یادیں انجمن ترقی اردو کے ماضی قریب کی

ابو متین
انجمن ترقی اردو حیدرآباد کے ماضی قریب کا دور بڑا شاندار رہا ہے ۔ انجمن کا یہ زمانہ یادگار اور ناقابل فراموش رہا ہے ۔ اردو کی ترقی و ترویج  کے اعتبار سے اس کو بے مثل بھی کہا جاسکتا ہے ۔ اس دور کو ادارے کا سنہری زمانہ کہنے میں بھی مبالغہ نہ ہوگا ۔ اس زمانے کی سرگرمیوں کے اعتبار سے اردو کی ترقی انجمن اور سوسائٹی کے تنگ دائرے سے نکل کر ایک مشن اور تحریک کی شکل اختیار کرچکی تھی ، چھوٹے شہروں اور قصبات سے نکل کر یہ تحریک دیہاتوں تک رسائی حاصل کرچکی تھی ۔ انجمن کی شاخیں قام ہوچکی تھیں، دفاتر تعمیر ہونے لگے تھے ۔ لوکل باڈیز کے عہدیداروں سے نمائندگی میں بھی کوئی کمی نہیں کی جاتی تھی ۔ مدارس میں بھی اردو متوازی جماعتیں قائم ہوتی رہیں۔ الغرض اردو کیلئے کام کرنے والے کارکن سرگرم عمل تھے، یہ ہلچل اور جدوجہد محض حیدرآباد کے چند قائدین کی مخلصانہ کردار کی وجہ سے برپا تھی ۔ یوں بھی اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں ہے کہ کسی ادارے و تنظیم کی بقاء و ترقی کا دارومدار اس کے ذمہ داروںاور ان کے معاون کارکنوں کا مرہون منت ہوا کرتا ہے ۔ جب تک اس کے کرتا دھرتا اخلاص و لگن اور ایثار و قربانی سے کام انجام دیتے رہتے ہیں ادارہ و تنظیم  ترقی کے منازل طئے کرتی رہتی ہے۔ یہی سب کچھ ہوتا رہا ۔ انجمن کے یہ قائدین اپنے مقصد سے والہانہ محبت رکھتے تھے ، اس کیلئے انہوں نے اپنا وقت و پیسہ اور سب کچھ لگادینے میں کبھی پس و پیش نہیں کیا ۔ عام کارکن تک بھی باہمی محبت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے نظر آتے تھے کیونکہ جیسا راجہ ویسی پرجا کا مقولہ بھی تو سچ ہے ۔ صدر انجمن حبیب الرحمن صاحب حمایت نگر جیسے پاش علاقے میں اپنی وسیع و عریض دیوڑھی کا نصف حصہ انجمن کو وقف کرچکے تھے ۔ آج بھی ڈگری کالج اور پوسٹ گریجویٹ جماعتوں کے مناسب حال جگہ فراہم ہے اور مرکزی ہال کے علاوہ دوسرا اردو ہال بھی خدمت کیلئے موجود ہے اور ایک اردو اسکول بھی پوری آب و تاب سے چلایا جارہا ہے ۔ موجودہ مرکزی اردو ہال سے متصل ایک چھو ٹا سا ہال بھی ہے جس کا دروازہ اندر کی طرف کھلنے کے علاوہ باہر سڑک پر بھی شٹر کے ذریعہ کھلتا ہے ۔ اس میں دارا المطالعہ ہوا کرتا تھا ۔ کثیر اردو اخبار و رسائل رکھے ہوتے اور ہر شام عام لوگ ان سے  استفادہ کرتے تھے ۔ ایک شام سرینواس لاہوٹی سراپا عاجزی کا پیکر بنے اندر سے تشریف لائے اور انجمن کی پہلی سالانہ کانفرنس میں حاظرین کو شرکت پراصرار کیا ۔ اس طرح راقم کا پہلا تعارف ہوا تھا ۔ سرینواس لاہوٹی اور شاہد حسینی مستقل طور پر خدمت انجام دیا کرتے تھے ۔ عابد علی خاں ، راج بہادر گوڑ اور سلیمان اریب و غیرہ اس اردو تحریک کے روح رواں تھے ۔ مخدوم محی الدین صاحب اور سلیمان اریب نے بہت جلد ساتھ چھوڑدیا تھا پھر شاہد حسینی بھی چل بسے لیکن سرینواس لاہوٹی نے زیادہ مدت تک خدمت انجام دی تھی ۔ باقی دوسرے حضرات کے ساتھ زینت ساجدہ بھی طویل عرصہ تک ساتھ نبھایا ۔ اضلاع کے مستقر سے نصرت فاروقی ، کمال کریم نگری اور پیراں نظامی و غیرہ کے نام یاد رہ گئے ورنہ کئی اہم ذمہ داروں سے ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ راقم کو اٹھارہ انیس سال کی عمر میں بے کاری کا دور دورہ تھا ، اس عرصہ میں انجمن سے تعلق پیدا ہوگیا تھا ۔ اس وقت ناپختہ ذہن تھا لیکن یہ تعلق نہ صرف قائم رہا بلکہ تاحال جاری ہے ۔ البتہ تنظیم کے اندر اس لئے داخل نہ ہوسکا تھا کہ ملازمت کے بدلتے مقامات کی نمائندگی کرتے ہوئے منفرد کارکن بنارہا اور سالانہ کانفرنسوں میں پابندی سے شرکت کر کے اپنی رپورٹ پیش کیا کرتا تھا ۔ اس کے با وجود انجمن کو درپیش اہم مسائل سے پوری طرح واقفیت رہی ۔انجمن کو موت و حیات جیسی عجیب کشمکش سے دوچار ہونا پڑا تھا اس کیلئے صرف دو نمایاں مسائل کا ذکر کرنا کافی ہے ۔ ایک تو سہ لسانی فارمولہ دوسرا اضلاع کے قائدین (انجمن کے) کو شہر حیدرآباد کی تنظیم میں نفوذ کی گنجائش فراہم کرتا تھا ۔ ان دو معرکتہ الآرا مباحث سے یہاں صرف نظر کر کے انجمن کی کارگزاریوں سے واقف کروانا مقصد ہے۔
