ہوش میں آؤ کچھ کرو ورنہ

محمد مصطفی علی سروری
ڈسمبر کی 15 تاریخ تھی حکیم پیٹ ٹولی چوکی کے رہنے والے ایک نوجوان نے سنٹرنگ کے کام سے واپسی کے دوران این ٹی آر کے مجسمہ واقع لنگر ہاؤز کی ایک دکان پر ٹھہرنا مناسب سمجھا اور جب وہ شام ساڑھے سات بجے اُس دکان سے کچھ خریداری کر رہے تھے تب دکان پر کھڑ ے رش میں انہیں محسوس ہوا کہ کسی نے ان کی جیب سے ان کا قیمتی موبائیل فون چرا لیا ہے ۔ پہلے تو انہوں نے اپنے اطراف واکناف کے لوگوں سے پوچھا مگر کوئی بھی کچھ بتانے سے قاصر تھا ۔ وہ تو روزانہ سنٹرنگ کا کام کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے اور ان کا فون تو مہنگا تھا اور ان کے لئے دوسرا فون خریدنا ، آسان نہ تھا بالآخر پریشان ہوکر انہوں نے پولیس میں شکایت کرنے کا فیصلہ کیا جب وہ پولیس اسٹیشن پہونچے تو وہاں پر انہیں ساری تفصیلات بتلانی پڑی کہ وہ کس دکان پر کھڑے تھے اور کس چیز کی خریداری کرنے گئے تھے ۔ پھر اچانک کیسے کسی نے ان کا فون ان کے جیب سے چرا لیا ہے۔
دو دن گزر گئے پھر 17 ڈسمبر کو پولیس نے ایک پریس نوٹ جاری کیا جس میں میڈیا کو بتلایا گیا کہ 15 ڈسمبر 2017 ء کو لنگر ہاؤز کی ایک دکان سے جن صاحب کا موبائیل فون چوری ہوگیا تھا ۔ اُس کو ڈھونڈ نکالا گیا اور ساتھ ہی چور اور اس کے دو ساتھیوں کو بھی گرفتار کرلیا گیا ۔ پریس نوٹ کے ساتھ پولیس نے ایک تصویر بھی جاری کی جس میں تینوں ملزمان اور پولیس کے اہلکار کھڑے تھے ۔ قارئین اکرام آپ حضرات سوچ رہے ہوں گے کہ بھائی صاحب موبائیل فون کی چوری کے یوں تو ہر روز سینکڑوں واقعات ہوتے ہیں۔ اب ایسے واقعات پر بھی ہم توجہ نہیں دے سکتے اور اس سارے واقعہ میں کوئی خاص بات ایسی بھی تو نظر نہیں آرہی ہے کہ ہماری توجہ اس طرح کی خبر کی جانب مبذول ہوجائے ۔ قارئین میں آپ حضرات کو اب وہ خاص نکتہ بھی گوش گزار کرنا چاہوں گا جو پولیس کی جانب سے میڈیا کو جاری کردہ پریس نوٹ میں تھا ۔
سب سے پہلے تو 15 ڈسمبر کو سنٹرنگ کے کام سے لوٹتے وقت لنگر ہاؤز کی ایک دکان پر کچھ خریدنے کیلئے رکنے والے صاحب کوئی اور نہیں بلکہ ایک مسلم نوجوان ہی ہیں ۔ ٹھیک ہے اس میں بھی کوئی خراب بات نہیں کہ ایک مسلم نوجوان خریداری کے لئے کسی دکان کا رخ کرے لیکن دکان کس چیز کی تھی وہ بھی جان لیجئے ۔ حضرات دکان شراب کی تھی اور جمعہ کی شام تقریباً سا ڑھے سات بجے شراب خریدنے کیلئے ٹھہرنے والے صاحب بھی مسلمان تھے ۔ قارئین آپ سوچ رہے ہوں گے ارے جناب برے لوگ تو ہر زمانے میں تھے اور اگر کوئی برا کام کر رہا ہے تو اس کو نظر انداز کردینا چاہئے اور اس کی ہدایت کیلئے دعا کرنا چاہئے لیکن قارئین میں آپ کو پولیس کے اس پریس نوٹ کی مزید تفصیلات بتلانا چاہوں گا کہ پولیس نے شراب کی دکان پر کھڑے ایک مسلمان شخص کی جیب سے موبائیل فون چوری کرنے کے الزام میں جن تین چوروں کو گرفتار کیا ہے وہ تینوں کے تینوں بھی مسلمان ہیں۔ پولیس نے تو ان تینوں کی واضح (Clear) تصاویر ، نام ، پتے اور ان کا سابقہ کرمنل ریکارڈ بھی پیش کیا ہے ۔ افضل ساگر ملے پلی کا رہنے والا 22 سالہ نو جوان جس کے ہاں سے سرقہ کردہ موبائیل فون برآمد کیا گیا اس پر 22 سال کی عمر میں ہی 11 کرمنل مقدمات پہلے ہی سے درج ہیں۔ وہ لاری کلینر کے طور پر کام بھی کرتا ہے۔
ڈیفنس کالونی لنگر ہاؤز کے ہی رہنے والے ایک مسلم نوجوان ملزم کا پیشہ لاری کلینر بتلایا گیا ، اس پر بھی کئی مقدمات درج ہیں۔ تیسرا نوجوان مزدوری کرتا ہے ۔ جیوتی باغ عیدی بازار تالاب کٹہ کے اس نوجوان پر رین بازار پولیس اسٹیشن میں ایک کیس پہلے ہی سے درج ہے۔
