محمد ریاض احمد
ہندوستان کے کسی بھی علاقہ میں جا کر ہم اگر مسلم بچوں اور بچیوں سے یہ دریافت کریں کہ آپ لوگ بڑے ہو کر کیا بننا چاہوگے تو ہمیں یقین ہے کہ 99 فیصد بچوں کا جواب یہی ہوگا کہ ہم بڑے ہو کر انجینئر ، ڈاکٹر یا ٹیچر بنیں گے ۔ کوئی بچہ یا بچی یہ نہیں کہے گا کہ وہ آئی اے ایس ، آئی پی ایس ، آئی آر ایس ، آئی ایف ایس بننا چاہتا ہے۔ مسلم طلبہ میں پائے جانے والی اس رجحان کے باعث شاید آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ داروں میں مسلمان بہت ہی کم تعداد میں نظر آتے ہیں۔ 27 جون 2014 کو میڈیا میں ایک رپورٹ منظر عام پر آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ ملک میں آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ داروں کی جملہ تعداد 8417 میں مسلم عہدہ داروں کی تعداد صرف 292 یعنی 3.46 فیصد ہی ہے ان میں سے 160 ایسے ہیں جو سیول سرویس امتحانات میں کامیابی حاصل کرنے والے 5862آئی اے ایس اور آئی پی ایس عہدہ داروں میں شامل ہیں جبکہ 132 ایسے ہیں جو ان 2555 عہدہ داروں میں شامل ہیں جنھیں حکومت نے سینیارٹی اور عمدہ کارکردگی کی بنیاد پر ترقی عطا کرتے ہوئے آئی اے ایس اور آئی پی ایس بنایا ہے ۔ اس رپورٹ کا جائزہ لینے پر پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں جملہ 4619 آئی اے ایس اور 3798 آئی پی ایس عہدہ دار ہیں ۔
ان میں سے 153 یعنی 3.31 فیصد مسلم آئی اے ایس اور139 (3.66 فیصد) آئی پی ایس ہیں ۔ اس طرح سال 2011 میں کی گئی مردم شماری کے تحت ملک کی جملہ آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 13.43 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں 5.73 لاکھ مسلمانوں کیلئے ایک مسلم آئی اے ایس ، آئی پی ایس ہے جبکہ 1.08 لاکھ غیر مسلموں کے لئے ایک آئی اے ایس ؍ آئی پی ایس عہدہ دار پایا جاتا ہے تاہم اگر آبادی کے غیر سرکاری اعداد و شمار کو بنیاد بنایا جائے تو ملک میں مسلمانوں کی آبادی 20 تا 23 فیصد بنتی ہے ۔ ان حالات میں ایک ملین سے زائد مسلمانوں میں ایک آئی اے ایس اور آئی پی ایس آفیسر بن رہا ہے جو ایک مایوس کن رجحان ہے اسے ہندوستانی مسلمانوں کیلئے کسی بھی طرح اچھی علامت قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ اگر آج ہندوستان میں کسی بھی طبقہ کی ترقی و خوشحالی کا اندازہ لگانا ہو تو سب سے پہلے اس کے آئی اے ایس ، آئی پی ایس عہدہ داروں ، سرکاری ملازمین اور صنعت کاروں کی تعداد دیکھی جائے تب بآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کونسا طبقہ کتنا خوشحال ہے اس معاملہ میں مسلمان انتہائی پسماندہ ہیں جس کے نتیجہ میں فی الوقت انھیں ہر طرح سے دبایا اور کچلا جارہا ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات کے نام پر نہ صرف انھیں معاشی ترقی سے روکا جارہا ہے بلکہ قانونی مسائل میں الجھا کر مسلمانوں کے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ۔ غرض تعلیمی و معاشی پسماندگی کے نتیجہ میں مسلمان ہر سطح پر استحصال کا شکار ہیں ۔
قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو بھی مسلمانوں کو پسماندگی کی بنیاد پر فرقہ پرست بڑے ہی مکارانہ طریقے سے استعمال کررہے ہیں ۔ ہاشم پورہ قتل عام میں عدالت کا فیصلہ اور دوچار یوم قبل ورنگل کے آلیر میں مسلم زیر دریافت قیدیوں کا انکاؤنٹر اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں ۔ مسلمانان ہند صرف اور صرف تعلیمی اور معاشی طور پر مستحکم ہوکر ہی ہر پریشانی ہررکاوٹ کا سامنا کرسکتے ہیں ۔ تعلیمی میدان میں مسلم بچوں اور نوجوان نسل کا آگے بڑھنا ضروری ہے ۔ تب ہی وہ سرکاری ملازمتوں بالخصوص پولیس میں اپنا تناسب بڑھاسکتے ہیں ۔ تعلیم کی اہمیت و افادیت مسلمہ ہے اس کے بنا ترقی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی سوچتے ہوئے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان نے اپنے اخبار کے ذریعے تعلیمی تحریک کا آغاز کیا ۔ مسلم طلباء و طالبات کیلئے ٹیلنٹ سرچ امتحانات کا انعقاد عمل میں لاکر انھیں انجینئرنگ میڈیسن (ایم بی بی ایس ، بی یو ایم ایس) ، فارمیسی کورس میں داخلوں کیلئے تیار کیا ۔ مسلم طلبہ میں شخصیت سازی کے فروغ کی خاطر پرسنالٹی ڈیولپمنٹ پر ماہرین کے لکچرس کا اہتمام کروایا ۔ دوسری جانب محکمہ پولیس اور دیگر سرکاری محکموں میں مسلم نوجوانوں کی بھرتیوںکو یقینی بنانے کیلئے خصوصی کوچنگ کا بندوبست کیا جس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔ سیاست نے چھوٹی جماعتوں سے لے کر پی ایچ ڈی طلبہ کو حکومت کی اسکالرشپس دلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ نتیجہ میں لاکھوں طلبہ کو اسکالرشپس حاصل کرنے کا موقع مل رہا ہے ۔ اب سیول سرویس میں مسلمانوں کے تناسب میں اضافہ کیلئے جناب زاہد علی خان نے ہونہار طلبہ کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انھیں تیارکرنے کافیصلہ کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ان کی نظر انتخاب ملت کے انتہائی ہونہار طلبہ سید مصطفی ہاشمی ، نزہت جہاں ، کائنات خان اور ننھی منی سی نرجاندھی گپتا پر پڑی ۔ جناب زاہد علی خان کے مطابق یہ ایسے طلبہ ہیں اگر ان پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے تو وہ بآسانی آئی اے ایس ، آئی پی ایس بن سکتے ہیں ۔ جہاں تک مسلم لڑکے لڑکیوں کا سوال ہے ان میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں انھیں صرف صحیح رہنمائی کی ضرورت ہے اور اب سیاست نے انھیں اپنی منزل تک پہنچانے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ ہم نے ان ہونہار طلبہ سے بات چیت کی ان کے خیالات سے آگہی حاصل کی ۔ اس دوران ہمارے ذہن میں بار بار شاعر مشرق علامہ اقبال کا یہ شعر گردش کررہا تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دفتر سیاست میں جمع ہوئے ان تعلیمی ستاروں میں سے ہم نے سید مصطفی ہاشمی سے بات کی ۔ آپ کو بتادیں کہ مصطفی ہاشمی نے متحدہ آندھرا پردیش میں منعقدہ ایمسٹ میں ساری ریاست میں 10 واں رینک حاصل کیا تھا جس کی بنیاد پر انھیں عثمانیہ میڈیکل کالج میں نشست حاصل ہوئی اور فی الوقت وہ ہاوز سرجن شپ کررہے ہیں ۔ سید مصطفی ہاشمی جیسے نوجوان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ملت کی تعلیمی پسماندگی کو لیکر ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ مسلم والدین کو اس بات کی ترغیب دینی چاہئے کہ وہ بھی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر ایسے ہی توجہ دیں جس طرح سید مصطفی ہاشمی کے والدین نے دی ہے ۔ ان کی محنت کے باعث مصطفی ہاشمی ان کے بھائی مرتضی ہاشمی اور ایک بہن کو ایم بی بی ایس میں داخلہ حاصل ہوا ۔ مصطفی ہاشمی ایم ڈی کرنا چاہتے ہیں اور اس نوجوان کی ذہانت کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ ایم ڈی بھی ان کیلئے کوئی مشکل نہیں ہے ۔ مصطفی ہاشمی کے بارے میں آپ کو یہ بھی بتادیں کہ میگا اسٹار امیتابھ بچن بھی ان کی ذہانت و قابلیت سے کافی متاثر ہوئے ۔ کون بنے گا کروڑپتی میں جب اتفاق سے وہ ایک سوال کا جواب صحیح نہ دے سکے تب مصطفی ہاشمی کی والدہ سے مخاطب ہوتے ہوئے امیتابھ بچن نے کہا ’’میڈم آپ مایوس مت ہونا آپ کا بچہ ایک دن کروڑہا روپئے لائے گا‘‘ ۔ بہرحال مصطفی ہاشمی جیسے نوجوان آئی اے ایس اور آئی پی ایس کیلئے تیاری کرتے ہیں تو وہ ملک و ملت کیلئے ایک غیر معمولی اثاثہ ثابت ہوسکتے ہیں اور ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان بھی یہی چاہتے ہیں کہ یہ لڑکا آئی اے ایس اور آئی پی ایس بنے جس کیلئے وہ ہر ممکنہ تعاون کیلئے تیار ہیں ۔ واضح رہے کہ مصطفی ہاشمی نے قومی و بین الاقوامی سطح پر کوئزکے بے شمار مقابلے جیتے ہیں جن میں انٹرنیشنل بیالوجی اولمپیاڈ (سلور میڈل) این ڈی ٹی وی کڈس ینگ گرانڈ ماسٹرس سی این آئی بی این فینانس کوئز جیسے مقابلے شامل ہیں ۔ مصطفی ہاشمی کے خیال میں آج کے دور میں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانی ضروری ہے ۔ قرآن مجید کے 19 پارے حفظ کرچکے اس نوجوان کا یہ بھی کہنا اپنے بڑوں کی باتوں پر توجہ دینا ضروری ہے ۔ آج کی نسل سمجھتی ہے کہ وہ بہت آگے ہے لیکن بڑوں کے تجربہ اور مشاہدات کے سامنے وہ کچھ بھی نہیں ہوتے ۔ مصطفی ہاشمی نے ہمیشہ تعلیم پر خصوصی توجہ دی ۔ ایس ایس سی میں انھوں نے 600 میں سے 572 نمبرات حاصل کئے ۔ انٹرمیڈیٹ میں انھیں 1000 میں سے 973 نشانات ملے اور ایمسٹ میں دسواں رینک حاصل کیا ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ غرور و تکبر انسان کو تباہ کردیتا ہے ۔ نوجوان کے نام پیام کے سوال پر انھوں نے کہا کہ ماں باپ کی فرمانبرداری اور محنت کریں ۔ ایک سوال کے جواب میں مصطفی ہاشمی نے بتایا کہ انٹرنیٹ نے دنیا میں انقلاب برپا کردیا جو مواد آپ کو دس دس کتابوں میں ڈھونڈ کر نکالنا پڑتا تھا اب چند کلکس کے ساتھ ہی آپ کی نظروں کے سامنے ہوتا ہے ۔
