ڈاکٹر سید بشیر احمد
فیض صاحب کے دفتر میں ان کے قریبی دوست نارائن راؤ صاحب بحیثیت محاسب (Accountant) کام کرتے تھے ۔ نارائن راؤ صاحب بڑی دلچسپ شخصیت کے حامل تھے ۔ وہ عموماً شرٹ ، پینٹ اور واسکوٹ میں ملبوس رہتے تھے ۔ سر پر کالی ٹوپی رہتی ۔ آدمی بڑے پرلطف تھے ۔ ہم لوگ ان کو مہاراج کے نام سے مخاطب کرتے تھے ۔ مہاراج کو خودستائی کی بڑی عادت تھی ۔ ان کی گفتگو میں مبالغہ آرائی کی بہتات تھی ۔ ایک بار مہاراج نے کہا کہ ان کا تعلق فوج سے بھی تھا ۔ دوسری عالمی جنگ میں ان کی پوسٹنگ دریائے نیل (مصر) میں تھی ۔ جنگ کے دوران ایک بار ان کی فوج اور فوج مخالف میں فائرنگ کا تبادلہ عمل میں آیا ۔ مہاراج نے اپنی گفتگو کو صحیح بتاتے ہوئے کہا کہ بعض وقت تو گولی ان کے شانوں پر سے گزر گئی اور بعض اوقات سر پر سے حتی کہ بعض مرتبہ سر کے بال متاثر ہوئے لیکن وہ بال بال بچ گئے ۔ جب مہاراج کا جھوٹ سر چڑھ کے بولتا تو سننے والے احباب مہاراج کے پیٹ میں سر رکھ دیا کرتے تھے ۔ مہاراج ندامت اور غصہ کے عالم میں کہتے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ ہے ۔ اتفاق سے ایک دن ہم تین چار احباب دفتر کے اوقات کے بعد دفتر کے صحن میں چائے نوشی کررہے تھے ۔ مہاراج فائرنگ کا ذکر کررہے تھے اور خود کے اس فائرنگ میں معجزاتی طور پر بچ جانے کا حوالہ دے رہے تھے ۔ وہ دیوالی کے قریب کا زمانہ تھا ۔ ایک شریر لڑکے نے مہاراج کی کرسی کے پیچھے پٹاخہ جلایا ۔ مہاراج انتہائی ہیبت کے عالم میں کرسی سے اٹھنے کی کوشش میں گرتے گرتے بال بال بچ گئے ۔ احباب کی ہنسی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا ۔ مہاراج نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ’’امین صاحب سامنے سے گولی آئی تو اور بات ہے یہ پوٹا پیچھے سے ہٹاخہ چھوڑا اس لئے میں ذرا چونک گیا‘‘ ۔ ہم سارے احباب اٹھ کر مہاراج کے گود میں سررکھ دئے ۔ یہ ہم اس وقت کیا کرتے جب مہاراج کی مبالغہ آرائی انتہا کو پہنچ جاتی ۔ مہاراج ہمارے اس فعل سے بڑے شرمندہ ہوجاتے تھے ۔
ایک دفعہ مہاراج نے ہم احباب سے کہا کہ جب وہ آرمی میں تھے تو جنگ کے دوران ایک میجر نے ان کو بلوایا اورکہا کہ اس مقام سے لگ بھگ سو میل دور جنگی محاذ پر ایک کیپٹن کو جنگی نقشہ کی رپورٹ دینا ہے اس لئے اس عہدہ دار نے اس کام کی انجام دہی کے لئے مہاراج کا انتخاب کیا ہے ۔مزید اس نے کہا کہ طیارہ روانگی کے لئے تیار ہے وہ فوراً روانہ ہوجائیں ۔ مہاراج تعمیل حکم میں طیارہ کے ذریعہ روانہ ہوگئے ۔ تقریباً آدھا راستہ گزرنے پر مہاراج کو یاد آیا کہ وہ نقشہ وہیں بھول گئے ہیں ۔ انھوں نے پائلٹ کو فوراً مطلع کیا ۔ پائلٹ نے مہاراج کی پیٹھ پر جنگی موٹر سائیکل باندھی اور انھیں طیارہ سے پیراشوٹ کے ذریعہ اتر جانے کے لئے کہا ۔ مہاراج نے فوراً اس پر عمل کیا ۔ جب وہ زمین پر پہنچے تو انہوں نے پیراشوٹ نکال دیا اورکاندھے پر بندھی موٹر سائیکل کے ذریعہ واپس لوٹ گئے ۔ یہ گفتگو ہورہی تھی کہ احباب نے کہا کہ چائے کا وقت ہے ہوٹل چل کر چائے نوشی کریں گے چنانچہ میرے پاس اور ہمارے ایک دوست کے پاس موٹر سائیکل تھی اور دو حضرات کے پاس سائیکل اس طرح ہم لوگ وہاں سے نکلے ۔ ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہ تھی جب ہم نے مہاراج کو سائیکل ہاتھ میں لئے چلتے ہوئے دیکھا ۔ ہم لوگوںنے اپنی رفتار کو بالکل کم کرکے مہاراج کے سائیکل پر سوار ہونے کا انتظار کررہے تھے ۔ کچھ فاصلے پر ایک بڑا پتھر تھا اس پر مہاراج قدم جما کر سائیکل پر سوار ہوئے ۔ ہم لوگ ہوٹل کے پاس رک گئے لیکن مہاراج بدستور آگے بڑھے جارہے تھے بالآخر ایک پتھر ان کو نظر آیا اس پر پیر رکھ کر اترے ۔ جب ہم ہوٹل میں بیٹھے تو احباب نے ان سے دریافت کیا کہ محاذ پر تو وہ موٹر سائیکل پر سوار تھے اور اب سائیکل رانی میں ان کو اتنی دشواری کیوں پیش آئی ۔ مہاراج آسانی سے کب ہتھیار ڈالتے انہوں نے فوراً کہا کہ جنگ کے دوارن استعمال ہونے والی موٹر سائیکل بہت چھوٹی ہوا کرتی ہے جبکہ سائیکل اونچی ہوتی ہے اس لئے ان کو پتھر کا سہارا لینا پڑا ۔
ایک بار فیض صاحب کے ساتھ راقم کو مہاراج کے در دولت پر جانے کا اتفاق ہوا ۔ فیض صاحب نے مکان پر نہیں بلکہ مکان کے قریب الکٹرک پول پہ پتھر سے knock کیا ۔ کچھ ہی دیر میں مہاراج ہاتھ میں چپل لئے باہر آئے ۔ ان کے آنے کے دو منٹ بعد ان کی زوجہ محترمہ ہاتھ میں پھونکنی لئے ہوئے مہاراج کے پیچھے تیزی سے دوڑتی ہوئی ائیں ۔ مہاراج نے کہا ’’بھاگو‘‘ اس کے ساتھ ہی مہاراج اور فیض صاحب بھاگتے ہوئے نکل گئے ۔ میں حیرت زدہ کھڑا رہا ، میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مجھ کو کیا کرنا چاہئے ۔ بہرحال آہستہ آہستہ سڑک پر پہنچا جہاں پر مہاراج اور فیض صاحب میرے منتظر تھے ۔ مہاراج کے چہرے پر کوئی پریشانی یا پشیمانی کے تاثرات نظر نہیں آئے ۔
راقم الحروف کے ایک ساتھی جو راقم الحروف کے ساتھ ٹریننگ سے فارغ ہونے کے بعد نظام آباد ہی پر تعینات کئے گئے تھے وہ پکچر دیکھنے کے بڑے شوقین تھے ۔ نظام آباد میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے قریب نئی پولیس لائن کی تعمیر ہورہی تھی ۔ راقم الحروف مہتمم پولیس اورمہتمم تعمیرات سے اجازت لے کر ایک زیر تعمیر مکان میں مقیم ہوگیا ۔ اس مکان کے بالکل سامنے سریدھر راؤ صاحب کو بھی ایک زیر تعمیر مکان رہائش کے لئے مل گیا ۔ رات تقریباً ایک بجے انھوں نے میرے مکان پر آواز دی ۔ میں گہری نیند میں تھا بہرحال اٹھ کر ان سے دریافت کیا کہ ان کو کیا تکلیف ہے ۔ انہوں نے کہا گھر میں چراغ روشن کرنا ہے اور دیا سلائی نہیں ہے ۔ میں نے فوراً گھر میں جا کر ان کودیا سلائی پیش کی اور ان سے گذارش کی کہ رات دیر گئے ازراہ مہربانی مت اٹھایا کیجئے ۔ خیر وہ چلے گئے اور پندرہ منٹ بعد پھر مجھ کو آواز دی میں نے جھلایا ہوا پوچھا اب کیا تکلیف ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ دیا سلائی واپس کرنے آواز دئے تھے ۔ ان کو ہزار صلواتیں سناتا ہوا میں نے دروازہ بند کرلیا ۔ دوسری رات دوبارہ وہ رات کے ایک یا ڈیڑھ بجے پھر وارد ہوئے۔ میں نے دروازہ کھولا اور پوچھا اب کیا تکلیف ہے تو انہوں نے کہا کہ چراغ روشن کرنے دیا سلائی چاہئے ۔ انتہائی ناگواری سے مکان کے اندر گیا ۔ دوسرے دن صبح صبح کسی کام پر جانا تھا ، اس لئے میں بھی یونیفارم پہن کر آفس پہنچا ، سریدھر راؤ صاحب بھی آئے ، ہمارے انسپکٹر صاحب جن کا نام شمشیر خان تھا مجھے دیکھ کر کہا کہ میری آنکھیں لال کیوں ہیں ۔ کیا رات میں سوئے نہیں ۔ میں نے انسپکٹر صاحب کو رات کی روئیداد سنائی ۔ سریدھر راؤ صاحب نے جواباً انسپکٹر صاحب سے کہا کہ میں صحیح الدماغ نہیں ہوں ۔ دیا سلائی مانگے تو خفا ہوتا ہے اور واپس کرو تو بھی خفا ۔ میں صرف سر پیٹتا رہ گیا اور انسپکٹر صاحب بے تحاشہ ہنسنے لگے ۔ 1960 میں میرا تبادلہ حیدرآباد ہوگیا اور میں نظام آباد سے جائزہ دے کر حیدرآباد لوٹا اور دیا سلائی ان پر پھینک مارا ۔ اس کے بعد خیال آیا کہ وہ پھر دیا سلائی واپس کرنے نازل ہوں گے ۔ اس خیال سے میں جاگتا رہا حتی کہ صبح ہوگئی ۔
