ہے آستین بھی اُجلی مرے کفن کی طرح

کے این واصف
پچھلے ہفتہ روزنامہ ’’سیاست‘‘ کے صفحہ اول پر یہ سرخی لگی تھی ’’اگر میں مجرم ہوں تو پھانسی پر لٹکادیاجائے‘‘ یہ الفاظ نریندرمودی کے تھے جو انھوں نے اے این آئی کو دئے گئے انٹرویو میں کہے تھے۔ اس گفتگوکی تفصیل کچھ یوں تھی ۔
’’2002ء گجرات فسادات کے لئے کسی طرح کی معذرت خواہی کا امکان پھر ایک مرتبہ مسترد کرتے ہوئے نریندر مودی نے کہاکہ ان کے خلاف جو الزامات عائد کئے جارہے ہیں ، ان میں ذراسی بھی سچائی ہوتو انھیں برسرعام پھانسی پر لٹکادیاجائے ۔ انھوں نے کہاکہ معذرت خواہی سے کچھ نہیں ہوگا۔ اس طرح کے الزامات سے نمٹنے کا صحیح یہ راستہ نہیں ہے۔ نریندر مودی نے یہ بات اس وقت کہی جب انھیں بتایاگیاکہ مابعد گودھرا فسادات کے لئے معذرت خواہی کا مطالبہ کیاجارہاہے۔ ان فسادات میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

مودی نے کہاکہ اگر ان الزامات میں ذراسی بھی سچائی ہوتو ان کا یہ احساس ہے کہ ہندوستان کے تابناک مستقبل اور روایات کی خاطر انھیں چوراہے پر پھانسی دے دینی چاہیے۔ یہ ایک ایسی عبرتناک سزا ہوگی جس کے بعد آئندہ سوسال تک کوئی اس طرح کے جرم کے ارتکاب کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ نریندرمودی نے کہااگر انھوں نے جرم کیاہے تو انھیں معافی نہیں ملنی چاہیے آخر یہ کیا طریق کار ہے کہ عوام معذرت خواہی پر معاف کردیتے ہیں ۔ ایسی کوئی معذرت خواہی نہیں ہونی چاہیے۔ اور مجھے معاف بھی نہیں کیا جاناچاہیے۔‘‘
نریندر مودی کا بیان اور پھانسی پر لٹکائے جانے کا جملہ پڑھ کر اچانک عزیزقیسی کے شعر کاایک مصرع ذہن میں آیا۔ع۔ہے آستین بھی اُجلی مرے کفن کی طرح (دوسر امصرع ذہن میں محفوظ نہیں ہے، معاف فرمائیں )۔ شاعرنے قاتل کی شاطرانہ سفاکی پر اظہار حیرت کیا اورشاعر کا یہ مصرع مودی کی سفاکی پر صادق آتاہے۔

گجرات 2002؁ء کافساد کوئی عام فساد نہیں تھا جس میں کسی بات پر دو گروہ آپس میں نبرد آزما ہوجاتے ہیں ۔ایسے تصادم میں کم وبیش دونوں گروہ کے افراد مارے جاتے ہیں یا زخمی ہوتے ہیں ۔ مگر جو فساد منصوبہ بند ہوتے ہیں اس میں ایک فرقہ کے افراد کاجانی ومالی نقصان ہوتاہے ۔ کیونکہ مظلوم دشمن کی پلاننگ سے ناواقف یا بے خبر رہتے ہیں ۔ اور یہی کچھ گجرات کے فسادات میں ہواتھا۔ ان فسادات کے ماسٹر مائنڈ نریندر مودی نے اس بھیانک جرم کے سلسلے کے تمام ثبوت وشواہد مٹادئے جس کے ذریعہ سے قانون کے ہاتھ نریندر مودی کی گردن تک پہنچ سکتے تھے۔ اس طرح مودی اپنی آستین کو مقتول کے کفن کی طرح اجلارکھنے میں کامیاب رہے۔ اسی لئے وہ آج ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ رہے ہیں کہ میں مجرم ہوں تو مجھے پھانسی پر لٹکادیا جائے۔ اور قانون کی مجبوری یہ ہے کہ اس کو ثبوت چاہیے۔ جس نے قتل کئے اور ثبوت مٹادئے وہ بری ہوگیا۔