اردو کیلئے نہ صرف مرکزی انجمن بلکہ ریاستی انجمن کے قائدین تک بھی سرکاری دفتروں میں نمائندگی کر کے جی او اور سرکلر جاری کرواتے ۔ رکاوٹوں کو دور کرنے والے احکامات کا اجراء ہوتا ۔ اس کے بعد نچلی سطح پر ضلعی اور منڈل دفاتر میں عمل آوری کیلئے جدوجہد کی جاتی تھی۔ اس طرح اردو کی بقاء کا موثر پروگرام رواں دواں رہتا ۔ عاجز  وقتاً فوقتاً انجمن کے دفتر پر کسی نہ کسی ضرورت پر حاضر ہوتا تو سرینواس لاہوٹی سے ملاقات ہوجاتی ۔خندہ پیشانی سے ملتے بڑی آو بھگت کرتے ۔ عزت دی جاتی ، سامنے بٹھاکر مسائل حل کر تے ۔ چھوٹے شہروں اور قصبات کے پروگراموں میں حیدرآباد کے ذمہ دار شریک ہوتے ، ان کی صدارت میں کارروائی ہوتی۔ سفر کی مشکلات کے علاوہ مناسب رہائش و آرام بھی فراہم نہ ہوتا تو کبھی شکایت نہ کرتے اور فرماتے سفر میں حضر کی آسائشوں  کی امید رکھنا بے کار ہے۔
سالانہ کانفرنس بھی اضلاع کے مستقر پر منعقد کی جاتی تھیں۔ حیدرآباد کے اردو ہال پر جس طرح مندوبین کے طعام و قیام کا انتظام کیا جاتا تھا ، بالکل اسی طرح ان مقامات پر بھی سہولتیں فراہم کردی جاتیں لیکن اردو ہال کے انتظامات اور ڈسپلن کی بات ہی کچھ اور ہوتی۔ ہر ڈیلیگیٹ کو پہلے روز صبح آمد پر پروگرام بیاچ کے علاوہ تین روزہ طعام کے نو (9) کوپن اور جانے کے لئے علحدہ کوپن دیئے جاتے ۔ طعام گاہ میں داخل ہونے سے قبل کوپن پیش کرنا پڑتا ۔ سرخ دسترخوان پر انواع و اقسام کے ڈش سجائے جاتے۔ حیدرآبادی تہذیب کی پوری طرح رعایت ہوتی ۔ چائے کی کینٹین میں کوپن دے کر چائے لی جاتی اور سارے  پروگرام طئے شدہ اوقات میں انجام پاتے۔ صدر انجمن حبیب الرحمن بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ سروقد گورا رنگ کلین شو سر پر رومی ٹوپی اور بدن پر شیروانی و پاجامہ زیب تن کرتے ۔ پانچوں وقت کی نماز کیلئے کھلی جگہ میں مصلے بچھے ہوتے اور صدر صاحب خصوصی دلچسپی سے نمازوں کا اہتمام کرتے ۔ خود پابندی سے شرکت کرتے ۔ قیام کیلئے اضلاع اور دوسری ریاستوں کے مندوبین کا یکجا انتظام کیا جاتا ۔ تین روز میں درمیانی دن خصوصاً مندو بین کے لئے ہوتا ، ان کو اپنے اپنے مقام کی رپورٹ پیش کرنی ہوتی تھی۔ پہلے دن مرکزی قائدین اور دوسرے دانشوروں کی تقریر پیش کی جاتیں ۔ آخری دن قراردادوں کی تیاری اور پیشکش ی میں نکل جاتا ۔ قیام کی دو راتوں میں پہلے دن مشاعرہ ہوتا اور دوسرے دن کی شب میں غزلیات کیلئے کسی آرٹس اکیڈیمی کی خدمت لی جاتی ۔ قیام گاہ میں مندوبین اردو رسائل و کتابیں ساتھ رکھتے اور ساتھیوں کو مطالعہ کے لئے پیش کرتے ۔ تعارف ہوتا روابط قائم ہوتے دوستی ہوتی خط و کتابت شروع ہوتی اور پھر دوبارہ سالانہ کانفرنس میں تجدید دوستی ہوجاتی ۔ یہ سلسلہ برسوں چلا جب تک انجمن کے ان ذمہ داروں میں دم خم رہا ، یہ مصروفیات جاری رہیں۔ ان کے اخلاص و محبت اور ایثار و قربانی کا یہ ثمر تھا کہ محبان اردو کو نہ صرف خدمت کا موقع ملتا بلکہ ہر سال دانشور طبقہ کی صحبت بھی نصیب ہوتی ۔حیدرآباد کے شاعر و ادیب اور مصنفین کا تعاون انجمن  کو حاصل تھا ۔ عوامی رابطے کے لئے انجمن ترقی اردو کے ذمہ دار جلسے مشاعرے اور سمینار منعقد کرتے۔ ان سالانہ جلسوں میں شہر کے قدیم علاقے سے لوگ شرکت نہیں کرتے تھے ۔ ان کی نمائندگی کی کمی کو پورا کرنے کیلئے مغلپورہ میں بھی اردو ہال کی تعمیر کی گئی ۔ اس طرح وہ دور اپنی اعلیٰ کارگزاروں کے ساتھ رخصت ہوگیا ۔ اب صرف یادیں باقی رہ گئیں۔