حیدرآباد میں چھ آٹھ ماہ میں میرے عہدیدار میری کارکردگی سے خوش ہو کر مجھے زیادہ ذمہ داری کے عہدے تفویض کئے ۔ ابتداء میں مجھ کو چیف منسٹر کے حفاظتی دستے ({{Personal Body Guard) مقرر کیا گیا ۔ میں آئی جی پی سے اجازت لے کر ایوننگ کالج میں داخلہ لیا تھا ۔ اس طرح مجھے Study کرنے کے لئے کافی وقت مل جاتا تھا ۔ صبح دس بجے جیپ کار آتی اور میں چیف منسٹر کے بنگلہ (گرین لینڈ) چلا جاتا ۔ وہاں پر مجھ کو ایک چھوٹا suite دیا گیا تھا جو ایک بیڈروم اور ورانڈے پر مشتمل تھا ۔ صبح پروگرام دے دیا جاتا جس میں چیف منسٹر کی مختلف مقامات پر روانگی اور واپسی درج رہتی ۔ ان اوقات میں مجھے اپنے اسٹاف کے ساتھ جیپ میں انہیں اسکارٹ کرنا پڑتا ۔ باقی وقت میں Study میں گذارتا ۔ اس طرح بڑی عمدگی سے میں کام بھی کرتا رہا اور پڑھتا بھی رہا ۔ اس دوران مختلف محکمہ جات کے سربراہوں سے بھی ملاقات کا موقع ملا ۔ دوران ملازمت مختلف تجربات ہوئے ۔ کچھ واقعات کا ذیل میں اندراج کیا جاتا ہے ۔
جس زمانے میں راقم الحروف بحیثیت موٹر ٹرانسپورٹ آفیسر سی پی ایل عنبرپیٹ میں کام کررہا تھا اس زمانے میں ڈاکٹر یوسف مرزا بحیثیت پولیس میڈیکل آفیسر کام کررہے تھے ۔ جناب صفدر حسین صاحب مہتمم پولیس تھے ۔ موصوف محکمہ پولیس میں اپنی ذاتی شرافت اور نجابت کی وجہ سے عہدہ داروں کے علاوہ سارے محکمہ میں عزت اور وقار کی نظر سے دیکھے جاتے تھے ۔ ان کے تبادلہ ہونے پر ایک تہنیتی جلسے کا انعقاد عمل میں آیا تھا ۔ ان کی تقریر کے چند جملے آج تک میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ سب انسپکٹر سے ترقی کرتے ہوئے اس عہدہ جلیلہ پر پہنچے لیکن ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی سوائے اس کے کہ وہ کسی زمانے میں سائیکل سوار تھے اور آج موٹر نشین ہیں ۔ وہ محکمہ پولیس میں بے انتہا مقبول تھے ۔ پولیس کے نچلے درجہ کے لوگ ان کو ’’صفدر بابا‘‘ کے نام سے یاد کررہے تھے ۔ کسی بات پر وہ ڈاکٹر یوسف مرزا سے سخت ناراض ہوگئے ۔ ڈاکٹر یوسف مرزا پولیس کی جیپ کبھی کبھار استعمال کرتے تھے ۔ میں چونکہ پولیس ٹرانسپورٹ آفیسر تھا ، جناب صفدر حسین نے فون کے ذریعہ مجھے حکم دیا کہ ان کے حکم کے بغیر ڈاکٹر یوسف مرزا کو جیپ نہ دی جائے ۔ بعد میں ڈاکٹر یوسف مرزا اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار کئے اس کے بعد پھر ان کو وہ سہولت دی گئی ۔ صفدر صاحب کے تبادلہ کے بعد محمد علی صاحب مہتمم ہوئے وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح نہایت عمدہ آفیسر تھے ۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد ان کا بھی تبادلہ ہوگیا ۔ ان کے بعد جناب کے این ریڈی صاحب نے ان سے جائزہ حاصل کیا ۔ موصوف بھی راقم پر سابقہ عہدہ داروں کی طرح مہربان تھے ۔