میرا کالم مجتبیٰ حسین
صاحبو ! پچھلے ہفتہ ہم نے ایک طویل عرصہ بعد ہیلمٹ کے خلاف ایک کالم یونہی ذائقہ بدلنے کے لئے ’’دستار فضیحت‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا تھا جس میں ہیلمٹ کے استعمال کی آڑ میں ٹریفک پولیس کی زیادتیوں کو اجاگر کرنے کے علاوہ سکندر اعظم کے زمانے سے لے کر دور جدید تک ہیلمٹ کی بتدریج بدلتی ہوئی شکلوں جیسے پگڑی ، ترکی ٹوپی ، ہیٹ اور دوپلی وغیرہ کے حوالے سے ہیلمٹ کے زوال کی مختصر تاریخ بیان کی تھی اور یہ بھی کہا تھا کہ اسکوٹر سوار بھلے ہی ہیلمٹ پہنے یا نہ پہنے اس کا زخمی ہونا ہر حالت میں برحق ہوتا ہے کیونکہ ہمارے ہاں ٹریفک کا وہ عالم ہوتا ہے کہ اگر آدمی ہیلمٹ پہن بھی لے تو وہ کسی نہ کسی سے ٹکرا کر اپنے آپ ہی زخمی ہوجاتا ہے اور اگر ہیلمٹ نہیں پہنتا تو پولیس کے سپاہی تعاقب کرکے اس کی اتنی پٹائی کرتے ہیں کہ بے چارا اپنی حالت کو دیکھ کر کف افسوس ملتا ہے کہ اے کاش وہ پولیس کی پٹائی کی بجائے ٹریفک حادثے میں زخمی ہوجاتا تو اس کی حالت اتنی تشویشناک اور حالات اتنے خراب نہ ہوتے ۔
ہم دراصل اس بات کے قائل ہیں کہ قسمت میں جولکھا ہوتا ہے وہ بالآخر ہو کر رہتا ہے چاہے آدمی ہیلمٹ پہن لے یا دبابے میں بیٹھ کر سڑک پر نکلے ۔ پھر سو بات کی ایک بات یہ کہ جو کوئی بھی یہاں آتا ہے اسے بالآخر ایک نہ ایکدن اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہی ہوتا ہے ۔ اتنی آسان سی بات کسی کی سمجھ میں آجائے تو پھر کوئی پریشانی نہیں ہوتی ۔ بہرحال اس کالم کے جواب میں ایک صاحب نے نظام آباد سے خط لکھ کر ہمیں یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم ایک ایسے قدامت پرست ، دقیانوسی اور از کار رفتہ انسان ہیں جسے سائنسی ایجادات اور زمانہ کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور یہ کہ ہم آئین نو سے ڈرنے اور طرز کہن پر اڑنے کے عادی ہیں حالانکہ دیکھا جائے تو ہیلمٹ کے کئی فائدے ہیں ۔ اس ضمن میں موصوف نے خود نظام آباد کے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ دو اسکوٹر سواروں کے ہیلمٹ سائز ، برانڈ اور رنگ کے اعتبار سے بالکل ایک دوسرے سے ملتے جلتے تھے ۔ دونوں اپنی بیویوں کے ہمراہ شاپنگ کے ارادے سے ایک دکان پر گئے ۔ واپسی میں دونوں جوڑے ایک ساتھ باہر نکلے لیکن ہیلمٹ کی مشابہت کی وجہ سے دونوں کی بیویاں غلط شوہروں کے ساتھ صحیح اسکوٹروں پر بیٹھ کر چلی گئیں ۔ بہرحال منزل پر پہنچنے کے بعد دونوں خواتین کو غلطی کا احساس ہوا تو پھر منزل مقصود پر واپس آگئیں ۔ ان صاحب نے اس مزاحیہ صورت حال کو اپنے دلچسپ انداز میں بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہیلمٹ کے استعمال کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آدمی بوالعجبی میں ایسی حرکتیں کرگزرتا ہے کہ معاشرے میں ہنسی اور خوش مذاقی کی دولت تقسیم ہونے لگتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ محض اس ایک اتفاقی واقعہ کو لے کر ہم ہیلمٹ کو ایک فائدہ مند چیز تسلیم کرنے سے قاصر ہیں ۔ یوں بھی بیویوں کا بدل جانا بھلے ہی کوئی ٹریفک حادثہ نہ ہو لیکن ایک بڑا جذباتی حادثہ تو ہوسکتا ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ ہم عمر کی اس منزل میں ہیں جہاں آدمی اپنے آپ ہی شریف ، پاکباز ، نیک اور پرہیزگار بن جاتا ہے ۔ اب ہماری عمر ایسی نہیں رہی کہ بالوں میں چاندی سجا کر ایسی باتوں سے لطف اندوز ہوں اور نعوذ باللہ ان باتوں کو فائدہ مند سمجھیں ۔ اگر ہیلمٹ کے ایسے فائدے گنانے پر ہم اتر آئیں تو بخدا ایسے فائدوں کی ایک منڈی سجا کر رکھ دیں۔ بہت پرانی بات ہے ہم ایک ایسے مکان میں کرایہ پر رہتے تھے جس کے مالک کو شاعری کا بے پناہ شوق تھا ۔ خود بھی شعر کہتے تھے ۔ یہ اور بات ہے کہ اپنے مکان ہی کی طرح بے بحر شعر کہتے تھے ۔ جس طرح ان کے شعر کا کوئی مصرعہ دوسرے مصرعہ سے موزوں نہیں ہوتا تھا اسی طرح ان کے گھر کے کمرے بھی ایک دوسرے سے مطابقت اور مماثلت نہیں رکھتے تھے ۔ حد ہوگئی کہ کھڑکیوں کے پٹ بھی اپنی چوکھٹوں سے میل نہیں کھاتے تھے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہیں اپنے اسی قماش کے شعر سنانے کا بے حد شوق تھا ۔ چونکہ ہم بروقت کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے تھے اس لئے وہ اپنے بے معنی اور بے موزوں شعروں کی داد وصول کرنے کے لئے ہمارے پاس اکثر آجاتے تھے ۔ لہذا ہم نے ہیلمٹ کی آڑ میں ان سے بچنے کا ایک نادر طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا ۔ چنانچہ ہم نے ایک ایسا ہیلمٹ خریدا جسے پہننے کے بعد بھلے ہی لوگوں کو ہماری آنکھیں نظر آجاتی تھیں لیکن چہرہ بالکل دکھائی نہیں دیتا تھا ۔ اکثر ایسا ہوا کہ ادھر وہ بصد اشتیاق اپنا کلام بلاغت نظام سنانے کی غرض سے ہمارے پاس آرہے ہیں اور ہم ان کے سامنے سے ہیلمٹ میں ملفوف ہو کر شاداں و فرحاں چلے جارہے ہیں ۔دو ایک بار تو ایسا بھی ہوا کہ انہوں نے دروازے پر دستک دی اور ہم نے ہیلمٹ پہن کر نہ صرف خود ہی دروازہ کھولا بلکہ آواز بدل کر گھر میں اپنے موجود نہ ہونے کا اعلان بھی کیا جسے ہمارے مالک مکان نے بلاچوں وچرا قبول بھی کرلیا ۔ ذرا سوچئے کہ ہیلمٹ کا کتنا بڑا فائدہ ہے کہ آپ بے معنی اور بے وزن شعر سننے کی زحمت سے بچ جاتے ہیں ۔ یہی نہیں راستہ سے گزرتے ہوئے آپ ہیلمٹ کی عنایت اور برکت سے کئی ناپسندیدہ عناصر سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں ۔
اب آپ سے کیا چھپائیں کہ دہلی میں ہمارے ایک دوست صرف ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی کی وجہ سے آج ملک کے ممتاز طبلہ نواز سمجھے جاتے ہیں ۔ جب دہلی میں ہیلمٹ کا چلن عام ہوا تو ہم نے دیکھا کہ جب بھی وہ اسکوٹر کو پارک کردینے کے بعد ہیلمٹ کو اپنے ساتھ لے کر ہمارے کمرے میں آتے تو ان کی انگلیاں انجانے میں ہیلمٹ کی پیٹھ کر طبلہ بجانا شروع کردیتی تھیں ۔ اسکا اندازہ انہیں بھی نہیں تھااور ہمیں بھی نہیں تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس سے پہلے بھی وہ بسا اوقات ہماری ٹیبل کو اس مقصد کے لئے استعمال کیا کرتے تھے لیکن ہیلمٹ پر ان کے ریاض کے باعث ایک دن ان کی قسمت اور ان کی طبلہ نوازی کے جوہر اچانک چمک اٹھے ۔ ہوا یوں کہ ایک دن ہمارے یہ دوست حسب معمول ہمارے کمرے میں اپنے ہیلمٹ پر طبلہ کا ریاض کررہے تھے کہ دہلی دور درشن کے مشہور طبلہ نواز ، جن کا تعلق تان سین گھرانے سے ہے ، ہم سے ملنے کے لئے آگئے ۔ آئے تو وہ ہم سے ملنے کیلئے تھے لیکن جب انہوں نے ہیلمٹ پر ہمارے دوست کو طبلہ بجاتے ہوئے دیکھ لیا تو ان کی انگلیوں کی فنکاری کے سحر میں ڈوب گئے ۔ بولے ’’قبلہ! آپ تو پیدائشی طبلہ نواز ہیں ۔ اپنے فن کو ہیلمٹ پرکیوں ضائع کررہے ہیں؟‘‘۔ اس کے بعد ہمارے ان دوست نے ان کی شاگردی قبول کرلی اور ماشاء اللہ آج ان کا شمار مستند طبلہ نوازوں میں ہوتا ہے ۔