اب آئیے! 2002ء گجرات فسادات کے حقائق پر اک نظر ڈالتے ہیں جس سے کوئی انکا رنہیں کرسکتا۔ سب سے پہلے گجرات میں فساد ہوئے یہ پہلی حقیقت ہے۔ ان فسادا ت میں صرف ایک ہی فرقہ (مسلمانوں کا) جانی ومالی نقصان ہوا، ظلم وبربریت کا ننگا ناچ ہوتارہااور سیکورٹی فورسیس یاقانون کے محافظین خاموش تماشائی بنے رہے، سارے ثبوت وشواہد مٹادئے گئے یا کچھ شواہد جانتے بوجھتے حاصل ہی نہیں کئے گئے۔ جسے دوران فساد معتبر ومعروف شہریوں کے فون کالس جوقانون کے محافظین اور قائدین کو کئے گئے۔ آخر ی اور سب سے بڑی حقیقت اس وقت نریندر مودی ریاست کے چیف منسٹر تھے جو ریاست کے نظم ونسق اور شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کے راست یا بالواسطہ طورپر ذمہ دارتھے۔ مضبوط شواہدوثبوت پیش نہ کئے جانے کے سبب عدالت عظمیٰ نے نریندر مودی کو ’’کلین چٹ‘‘ دے دیا۔

ملک کی جمہوری روایات کی تاریخ گواہ ہے کہ لال بہادر شاستری نے بحیثیت ریلوے منسٹر ایک ٹرین حادثہ کا شکار ہونے پر اپنی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیاتھا۔ اور ریاست گجرات میں ایک ہزار سے زائد مسلمانوں کاقتل عام کیاجاتاہے اور مودی کہتے ہیں کہ اگر کوئی کتے کا بچہ کار کے نیچے آکر مرجائے تو کیا کار میں بیٹھنے والا اس کا ذمہ دار ہوگا؟ پچھلے ہفتہ ’’آپ کی عدالت‘‘ پروگرام میں رجت شر مانے مودی سے اس جملہ کاذکر کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو لوگ کتا کہہ رہے ہیں ۔ اس جملہ پر مودی نے شرمندگی کے اظہار کی بجائے مسکراتے ہوئے کہاکہ کتے کی وفاداری کے تو سب قائل ہیں مجھے کوئی دکھ نہیں کہ لوگ مجھے کتا کہیں ۔ اس انٹرویو کے دوران مود ی نے اپنی زندگی کے سفر اورابتدائی زندگی میں طرح طرح کے مسائل کاسامناکر نے کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ میں یہاں یہ بتانا چاہوں گاکہ آج بھی میری ماں 8X8کے ایک کمرہ میں رہتی ہے ۔ اور ظاہر ہے مودی تو بحیثیت چیف منسٹر کسی شاندار کوٹھی میں رہتے ہوں گے۔ جو شخص اپنی ماں کو ایک آرام دہ زندگی نہیں دے سکتاکیا وہ سواسو کروڑ ہندوستانیوں کے حالات بدل سکتاہے۔ جیساکہ الیکشن کے اشتہارات میں کہاجارہاہے، جو شخص اب تک شادی شدہ ہوکر بھی ہمیشہ انتخابات کے نامزدگی فارم میں غیر شادی شدہ بتاتا رہا، کیاوہ ملک میں عورت کو طاقت اور اس کے حقوق دلاسکتاہے۔ آج کل ٹی وی کے ہر چینل پر نریند رمودی خود اپنے منھ سے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’میرا منترتو Minimum Governmentاور Maximum Governanceہے ‘‘ توپھر جب گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہاتھا تب ان کا گورنننس کہاں تھا؟کیاہندوستان کے عوام کو ایسے شخص پر بھروسہ کرنا چاہیے۔

