یادوں کی سوغات مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ ہرگز نمیرد آنکہ دش زندہ شد بہ عشق

 

ڈاکٹر حسن الدین صدیقی
بیسویں صدی کے ہندوستان میں جن عظیم شخصیتوں نے جنم لیا ان میں مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کا اسم گرامی اپنے میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ وہ ایک بے مثال عالم دین، بلند پایہ مصنف و محقق، مفکر اسلام اور مجتہد العصر کی حیثیت میں معلوم و مشہور تھے جن کی شخصیت میں مجاہدانہ فکر و عمل اور مومنانہ فراست کی جھلک نمایاں تھی اور اسی سبب انہیں آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کی دینی قیادت کا سرخیل و رہنما مانا جاتا تھا اور ہندوستان ہی کیا بلکہ ساری دنیا میں، بالخصوص عالم اسلام میں وہ ہندوستانی مسلمانوں کا ایک شناخت اور ایک آبرو بنے رہے اور تادم زیست وہ اپنی اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے۔ ایک ایسے وقت جبکہ ہندوستان ایک تہذیبی انقلاب کے دوراہے پر کھرا اور اس کے نوحکمران بنیادی تعلیم کے ذریعہ شرکت کے عمومی التزام کو قومیت کا معیار قرار دے رہے تھے۔ علی میاں نے جس شدتِ عمل سے اس کا تدارک کیا وہ لَہٗ وعدوۃ الحق کی صورت آشکار ہوا اور ہندوستان کی سیاست کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ بے شک آپ کی مجاہدانہ اور مجددانہ قیادت جدید ہندوستان کی تاریخ دعوت و عزیمت میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتی ہے اور انہیں ہمیشہ بھی حق و صداقت کی ایک تازہ تمثیل بطور یاد رکھا جائے گا۔ لیکن حق کی اس راہ میں انہیں جو ذہنی اذیت جھیلنی پڑی وہ بڑی جانکاہ ثابت ہوئی۔ ان کی زندگی کے آخری دہے میں لوگ جانتے ہیں کہ ندوہ پر کیا گزری اور کس طرح اس کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی گئی، کوئی بھی حساس دل اسپر پسیجتا۔ اِن انہونے واقعات سے مولانا کا شیشۂ دل ٹوٹ چکا تھا اور اس کے بعد اس بے وفا دنیا سے ان کا رشتہ بس برائے نام ہی جڑا رہا۔ ہرچند کہ ان کے اسفار جاری رہے بہ راہِ صدق وصفا لیکن غم گیتی سرا کو اپنے ساتھ ساتھ لیے جب بھی وہ حیدرآباد آتے بارے التفاتِ سخن سے نوازتے۔ پچھلی بار بار جب انہوں نے قدم رنجہ فرمایا بہت ہی ملول دکھائی دے رہے تھے۔ مجھ سے ان کی نجی ملاقات تو ہونی ہی تھی (کسے معلوم کہ وہ آخری ملاقات ہوگی)۔ اپنے میزبان و مصاحب سے کہا کہ وہ مجھے ’’ان کی شہرہ آفاق تصنیف‘‘ تاریخ دعوت و عزیمت‘‘ کے نو اشاعت شدہ انگریزی ترجمے ‘SAVIOURS OF ISLAMIC SPIRIT’ کی مکمل چار جلدیں تحفتاً ارسال کردیں (جو مجھے بعد میں بذریعہ پوسٹ مل گئیں)۔ پھر میرے لکھنو آنے سے متعلق دریافت کیا اور کہا کہ ’’جب آپ آرہے ہوں تو ہم کو اپنے پروگرام سے قبل از قبل مطلع کروادیں تاکہ ہم وہاں آپ کا توسیعی لکچر رکھواسکیں۔‘‘ یہ میرے لیے ایک اچانک اور حیران کن بات تھی ساتھ ہی ایک بڑے علمی اعزاز و اعتراف کی بھی۔ حضرت مولانا ہمیشہ ہی علم کو اس کے وسیع تر تناظر میں دیکھتے اور پرکھتے۔ معلوم نہیں کہ ان کی آگہی میں کیا تھا، ورنہ ’چہ نسبت خاک را باعالم پاک‘۔ افسوس کہ یہ سب کہا سنا رہ گیا اور کچھ ہی عرصہ بعد یہ اطلاع ملی کہ حضرت مولانا کو قلب کا عارضہ لاحق ہوا ہے اور وہ لکھنو ہی میں زیر علاج ہیں۔ میں فوراً ہی STD ’بک کیا‘ دیکھا کہ دوسری طرف ان کی صحت پر نگرانی رکھنے والے صاحبین کی چہ میگویاں ہورہیں۔ جب حضرت مولانا نے میرا نام سنا تو خود ہی رسیور تھاما اور مجھ سے ہمکلام ہوئے۔ آواز میں وہی پختگی، وہی ملاحت اور وہی دلپذیری تھی۔ صحت کے بارے استفسار کے بعد میں نے گزرے واقعات کے پس منظر میں بہ طیب خاطر مولانا قرآن کی ایک تلمیح پیش کیا جو بدلتے وقتوں کا آئینہ ہے جس پر مولانا مسرت سے سرشار ہوگئے۔ ملاحظہ ہو حضرت مولانا سے میری آخری گفتگو : ’’مجھے پچھلے دنوں پیش آئے واقعہ پر گہرا افسوس ہے۔ دراصل ہندوستان میں ایک گروہ اپنے کو فاتح کے روپ میں پیش کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہی حربے استعمال کررہا ہے جو معروف ہیں جیسا کہ سورہ نمل میں ملکہ سبا کے الفاظ میں قرآن میں آیا ہے : قَاْلَتْ اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَادَخلَلُوْ اقَرْیَۃۃ اَفْسَدُوْہَا وَجَعَلُوْ آاَعِزَّۃَ اہْلِہَآ اَذِلَّۃً وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ ْ (النمل 27 ، آیت 34) ۔ (ترجمہ ۔ قارئین کے لیے : (بلقیس) کہنے لگی کہ والیان ملک (کا قاعدہ ہے کہ ) جب کسی بستی میں (مخالفانہ طور پر) داخل ہوتے ہیں تو اسکوتہ وبالا کردیتے ہیں اور اس کے رہنے والوں میں جو عزت دار ہیں ان کو (ان کا وزن گھٹانے کے لیے) ذلیل کیا کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ بھی ایسا ہی کریں گے) ۔ چنانچہ مخالف نوحکمرانوں کا یہی معمول رہا ہے۔ میں جب یہ آیۃ کریمۃ پڑھ رہا تھا۔ حضرت مولانا مسرت سے سرشار مجھ سے آگے آگے پڑھتے چلے جاتے۔ سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا کہ ’’اس طرح کے واقعہ سے آپ ہرگز دل گرفتہ و ملول نہ ہوں اور نہ کوئی ذلت محسوس کریں۔‘‘ اور پھر ان کی دلجوئی کے لیے حافظ شیرازیؒ کا یہ شعر پڑھا:
گرمن آلودہ دانم چہ عجب
ہمہ عالم گواہِ عصمتِ تو
بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ وہ فارسی زبان کے بڑے شیدائی تھے اور یہی ہم میں ایک قدرِ مشترک تھی ورنہ وہ عربی اور میں عجمی۔ آخر میں مولانا علی میاںؒ نے کہا کہ ’’میں آپ کی محبت اور خلوص کے اظہار پر بے حد مسرت محسوس کرتا ہوں اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں‘‘ (26 نومبر 1998ء) ہماری اس بات چیت کو ہوئے بس ایک سال ایک ماہ اور چار دن کا عرصہ گزرا کہ اچانک یہ جانکاہ اطلاع عام ہوئی کہ بروز جمعہ بتاریخ 22 رمضان المبارک 1420ھ م 31 ڈسمبر 1999ء حضرت مولانا کی روح پر فتوح اپنے رب اعلی سے جاملی۔ (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔ اس طرح 1976ء سے شروع ہوئی۔ ہماری علمی شناسائی کا یہ روشن چراغ گل ہوا۔
اگر دانستم از روزِ ازل داغِ جدای را
نمی کردم بدل روشن چراغِ آشنای را