہو اس کی نیکی ، سچائی اور راست بازی پر کسے شبہ ہوسکتا ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ امجد حیدرآبادی کے جیتے جی حیدرآباد میں اُن کا جو جشن الماس منایا گیا تھا ، اس کے پیچھے بھی شاہد صاحب کی کوششوںکا دخل تھا ۔ ’’جشنِ امجد حیدرآبادی‘‘ میں وہ اس قدر پیش پیش اور سرگرم عمل تھے کہ میرا ایک نوجوان دوست خود خواجہ حمیدالدین شاہد صاحب کو اپنے تئیں حضرت امجد حیدرآبادی سمجھ بیٹھاتھا ۔ بڑی مشکل سے اسے سمجھایا کہ یہ حضرت امجد حیدرآبادی نہیں ہیں بلکہ خواجہ حمید الدین شاہد ہیں جو اس جشن کے کرتا دھرتا ہیں۔ اس کی سمجھ میں کسی طرح یہ بات نہ آتی تھی کہ خواجہ حمیدالدین شاہد اگر امجد حیدرآبادی نہیں ہیں تو پھر وہ جشن امجد حیدرآبادی میں اس قدر بڑھ چڑھ کرکیوں حصہ لے رہے ہیں ۔ جب تک امجد حیدرآبادی کو ڈائس پرنہیں بٹھایا گیا تب تک اس کا شک رفع نہ ہوا۔

غرض حیدرآباد میں شاہد صاحب علمی ، ادبی اور تہذیبی سرگرمیوں کے روح رواں رہے۔ غالباً 1959 ء میں وہ پاکستان منتقل ہوگئے ۔ اُن کے حیدرآباد سے چلے جانے کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے حیدرآباد کا رقبہ کچھ کم ہوگیا ہے اور اس کی آبادی بھی کچھ کم ہوگئی ہے کیونکہ میرے نظریے کے مطابق شہر عمارتوں ، سڑکوں اور مکانوںسے نہیں بنتا بلکہ اس شہر میں بسنے والوں سے اور اُن کے رکھ رکھاؤ سے بنتا ہے ۔ اُن کے بارے میں اطلاعیں ملتی رہیں کہ کراچی میں رہ کر حیدرآباد میں رہتے ہیں اور خیریت سے ہیں۔ ایک دن پتہ چلا کہ انہوں نے حیدرآباد کے ایوان اردو کی طرز پر کراچی میں بھی ایک عدد ایوان اردو قائم کردیا ہے۔ پھر معلوم ہوا کہ حیدرآباد کے رسالے ’’سب رس‘‘ کے نام سے کراچی سے بھی ایک عدد ’’ سب رس‘‘ نکالنے کا بندوبست کرلیا ہے ۔ میرے ایک دوست کراچی سے آئے تو بتایا کہ شاہد صاحب جو کام حیدرآباد میں کرتے تھے ، ہوبہو وہی کام انہیں عنوانات کے تحت کراچی میں کرنے لگے ہیں ۔ دکنی ادب سے متعلق کتابوںکا ایک بڑا ذخیرہ بھی انہوں نے اکٹھا کرلیا ہے۔ چارمینار کو کراچی منتقل کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ اُن کا بس چلے تو گولکنڈہ کے قلعہ کو اٹھاکر یہاں سے لے جائیں۔ انہیں تو اس بات کا بھی قلق ہے کہ کراچی میں موسیٰ ندی کی طغیانی نہیں آسکتی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ حیدرآباد کی موسیٰ ندی میں کئی برس پہلے ایک بار غلطی سے طغیانی آگئی تھی ۔ سو پچاس آدمی مرے ہوں گے مگر حیدرآبادیوں نے اس ندی کے خلاف وہ واویلا مچایا کہ اس ندی نے شرم کے مارے بہنا ہی بند کردیا۔ اب برساتوں میں بھی یہ ندی سوکھی ہی رہتی ہے ۔ اس میں قصور ندی کا نہیں حیدرآبادیوں کا ہے کہ چھوٹی سی آفت بھی اُن پر آجائے تو آسمان کو سر پر اُٹھا لیتے ہیں۔ برسوں پہلے آئی ہوئی موسیٰ ندی کی طغیانی اب بھی حیدرآباد میں حوالے کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اُن لوگوں کے حافظے میں بھی محفوظ ہے جواس طغیانی کے وقت پیدا نہیں ہوئے تھے ۔ خود شاہد صاحب طغیانی کے بعد کی پیداوار ہیں لیکن اب بھی کوئی تاریخی بات کریں گے تو حوالہ طغیانی کا ضرور دیں گے ۔ طغیانی سب کچھ بہا کر لے جاتی ہے لیکن موسی ندی کی طغیانی غالباً واحد طغیانی تھی جس نے بہت سے واقعات اور حالات کو اپنے حوالے سے محفوظ کردیا ۔ ایسی تعمیری طغیانی کسی اور ندی کے حصے میں نہیں آئی ۔ ہاں تو ذکر شاہد صاحب اور اُن کے رسالہ ’’سب رس‘‘ کا ہورہا تھا اور ہم موسیٰ ندی کی طغیانی میں بہہ گئے۔ اُن کا رسالہ’’سب رس‘‘ مجھے ملنے لگاتو احساس ہوا کہ حیدرآباد سے کتنی والہانہ محبت اور شدید وابستگی رکھتے ہیں۔ اس رسالے میں نہ صرف دکنیات اور دکن سے متعلق شخصیات کے بارے میں مواد شائع ہوتا ہے بلکہ ناک نقشہ کے اعتبار سے اسے ہو بہو حیدرآباد سے نکلنے والے ’’سب رس‘‘ کے مطابق رکھا جاتا ہے ۔ کیا مجال جو اس کا معیار حیدرآباد کے ’’سب رس‘‘ سے آگے بڑھنے پائے ۔ محض کسی شہر کے احترام اور عقیدت میں ایک رسالے کا مدیر اپنے رسالے کے معیار کو بلند نہ ہونے دے اس کی مثال ملنی بہت مشکل ہے ۔ رسالے کا معیار تو ہر ایرا غیرا بلند کرلیتا ہے لیکن رسالے کو ایک خاص سطح سے اوپر جانے سے روکنے کیلئے بڑی زبردست ادارتی صلاحیتیں درکار ہوتی ہیں۔

شاہد صاحب کے بارے میں اطلاعیں تو بہت ملتی رہتی تھیں لیکن اُن سے ملنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی ۔ 1985 ء میں پتہ چلا کہ وہ سرورڈنڈا کی یاد میں منعقد ہونے والے دو روزہ سمینار میں شرکت کیلئے حیدرآباد آرہے ہیں۔ میں اُن سے ملنے کی خاطر خاص طورپر دہلی سے حیدرآباد گیا ۔ سمینار کے پہلے دن کے ا جلاس میں وہ نہیں آئے ۔ معلوم ہوا کراچی سے روانہ ہوچکے ہیںاور کسی وقت بھی آسکتے ہیں ۔ سمینار کے اجلاس میں جو بھی نیا آدمی آتا تو اس پر شاہد صاحب کا گمان ہوتا۔ شاہد صاحب اپنی کوتاہ قامتی کیلئے مشہور ہیں لیکن اُن سے ملنے اور انہیں دیکھنے کا اشتیاق کچھ اتنا زیادہ تھا کہ ایک بار حمایت اللہ جیسا طویل قامت شخص بھی اجلاس میں داخل ہوا تو ان پر شاہد صاحب کا گمان ہو بیٹھا ۔ ’’پتیاں کھڑکیں تو سمجھا کہ لو آپ آہی گئے‘‘ والا معاملہ تھا ۔ دوسرے دن کا اجلاس شروع ہوا تو بتایا گیا کہ بمبئی تک وہ پہنچ گئے ہیں اور اب حیدرآباد آیا ہی چاہتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ دوسرے دن کا اجلاس بھی ختم ہوا چاہتا تھا ۔ مقررین سے بار بار کہا جارہا تھاکہ وہ شاہد صاحب کے انتظار میں لمبی لمبی تقریریں کریں۔ یہ پہلا موقع تھا جب مقررین کوکھلی چھوٹ دی گئی تھی کہ وہ جو چاہیں سو کریں اور جب تک چاہیں کہیں۔ مسئلہ تقریروں کا نہیں جلسے کو جاری و ساری رکھنے کا تھا ۔ عزیز قیسی یوں بھی لمبی تقریر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس دن انہوں نے لمبی تقریر کرنے کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے مگر شاہد صاحب تب بھی نہیں آئے ۔ تھک ہار کر عزیز قیسی نے پانی کا پانچواں گلاس پیا اور یہ کہتے ہوئے بیٹھ گئے’’میں اپنی محبوبہ کے انتظارمیں بھی اتنی لمبی تقریر نہیں کرسکتا جتنی کہ شاہد صاحب کے انتظار میں کی ہے ‘‘۔ پھر مجھ سے پوچھنے لگے ’’یہ تو بتاؤ میں نے اپنی تقریر میں کیا کیا کہا تھا ۔ اب مجھے خود یاد نہیں رہا‘‘۔ میں نے کہا ’’آپ کی تقریر سنی کس نے ہے اور یہ سننے کیلئے تھی بھی کہاں۔ وقت گزاری کیلئے آدمی کو بہت سے غیر شریفانہ کام بھی کرنے پڑتے ہیں‘‘۔