کیا ہندوستان کے عوام کو ’’اب کی بار ، مودی سرکار‘‘ کے نعرے کی تائید کرنی چاہیے؟ 2014ء کے الیکشن بہت اہمیت کے حامل ہیں ۔ ہندوستان کے سیکولر ذہن لوگوں کو بہت سوچ سمجھ کر اپنے ووٹ کا استعمال کرنا ہے۔ ورنہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کی عظیم جمہوریت کا دنیا میں تماشہ بناکررکھ دیں گی ۔
کیرئیر گائیڈنس پر سیمنار
حیدرآباداسوسی ایشن دمام نے اپنے سلسلہ وار معلوماتی لیکچرس اور سیمینار س کے سلسلے کی کڑی کے طورپر پچھلے ہفتہ ہندوستانی طلباء کے لئے ایک کیرئیر گائیڈنس سیمینار کا اہتمام کیا۔ سیمینار کے کلیدی مقرر انجینئر شجاع شریف کی جانب سے دئے گئے اس لیکچر کا عنوا ن ’’ملک اور بیرون ملک شعبہ انجینئرنگ میں روشن امکانات‘‘ تھا۔ شجاع شریف ہندوستانی کمیونٹی کی ایک فعال ومتحرک شخصیت ہیں ۔ آپ انڈین انجینئرنگ فورم دمام کے صدر اور دیگر کئی سماجی تنظیموں سے وابستہ ہیں ۔ سیمینار کے افتتاحی اجلاس میں خیرمقدم کرتے ہوئے اسوسی ایشن کے صدر مرزا ظہیربیگ نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ کنگ فہد یونیورسٹی برائے پٹرولیم ومعدنیات دمام ، شعبہ تحقیق سے وابستہ ظہیر بیگ نے کہاکہ سعودی عرب یا خلیجی ممالک میں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے والے بچے وطن میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے پوری طرح واقف نہیں رہتے ۔

لہٰذا اسوسی ایشن وقفہ وقفہ سے آگاہی پید اکرنے کی خاطر کیرئیر گائیڈنس لیکچر کا اہتمام کرتی ہے۔ ظہیر بیگ نے KFUPMمیں داخلے حاصل کرنے کے طریق کار کی تفصیلات بھی پیش کیں ۔ مہمان خصوصی پروفیسر فیض الرحمن (KFUPM)نے بھی اپنے خطاب میں طلباء پر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انھوں نے کہاکہ طلباء کو چاہیے کہ وہ ایسے شعبہ کا انتخاب کریں جس کی آج بہت زیادہ مانگ ہے۔ کلیدی مقرر انجینئر شجاع شریف نے انجینئرنگ کے مختلف شعبوں کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ انھوں نے خلیجی ممالک کے اسکولی تعلیم کے آخری پڑاؤ میں قدم رکھنے والے طلباء جو شعبہ انجینئرنگ میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں کو ہندوستان ، دبئی ، بحرین ، سعودی عرب، ملیشیاوغیرہ میں داخلے حاصل کرنے کے طریق کار کی تفصیلات سے واقف کرایا ۔ انھوں نے ان ممالک کی جامعات کی فیس، ہاسٹل کے اخراجات کی وغیرہ کی تفصیلات ہے بھی طلبہ کو آگاہ کیا ۔ شجاع نے انجینئرنگ اور اعلیٰ تعلیم کے دیگر شعبہ جات کے لئے ہندوستان میں ہونیو الے مسابقتی امتحانات کے بارے میں بھی مکمل معلومات فراہم کیں۔ آخر میں شجاع شریف نے طلباء سے کہاکہ علم کا حاصل کرنا اچھے مستقبل کی ضمانت ہی نہیں بلکہ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کاضامن بھی ہے۔
ڈاکٹر عبدالحئی خان نے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔ اسوسی ایشن کے اراکین عبدالرؤف اور محمد عبدالوحیدنے تمام انتظامات کی نگرانی کی اور آخرمیں محمد عرفان الدین کے کلماتِ ٔ تشکر پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا ۔
E-mail:knwasif@yahoo.com