انٹرنیٹ کا بہتر انداز میں استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ ہونہار طلبہ کے اس جھرمٹ میں کائنات خاں بھی شامل ہیں ۔ دہلی اسکول آف ایکسلنس عطاپور سے ایس ایس سی کرنے والی یہ ہونہار طالبہ دوسروں سے بالکل جدا ہے اس لڑکی کے بلند عزائم و ارادے اس کے روشن مستقبل کا پتہ دیتے ہیں ۔ وہ زندگی میں عام لڑکے لڑکیوں کی طرح ڈاکٹر ، انجینئر بننا نہیں چاہتی یاکوئی اور کورس کرتے ہوئے اپنی ڈگریوں میں اضافہ چاہتی ہے بلکہ وہ چیلنجس کا سامنا کرنے کی خواہاں ہے ۔ یہ لڑکی وہ کام کرنے کی خواہاں ہے جس کا تصور دوسری لڑکیاں نہیں کرسکتی ۔ دراصل کائنات فوج میں شمولیت اختیار کرنا چاہتی ہے اس باحجاب لڑکی نے انتہائی جراتمندانہ انداز میں بتایا کہ اسے بچپن سے ہی چیلنجز کا سامنا کرنا اچھا لگتا ہے ۔ آرمی میں اڈونچر اور بہادری ہے ۔ مہم جوئی اس کی خاصیت ہے اسی وجہ سے ملک میں فوجیوں کا جو احترام کیا جاتا ہے ایسا احترام کسی اور کا نہیں کیا جاتا ۔ ان کی قربانیاں بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ کائنات خان کے بلند حوصلوں و عزائم سے ایسا لگتا ہے کہ ایک دن وہ انشاء اللہ ایک کائنات کا دل جیت لے گی اور ایسا کام کرے گی جس پر قوم و ملت ناز کریں گے ۔ ایک سوال کے جواب میں کائنات نے بتایا کہ حجاب لڑکیوں کی ترقی میں کسی بھی طرح کی رکاوٹ نہیں ہے ۔ طلبہ کے نام پیام کے سوال پر کائنات نے کہا کہ آپ کو وہی کرنا چاہئے جو آپ کے دل و دماغ میں ہو لیکن ہرکام سچائی اور محنت سے کیا جانا چاہئے ، اسی میں آپ کی کامیابی ہے ۔ سید مصطفی ہاشمی اور کائنات خاں کی طرح ایک ہونہار طلبہ نزہت جہاں کے ارادے بھی بلند ہیں ۔ وہ زندگی میں ہر مقابلہ اور چیلنجس کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہے ۔ آئی پی ایس آفیسر بننے کی خواہاں اس لڑکی نے بتایا کہ وہ سری چیتنیہ آئی اے ایس اکیڈیمی کے ہاسٹل میں مقیم رہ کر پڑھ رہی ہے ۔ ممتاز صحافی محمد سردار جمیل مرحوم جوگی پیٹ کی پوتی اور ڈاکٹر محمد سلیم اسوسی ایٹ پروفیسر گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج اور ڈاکٹر ادیبہ سلطانہ کی دختر نزہت جہاں نے روزری کانونٹ سے ایس ایس سی کیا ۔ سینٹ اینس سے انٹرمیڈیٹ میں امتیازی کامیابی حاصل کی ۔
نزہت کی والدہ بھی ڈاکٹر ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں ہمالیائی عزائم رکھنے والی اس لڑکی نے بتایا کہ سماجی خدمات انھیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن کر معاشرہ کی بہتر انداز میں خدمت کی جاسکتی ہے ۔ سخت محنت اور والدین کی دعاؤں کوکامیابی کیلئے ضرور قرار دینے والی اس ہونہار طالبہ کے خیال میں انسان کو ہر شعبہ میں ماہر رہنا چاہئے ۔ نزہت جہاں کے مطابق ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان مسلم طلبہ کی جس انداز میں سرپرستی و رہنمائی کررہے ہیں اس کی ہندوستان میں مثال نہیں ملتی ۔ اس سلسلہ میں سلوی فاطمہ بہترین مثال ہے ۔ اس لڑکی کے پائلٹ بننے کی خواہش پر ایڈیٹر سیاست نے ہر طرح سے مدد کی اور آج وہ لڑکی ایک پائلٹ کی شکل میں موجودہ ہے ۔ اگر ارادے نیک ہوں تو خود بخود منزل آپ کو تلاش کرلیتی ہے ۔ اپنے والدین کی سپورٹ کے بارے میں نزہت جہاں نے بتایا کہ والدین قدرت کا بہترین تحفہ ہوتے ہیں اور ان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچوں کو ڈھیر ساری کامیابیاں حاصل ہوں ۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایک دن ضرور آئی پی ایس آفیسر بن کر رہیں گی ۔ جناب زاہد علی خان جن طلبہ کی سرپرستی کررہے ہیں ان میں ایک ننھی منی چھوٹی سی نرجاندھی گپتا بھی شامل ہے ۔ اس چھوٹی سی جان کو دیکھکر ایسا لگتا ہے کہ وہ ایک عام سی لڑکی ہے لیکن ایسا نہیں ہے انتہائی غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی تیسری جماعت کی طالبہ نرجا غیر معمولی ذہانت کی حامل لڑکی ہے ۔ اسے ہم چلتا پھرتا کمپیوٹر کہیں تو بیجا نہ ہوگا اس لئے کہ اس کی جنرل نالج کا حال یہ ہے کہ اس معاملہ میں وہ کمپیوٹر سے بھی تیز نظر آتی ہے ۔ جناب زاہد علی خان اس لڑکی کو بھی آئی اے ایس بنانے کے خواہاں ہیں اور اس کی سرپرستی کررہے ہیں ۔
دراصل اس لڑکی کے والد اسے اور اس کی ماں کو صرف اس لئے چھوڑ کر چلے گئے کہ وہ نرجا ایک لڑکی پیدا ہوئی لیکن اسے پتہ نہیں کہ اس لڑکی نے انتہائی کم عمری میں اپنی ذہانت کے ذریعہ دانشوروں کو بھی حیران کردیا ہے ۔ نرجاندھی گپتا کی ماں پوانی گپتا اور نانا نارائن گپتا کا کہنا ہے کہ جناب زاہد علی خان نے اس بچی کی سرپرستی کرتے ہوئے ملک میں گنگا جمنی تہذیب کو جلا بخشی ہے ان کا یہ اقدام ان فرقہ پرستوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے جو لوگوں کو مذہب کے نام پر تقسیم کرتے ہیں ۔ نرجاندھی کے بارے میں ہم آپ کو صرف اتنا بتاتے ہیں کہ کواڈی پلی حیات نگر منڈل کی رہنے والی اس لڑکی سے آپ ہندوستانی سیاستدانوں ، ارکان اسمبلی ، ارکان پارلیمان ، صدر جمہوریہ مرکزی و ریاستی وزراء دنیا کے ممالک اور ان کے دارالحکومتوں کے بارے میں پوچھ لیں وہ کمپیوٹر سے بھی تیز جواب دے گی ۔ ہم جب یہ مضمون تحریر کررہے تھے اس وقت اخبار سیاست کے ایڈیٹر کے نام کالم میں ہنمکنڈہ کی رہنے والی اسما نامی کسی خاتون یا لڑکی کے ایڈیٹر کے نام مکتوب پر نظر پڑی جس میں انھوں نے ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خان کو ملی کاموں کیلئے مبارکباد دیتے ہوئے سلوی فاطمہ کا حوالہ دیا اور کہا کہ تلنگانہ کے اضلاع میں بے شمار ذہین طلبہ ہیں اگر زاہد علی خان صاحب ان طلبہ کی بھی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کریں تو ان میں سے کئی بچے آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن سکتے ہیں ۔ بہرحال جناب زاہد علی خان نے ہونہار طلبہ کو آئی اے ایس اور آئی پی ایس بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے ۔ امید ہیکہ ان کے ارادے ضرور کامیاب ہوں گے ۔
mriyaz2002@yahoo.com