جب عزیز قیسی جیسا مقرر بھی شاہد صاحب کے انتظار میں پسپا ہوگیا تو منتظمین نے طوعاً و کرہاً صدر جلسہ ڈاکٹر سیدہ جعفر کو انتظار ساغر کھینچنے کی دعوت دی ۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر کا صدارتی خطبہ بھی آخری ہچکیاں لے رہاتھا تب شاہد صاحب اچانک جلسہ گاہ میں یوں پہنچے جیسے ہماری فلموں کا ہیرو فلم کے آخری سین میں نمودار ہوکر نکاح پڑھانے والے قاضی اور ویلن دونوں سے کہتا ہے’’ٹھہرو! یہ شادی نہیں ہوسکتی‘‘۔ لوگ شاہد صاحب کی طرف دوڑ پڑے۔ پورے پچیس چھبیس برس بعد شاہد صاحب کو حیدرآباد میں دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی اس کا بیان لفظوں میں ممکن نہیں۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ ایک ایک سے گلے ملتے جاتے اور روتے جاتے تھے ۔ ملنے ملانے کا سلسلہ ختم ہوا تو یہ تقریر کرنے کیلئے مائیکرو فون پر پہنچے ۔ مگر ان کے ہاں اس وقت لفظ کم اور آنسو زیادہ تھے ۔ لفظوں کی ترسیل تو مائیکرو فون کے ذریعہ سے ممکن ہے لیکن آنسوؤں کی ترسیل کیسے کی جائے ۔ منتظمین نے جب دیکھا کہ یہ پانی کے گلاسوں کو استعمال کرنے والا مقرر نہیں ہے تو انہوںنے چار پانچ صاف ستھرے رومال مائیکرو فون کے سامنے رکھ دیئے کہ شاہد صاحب جی کھول کر تقریر کریں۔

حیدرآباد میں اُن کے اعزاز میں کئی محفلیں ہوئیں۔ اُن سے کئی خوشگوار ملاقاتیں رہیں۔ مجھے ان میں بظاہر کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی ۔ وہی روانی ، وہی پھرتی ، وہی بے ساختگی ، وہی وارفتگی ، وہی رکھ رکھاؤ۔ حیدرآباد آکر وہ بہت خوش تھے ۔ ایک ایک شناسا کو غور سے دیکھتے ۔ اس کا حال پوچھتے۔ لگتا تھا اب وہ حیدرآباد سے واپس نہیں جائیں گے۔ ایک دن کسی نے مجھے یہ اطلاع دی کہ شاہد صاحب کو جس سمینار میں بلایا گیا تھا ، اس کے منتظمین نے اب تک کسی وجہ سے انہیں واپسی کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے ۔ شاہد صاحب سے ملاقات ہوئی تو میں نے مذاق مذاق میں کہا ’’شاہد بھائی ! مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ منتظمین نے اب تک آپ کی واپسی کا کرایہ ادا نہیں کیا ہے ۔ اب آپ حیدرآباد ہی میں رہئیے۔ یہ ہم سب کی تمنا ہے‘‘۔ تھوڑے تردد کے بعد بولے ’’سو تو ٹھیک ہے میاں ! میں اگلی بار بھی تو آؤں گا۔ اگلے پھیرے میں واپسی کا کرایہ ادا نہ کرنا‘‘۔ اس بات پر بڑی دیر تک ہنستے رہے۔
شاہد صاحب کی شفقتیں میرے لئے ہمیشہ ایک قیمتی اثاثہ رہی ہیں۔ حیدرآباد کی نسبت سے وہ ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کرتے آئے ہیں۔ شاہد صاحب کو جب جب دیکھتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ مرحوم حیدرآبادی تہذیب اور شائستگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں۔ جو لوگ پچاس ساٹھ برس پہلے کے حیدرآباد کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ شاہد صاحب کو دیکھ لیں۔ وہ شخص نہیں ایک شہر ہیں، مخلص ، روادار ، بے نیاز ، بے لوث اور نیک ۔ وہ اپنوں کیلئے بے حد جذباتی ہوجاتے ہیں۔ اُن کی پلکوں کے پیچھے آنسو اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ ذ را کوئی جذباتی موڑ آجائے اور وہ پلکوں کے پیچھے سے چھلک پڑیں۔ چار دن پہلے میں کراچی ایرپورٹ سے باہر آیا تو دیکھتے ہی گلے سے لگ کر رونے لگ گئے۔ مجھے یہ اندازہ لگانے میں بے حد دشواری پیش آتی رہی کہ وہ میرے آنے سے خوش ہیں یا دُکھی کیونکہ ان کی آنکھوں میں خوشی اور دکھ دونوں کے آنسو ساتھ ساتھ جاری رہتے ہیں، تو ایسے ہیں ہمارے شاہدصاحب۔ خیر سے وہ سترّ برس کے ہوگئے ہیں۔ میری یہ دُعا ہے کہ جب اُن کی صد سالہ سالگرہ منائی جائے تو میں اس میں شرکت کیلئے پھر پاکستان آؤں ۔ میں نہ صرف اُن کی بلکہ اپنی درازی عمر کی بھی دُعاء مانگتا ہوں ۔ شاید اُن کے طفیل میں مجھے بھی تیس برس اور اس دنیا میں جینے کا موقع مل جائے۔ (آمین) (1989)