ہونٹ اپنے سی رکھے ہیں مصلحت کی ڈور سے

نفیسہ خان
گنیش مہاراج ہندوستان بھر کے ہر سڑک ، ہر محلہ ، ہر گلی میں پھول پتوں جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے منور پنڈالوں میں دس دن کیلئے براجمان ہوگئے تھے ۔ صبح شام بھجن کم اور بے ہنگم ناچ گانوں کا شور اس سال کچھ زیادہ ہی تھا ۔ ہم ساگر میں رہتے ہیں ، یہاں بھی ہر ذات و فرقوں نے ڈگر ڈگر پر گنپتی کی بڑی بڑی مورتیاں بٹھادی تھیں۔ یہاں پر مسلمانوں کی آبادی کا تناسب نہ کے برابر ہے۔ گنیش کے ان گنت پنڈالوں کے درمیان ہم جیسے مسلمانوں کے دو چار گھر ہی ہیں اور ان میں سے ایک گھر کے سامنے گلی کا راستہ دونوں طرف سے بند کر کے بڑا سا شامیانہ اس کونے سے اس کونے تک تان دیا گیا تھا اور یہاں مسیح بابا اور ونجا کماری کے عقد کی تقریب مقرر تھی جس کے رقعے ایک ہفتہ پہلے تقسیم ہوچکے تھے ۔ ایک دیرھ ماہ پہلے قاضی صاحب نے ان کے آدھار کارڈ ، راشن کارڈ ، اسکول و کالج یونیورسٹی کی اعلیٰ ڈگریوں کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد نکاح پڑھانے سے انکار کردیا تھا لیکن نہ تو یہ لو جہاد کا معاملہ تھا نہ اغواء کی واردات تھی ۔ نہ زنا بالجبر کا قصہ تھا بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر لڑکا لڑکی کہہ رہے تھے کہ ’’کہہ دو کہ محبت سے نہ ٹکرائے زمانہ اسان نہیں پیار کے دیپک کو بجھانا ‘‘۔ اب یہ محبت کا چراغ کتنے دنوں تک چلنے والا ہے اس کی گیارنٹی دینا ممکن نہ تھا ۔ ایک ماہ کی مختصر مدت میں ونجا کماری عائشہ بی بی بن گئیں ۔ نئے سرے سے کاغذات میں رد و بدل ہوا اور ونجا کماری معہ رشتے داروں اور ماں باپ کے دولہا کے گھر کے سامنے تانے گئے شام یانے میں سر تا پیر پھولوں سے لدے پھندے دولہا دولہن کے عقد کی تقریب میں پیش پیش تھے ۔ جمعہ کا دن تھا اس لئے نماز کی ادائیگی کے بعد جتنے اصحاب شرعی لباس میں وہاں موجود تھے اتنے ہی محلے کے غیر مسلم مرد و خواتین شریک تھے ، حفاظتی مہمان یعنی پولیس بھی وقت ضرورت کی خاطر موجود تھی ۔ مسیح بابا اور ونجا کماری اپنی فتح پر نازاں تھے ۔ کالج کے دوست احباب پٹاخے چھوڑ رہے تھے ۔ نہ کسی گنیش جی کے پنڈال سے کوئی پتھر آیا نہ لاٹھیوں و ترشول سے حملہ ہوا ، نہ بم پھٹا نہ کسی بندوق کی گولی پولیس والوں پر چلائی گئی ۔ دوسری طرف کنٹراکٹر (گتے دار) انجینیلو جب اپنے اکلوتے بیٹے کو ہاجرہ کی محبت میں گرفتار پاتا ہے تو اسے باز رکھنے کی ہر کوشش پر نا کام ہوکر وہ پانچوں وقت کے نمازوں کے اوقات پر مسجد کی گیٹ پر کھڑا ہوکر ایک ایک نمازی سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا تھا کہ اپنی مسلمان لڑکی کو میرے بیٹے کے چنگل سے چھڑالو۔ ہم وڈر ذات کے ہیں ، خنزیر کا گوشت کھاتے ہیں ، آپ لوگ تو دیندار ہو لیکن دونوں مذاہب کے ماننے والوں کی کوششیں رائیگاں گئیں ۔ لڑکا لڑ کی گھر سے فرار ہوکر مندر میں شادی کر کے لوٹتے ہیں۔ انجینیلو اس کی بیوی صبر کا پتھر اپنے سینے پر رکھ کر ہاجرہ کو مہا لکشمی بناکر اپنی بہو قبول کرلیتے ہیں ۔ ہاجرہ اب دو بیٹوں کی ماں ہے ، روز پوجا پاٹھ کرتی ہے ۔ بونال کے تہوار پر سج دھج کر پوجا کا کلش سر پر ا ٹھائے دیوی ماں کے درشن کو جاتی ہے ۔ حرام حلال سب گوشت کھاتی ہے ۔ اپنے ماں باپ کے گھر بھی آتی جاتی ہے ۔