خدا کے فضل سے اب وہ ہیلمٹ کے استعمال کی پابندی سے بھی ماورا ہوچکے ہیں کیونکہ اب وہ موٹر نشین بن گئے ہیں اور اپنے طبلوں کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ہیلمٹ کے استعمال کے کتنے فائدے آپ کو بتائیں ۔ لیجئے ہمیں ایک اور واقعہ یاد آگیا ۔ پچیس تیس برس پہلے کی بات ہے ۔ ایک رات ہم جامع مسجد دہلی کی سیڑھیوں کے آگے اپنے دوستوں کی ٹولی کے ساتھ کھڑے باتیں کررہے تھے ۔ حسب معمول ہمارے ہاتھ میں ہیلمٹ تھا جسے ہم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے کچھ اس طرح پکڑ رکھا تھا جیسے ہیلمٹ کو دوسروں کی نظر سے چھپانا مقصود ہو ۔ خود ہمارا رخ چونکہ اپنے احباب کی طرف تھا اس لئے ہم نے غور نہیں کیا کہ ہماری پیٹھ پیچھے ہمارے ہیلمٹ کے ساتھ کیا سلوک کیا جارہا ہے ۔ بڑی دیر کی گپ شپ کے بعد جب ہم نے اپنے سرپر ہیلمٹ پہننے کی کوشش کی تو اچانک ہمارے سر کے اوپر سے کئی چھوٹے موٹے سکے گرنے لگے ۔ گنتی کی تو پورے پندرہ روپیوں کی مالیت کی ریزگاری نکلی ۔ دوستوں کا خیال تھا کہ راہ گیروں نے ہمیں ایک ایسا خوددار بھکاری سمجھا جس نے اپنی انا کی حفاظت کی خاطر کشکول کو اپنی پیٹھ کے پیچھے پکڑ رکھاہے تاکہ بھیک دینے والے اور بھیک وصول کرنے والے دونوں کی آنکھوں میں علی الترتیب تفاخر اور شرمساری کے آثار پیدا نہ ہوں ۔
ہیلمٹ کا ایک فائدہ ہمیں یہ بھی نظر آیا کہ بازار سے سودا سلف خریدنے کے بعد اگر آپ کے پاس سامان زیادہ ہوجائے اور تھیلی میں گنجائش نہ رہ گئی ہو تو آپ اس زائد مال کو ہیلمٹ کے کشکول میں رکھ سکتے ہیں ۔ یوں بھی پلاسٹک کی تھیلی کے مقابلہ میں ہیلمٹ کا کشکول زیادہ پائیدار اور مضبوط ہوتا ہے ۔ ہمارے ایک شناسا ، جو آبکاری کے محکمہ میں کام کرتے ہیں ، اپنی بالائی آمدنی کو ہیلمٹ میں ہی محفوظ رکھتے ہیں تاکہ محنت کی کمائی اور بالائی آمدنی میں فرق برقرار رہے اور حساب فہمی میں کوئی دشواری نہ پیش آئے ۔ چلتے چلتے یہ واقعہ بھی سن لیں کہ کچھ برس پہلے دہلی میں وقفہ وقفہ سے زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جانے لگے تھے ۔ عوام کی سہولت کی خاطر ایسی احتیاطی ہدایات بھی دی جانے لگیں کہ زلزلہ کا جھٹکا محسوس ہو تو دیوار کے ساتھ لگ کر نہ کھڑے رہیں بلکہ ہوسکے تو کسی میز یا پلنگ کے نیچے گھس جائیں تاکہ دیوار کا ملبہ گرے تو آپ کو چوٹ نہ آئے ۔ ہم نے اس ہدایت پر عمل کرنے میں وہ مستعدی دکھائی کہ گھر میں نہ صرف چوبیس گھنٹے ہیلمٹ پہنے رہتے تھے بلکہ جب کھانا کھانے کا وقت آتا تھا تو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے بلکہ ڈائننگ ٹیبل کے نیچے دسترخوان بچھا کر باہیلمٹ کھانا کھاتے تھے ۔ کیا یہ ہیلمٹ کا کوئی معمولی فائدہ ہے ۔ اگر ہم نے غلطی سے ہیلمٹ کے خلاف ایک کالم لکھا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم ہیلمٹ کے فائدوں سے سراسر نابلد اور ناواقف ہیں ۔ زندہ رہنے کے لئے آدمی کو کئی آزمائشوں اور مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک کامیاب زندگی کا کامیاب سفر سود و زیاں کے مقررہ اور مروجہ اصولوں کا پابند و محتاج نہیں ہوتا ۔ یہی کلید کامیابی ہے اور ہم نے اس راز کو بہت پہلے پالیا تھا ۔ چنانچہ آج بھی ہیلمٹ کے بغیر ہم نے اپنی کلاہ کج کو اسی بانکپن کے ساتھ برقرار رکھا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو آج ہم بھی کروڑپتی ہوتے ۔ یہ بات الگ ہے کہ ہماری جھولی تجربات و حوادث کی دولت سے اتنی مالا مال نہ ہوتی ۔