مسلمان و ہندو سب ایسے واقعات و بیشمار نظاروں کے خاموش تماشائی ہیں۔ عقیل کی بیٹی جسکی شادی اس کے پھوپی زاد بھائی سے مقرر ہوئی تھی، شادی کے دن غیر مسلم لڑکے کے ساتھ پچاس ہزار نقد اور زیورات لیکر فرار ہوجاتی ہے اور عقیل دوسرے گاؤں سے آئی ہوئی برات کو اپنی عزت کا واسطہ دے کر بڑی کی بجائے چھوٹی بیٹی سے نکاح پڑھوا دیتا ہے ۔ اکثر اردو اخبارات میں ایسے مضامین نظر سے گزرتے ہیں جہاں قارئین کو اس بات کا قائل کیا جاتا ہے کہ غیر مسلم لڑکوں کو باضابطہ مسلم لڑکیوں کے استحصال پر اکسایا جاتا ہے بلکہ میں نے یہاں تک پڑھا ہے کہ ان کو باضابطہ اس کی ٹریننگ دی جارہی ہے جو مرد و خواتین اپنے گھر خاندان یا جس مقام پر وہ کام کرتے ہیں وہاں سے ہٹ کر دوسری بستیوں و معاشی طور پر پسماندہ گھروں میں قدم نہیں رکھتے اس لئے ان کو حالات کا اندازہ نہیں ہوسکتا ، صرف ہندو مسلم کا یہ مسئلہ نہیں۔ ہر مذہب و ذات میں ایسی شادیاں بربادی کا باعث بن رہی ہیں ۔ آج سے پچیس سال پہلے فاطمہ یہاں کی وہ پہلی لڑکی تھی ، جو سترہ سال کی عمر میں ایک لمباڑے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی لیکن اس تانڈے کے تمام لمباڑے فاطمہ کو اس کے گھر لے آئے ۔ لڑکے نے اسلام قبول کر کے فاطمہ سے نکاح کرلیا ، پچھلے ماں اسی فاطمہ کی بائیس سالہ کنواری لڑکی جو انجنیئرنگ کے آخری سال میں تھی ، بلڈ کینسر کا شکار ہوکر انتقال کرگئی لیکن میں اس کی میت پر نہیں گئی جبکہ ہر مذہب کے اچھے برے میں شریک رہتی ہوں ، میرے نہ جانے کی وجہ یہ تھی کہ گھر سے فرار ہونے کے بعد سے آج تک کبھی فاطمہ نے مجھے اپنا چہرہ نہیں بتایا ، کبھی کسی مقام پر ہمارا آمنا سامنا بھی نہیں ہوا وہ خود کو ہمیشہ مجھ سے بچاتی رہی، پچیس سال پہلے یہ بات بے انتہا معیوب تھی اور اب یہ حال ہے کہ شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہے کہ برہمن لڑکی دلت لڑکے کے ساتھ ہے تو کرسچن لڑ کا کومٹی لڑکی کا دیوانا ہے ، پہلے مندر میں پھر چرچ میں شادی ہورہی ہے ماں باپ راضی نہ ہوں اور راہ فرار اختیار کریں گے یا پھر خودکشی کر کے جہاں فانی سے وداع ہوجائیں گے ۔ یہ حادثہ خود ہم پر گزر چکا ہے کہ ایک پانچ سالہ بچے کو ہم پال پوس کر بہترین اعلیٰ تعلیم سے مرصع کر کے ان کے ماں باپ کو سوننے کا وعدہ کر کے لائے تھے لیکن اسی کمبخت عشق و محبت نے پسماندہ طبقہ کی لڑکی کی محبت پر اپنی تعلیم ادھوری چھوڑدی اور مستقبل تباہ کر کے اپنے ماں باپ کے پاس لوٹ کر اس لڑکی کو عاقل صاحب کے پاس دائرہ اسلام میں شامل کر کے شادی کرلی۔ بچوں کی اس بے راہ روی کیلئے ہمیں خود کو قصور وار ماننا پڑے گا ۔ بچوں کے لئے پہلے ماں باپ گھر والے اور دوسرے استاد ان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یلکن کبھی کبھی ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘‘ والا معاملہ ہوجاتا ہے ۔ بچوں کی پرورش میں ہم سے کہاں غفلت ہورہی ہے ، ہم اپنی نئی نسل کو ایسے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم دلوانے کو ترجیح دیتے ہیں جو اسلام کے اصولوں کے مغائر ہیں ۔ ہماری بچیاں وہی یونیفارم پہنتی ہیں جو غیر اسلامی ہے گھر میں بڑے بوڑھے ہوں اور دینی ماحول ہو تو ان کے اعتراض کے ڈر سے کمروں سے برقعے پہن کر نکلتی ہیں اور باہر جاکر اتار دیتی ہیں ۔ ہماری لڑکیاں شارٹ اسکرٹس یا جینس ٹی شرٹ پہنتی ہوں ، ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ میکسی پر مذہب ذات فرقہ و عمر کی عورتوں کا گھریلو پہناوا ہے اور ستر چھپانے کیلئے دوپٹہ اوڑھنی اب ضروری بھی نہیں رہا ہے اور آپ کہیں بھی تو وہ کب سننے والے ہیں ۔ نوے فیصد گھروں میں نہ بڑوں و بچوں کو صبح اٹھ کر نماز پڑھنے کی توفیق ہوتی ہے ، تلاوت قرآن کیلئے تو وقت ہی نہیں ملتا ہے ، ہم نے مشنری اسکولوں میں برسوں ہمارے بچوں کو پڑھایا ہے جہاں اسمبلی کی دعا میں وہ یسوع مسیح کو اپنا باپ مان کر تہہ دل سے دعائیں مانگتے ہیں ۔ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا آج وندے ماترم پر ہنگامہ ارائیاں قتل و خون ہوتے ہیں ، مہاراشٹرا کے گورنمنٹ اسکولوں میں دوپہر کے کھانے سے پہلے ماتا سرسوتی کی پوجا اور اشلوک پڑھنا لازمی ہے ۔ ہم نے برسوں میں آج تک آواز نہیں ا ٹھائی ۔ عریب بچوں کو تو پیٹ کی آگ بجھانی ہے ، وہ بسم اللہ یا اشلوک کا فرق کیا جانیں ۔ ماں باپ نے نام نہاد مسلمان لیڈروں نے نہ حکام کو سمجھا بجھاکر بات منوانے کی کوشش کی نہ دھرنے دیئے ، نہ ہڑتال ہوتی نہ ہنگامہ برپا کیا جبکہ سیاسی جماعتیں و لیڈر اور نام کے مسلمان نعرہ تکبیر کے ساتھ سڑکوں پر اتر آتے ہیں ، یہ ہم مسلمانوں کا دوغلا پن نہیں تو اور کیا ہے ؟ جب الیکشن کا بگل بجتا ہے تو ورغلانے کیلئے دین کی حمیت و جذبات کو بھڑکانے میں جٹ جاتے ہیں ، ان کا مقصد سماج میں مسلمانوں کی ملت کی بہتری ، ترقی و تعلیم کے مواقع بہم پہنچانا نہیں ہوتا ، ہر ایک لیڈر کے سامنے اپنا نام و نمود اور معاشی مفاد پوشیدہ ہوتا ہے ۔ گھر سے باہر کا ماحول خود غرضی ، جھوٹ ، عریانیت ، فحاشی ، شراب نوشی ، رشوت خوری ، مختلف قسم کے نشے میں مبتلا کرنے والا ہے تو گھر کا ماحول بھی کوئی زیادہ سازگار نہیں ہے کیونکہ بڑوں کو بچوں کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کرنے ، ہنسنے بولنے ، ان بچوں کے دن بھر کی مصروفیات و چھوٹے موٹے مسائل کی روداد سننے اور انہیں حل کرنے میں نہ وقت ہے نہ دلچسپی ہے ۔ ماں گھریلو کام کاج میں باپ اپنی نوکری اور لیاپ ٹاپ پر مصروف دادا ، دادی اخبار ٹی وی ، اسمارٹ فون میں سر دیئے بیٹھے رہتے ہیں جو خاندانی روایات ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوا کرتی تھیں۔ اب دم توڑچکی ہیں ، ہم بچوں کو اخلاقی و روحانی تربیت سے نابلد ہوکر ہم انہیں ایک اچھا انسان بنانے کی بجائے حیوانیت و مادیت پسند زندگی کی طرف زیادہ راغب کر رہے ہیں۔ آپسی رابطوں کو ختم کر کے سنگین نتائج بھگت رہے ہیں اور اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے تو والدین اور معمر بزرگوں کی آنکھوں میں الجھن ، پشیمانی ، شرمندگی صاف نمایاں ہے۔ ہر مذہب ، ہر ذات ، ہر فرقے کے ماں باپ چاہتے ہیں کہ ان کی اولاد کی شادی ان کی ذات برادری ہی میں ہو ، نچلی ذات والے ہندو کی اولاد بھی اگر اعلیٰ ترین ذات کے برہمن سے شادی کرے تو وہ خوش نہیں ہوتے ۔ دس پندرہ سال پہلے تک لڑکیوں کے گھر خاندان پاس پڑوسیوں کا حد و ادب کے ساتھ احترام و خوف تھا ، اب یہ خوف ان کے دل سے جاچکا ہے لیکن ہم بھی اپنی غلطیوں کا الزام سماج پر ، ان کے حلقہ احباب ، ٹی وی ، اسمارٹ فون کے سر ڈال کر دستبردار نہیں ہوسکتے ۔ بہ حیثیت ماں باپ و اساتدہ نئی نسل میں ہمارا کردار ، ہمارا برتاؤ ، ہمارا عمل ، ہمارے زیر پرورش گھروں و اسکولوں ، کالجوں کے طلباء و طالبات میں منعکس ہورہا ہے ۔
کہاں کا مکتب و ملا ، کہاں کے درس و نصاب
بس اک کتاب محبت رہی ہے بستے میں
اخلاقیات کا سبق دینے والوں کا اخلاق بھی اچھا ہونا ضروری ہے ۔ الفاظ اپنا وزن کھو دیتے ہیں، اگر ان میں بہترین پیرائے اظہار نہ ہو ایک موٹی سی مثال میں دوں کہ ہمارا اسلامی سلام بس ’’السلام علیکم‘‘ کہہ دینا کافی ہے ، اس کے جواب میں وعلیکم سلام کہہ دینا واجب ہے لیکن اس کے ساتھ رحمت برکت صحت کی دعائیں دینے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ ہمیں تو ہمارے بزرگوں نے سکھایا تھا کہ بڑوں کے قریب جا کر جھک کر سلام کریں (جسے دکنی زبان میں پیٹ میں منڈی ڈالنا کہا جاتا ہے ) ۔ مصافحہ کریں۔ گلے ملیں ، اس سے بڑوں کی تابعداری ، فرمانبرداری اور جھک کر ملنے کا جذبہ پروان پاتا ہے ۔ ہاتھ اور گلے ملنے سے رشتوں کے خلوص و محبت کی گرمی کی حرارت کا احساس رگ رگ میں تحلیل کرجاتا ہے ۔ بڑوں کا سر پر شفقت سے سر پر ہاتھ رکھ کر دعائیں دینا ، پیشانی چوم لینا ، پاکیزہ رشتوں کی راہ استوار کرتا ہے، تب ہر دو طرف سرشاری کا عالم ہوتا تھا ، آج بھی برسوں گزر جانے کے بعد مجھے اپنی پیشانی پر ابا جان کے ہونٹوں کی حرارت محسوس ہوتی ہے ، آج کا ’’السلام علیکم ‘‘ کا لہجہ بھی ایک لٹھ کی طرح سخت بن گیا ہے جس سے آپ کے بیزار محبت کو ٹھیس پہونچتی ہے ، اب سلام میں بھی لاپرواہی۔ بیزاری اور بس ضابطہ کی تکمیل کا احساس ہونے لگا ہے ۔ ا پنے بچوں خصوصاً بیٹیوں کو اپنا دوست بنائے تاکہ وہ ا پنے دل کی بات آپ کو بتاسکیں۔ اگر وہ اپنا ہمسفر خود چن لیں اور ان کے مطالبات جائز بھی ہوں تو اس کو اپنی انا کا مسئلہ نہ بنایئے ۔ اگر ان کا انتخاب تعلیم یافتہ ، ہم مذہب ، برسر روزگار ہو تو معاشی اقدار کو اہمیت دے کر انکار نہ کریں۔ لڑکیوں کی صحیح وقت پر رہنمائی و رہبری کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے خدشات و تجسس کو دور کرنے کیلئے غلط ماحول میں غلط لوگوں کے آلۂ کار نہ بن جائیں ۔ ہم اپنی برائیوں ، علتوں کا ٹھیکرا غیر مسلم افراد کے سر پھوڑ کر مطمئن نہیں ہوسکتے کیونکہ رشوت خور ، چور اچکے ، زانی ، قاتل ، سیاسی مجرموں اور حوالہ کا کاروبار کرنے والوں کی فہرست میں کلمہ گو افراد کے ساتھ ، اقلیتی تعلیمی نام نہاد ادارے بھی شامل ہیں۔ ہماری ملت کی نوجوان نسل کو راہ راست پر لانا ضروری ہے ۔ ہر ماہ اردو کے کئی ایک ادبی علمی محافل ، مشاعرے ، جلسے ، سمیناروں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے اور اس میں زیادہ تر معمر لوگ شرکت کرتے ہیں۔ شعور کی بیداری کیلئے معلوماتی لکچرس کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا کہ نوجوان طبقہ اس سے مستفید ہوسکے۔