جی حضرات میں مسلم ملی مذہبی فلاحی اور خیراتی تنظیموں کی توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ آج شہر حیدرآباد میں مسلم نوجوان نشے اور جرائم کی طرف بڑی تیزی سے راغب ہوتے جارہے ہیں، اس مسئلہ کے سدباب کیلئے اقدامات ناگزیر ہوگئے ہیں ۔ ایک اور وا قعہ گزشتہ مہینے پیش آیا تھا جس کا تذکرہ یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یکم نومبر کو شاہ عنایت گنج پولیس اسٹیشن کی اطلاع کے مطابق ایک شخص پرانا پل چوراہے پر واقع شراب کی دکان پر آتا ہے اور شراب کی بوتل خریدتا ہے ۔ تھوڑی ہی دیر میں اس شخص کا وہاں موجود دوسرے لوگوں سے جھگڑا ہوجاتا ہے اور وہ لوگ اس شخص کے سر پر ایک وزنی پتھر مار کر اس کو مار ڈالتے ہیں ابتداء میں پولیس کو اس نامعلوم شخص کی نعش کی شناخت میں مشکل پیش آئی ، بالآخر 13 نومبر 2017 ء کو پولیس نے ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے اس قتل کے معمہ کو حل کرنے کا دعویٰ کیا اور دو ملزمان کو گرفتار کرنے کی اطلاع دی ۔ پولیس کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق 47 برس کے ایک مسلمان صاحب جو جلال کوچہ حسینی علم کے رہنے والے تھے ساڑیوں کا کاروبار کرتے تھے ۔ یکم نومبر کو رات دس بجے وہ شراب کی دکان پر پہونچے اور وہاں دکان کے بازو کمرے میں شراب نوشی کی جس کے بعد ان کا وہاں موجود ملکا ارجن اور شرن سے جھگڑا ہوگیا ، ان دونوں نے مل کر ان مسلمان صاحب کو گراکر ان پر وزنی پتھر ڈالا اور جان سے مار ڈالا۔ پو لیس کی اطلاع کے مطابق ان مسلمان صاحب کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چار بچے بھی شامل ہیں۔
مسلمانوں میں شراب نوشی کے خلاف کسی کو مہم چلانی ہے۔ صرف شراب ہی نہیں نشہ کی اور بھی بہت ساری لعنتیں مسلم نوجوانوں میں بڑھتی جارہی ہیں۔ ان سب سے بچاؤ کیلئے اقدامات اب ضروری ہیں۔ نوجوانوں میں شراب نوشی کو روکنے کیلئے سب سے پہلی ذمہ داری تو والدین اور سرپرستوں کی ہے لیکن ہم والدین اور سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہہ کر اپنے آپ کو بری الذ مہ نہیں مان سکتے ہیں کیونکہ امت مسلم اگر جسم واحد کی طرح ہے تو جسم کا ایک حصہ پریشانی میں مبتلا ہے تو بقیہ جسم کی اس میں شراکت داری از خود ہونی چاہئے۔ جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ شراب نوشی تو ہمیشہ سے سماج کے نچلے ، غیر تعلیم یافتہ اور پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے درمیان عام رہی ہے ، وہ اس خبر کو بھی پڑھ لیں جو 30 نومبر 2017 ء کو انگریزی اخبار دکن کرانیکل نے شائع کی ۔ ورنگل سے موصولہ خبر کے مطابق کاکتیہ میڈیکل کالج کے 21 اسٹوڈنٹس کو جو کہ ایم بی بی ایس کے سکنڈ ایئر میں پڑھ رہے تھے ، کالج سے عارضی طور پر (Suspend) کردیا گیا۔ اخبار کی اطلاع کے مطابق کالج کے ایک اسٹوڈنٹ کی سالگرہ پارٹی منانے کیلئے ان طلباء نے کالج کے ہاسٹل میں ہی نہ صرف شراب پی بلکہ دیگر نشہ آور چیزوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ نشہ کی عادت صرف غریب اور سلم علاقوں کے رہنے والوں میں ہی نہیں بلکہ بلا کسی امتیاز کے سماج کے سبھی طبقات اور شہر کے سبھی علاقوں میں پھیلتی جارہی ہے ۔ یہی نہیں حیدرآباد سٹی پولیس نے اس برس شہر کے بڑے بڑے کارپوریٹ اسکول کے بچوں کے متعلق تشویشناک اطلاع دی کہ ان اسکولس کے بچوں میں بھی نشہ آور اشیاء کے استعمال کی خطرناک لت پڑچکی ہے۔ شراب نوشی اور نشہ آور اشیاء کے بڑھتے ہوئے استعمال پر والدین سرپرستوں کے علاوہ تعلیمی اداروں ، ملی مذہبی اور سماجی تنظیموں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں میں نشہ کی عاداتوں کے بارے میں کونسلنگ اور لکچرز کا انعقاد کیا جائے۔ ملی اور مذہبی تنظیمیں کیا صحیح کیا غلط کون جنتی اور کون دوزخی ہے، اس کا اعلان کرنے سے بہتر ہے نشہ کرنے کے نقصانات پر شراب نوشی کے خلاف کل مسلکی مہم چلائی جائے۔ مساجد کے ممبران اس سنگین مسئلہ پر شعور بیداری کا کام کریں اور سما جی تنظیمیں ان لوگوں کی مدد کیلئے آگے آئیں جو نشہ کی عادات ترک کرنے کیلئے تیار ہیں اور جنہیں طبی اور متعلقہ مدد درکار ہو۔
ہماری مساجد کے باہر اور مساجد کے اندر جب سرکاری ا سکیمات سے استفادہ کیلئے اپیل کی جاسکتی ہے تو امت مسلمہ کو درپیش ایک سنگین مسئلہ کے خلاف بھی صرف اپیل ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی رہنمائی کی جانی چاہئے ۔
حیدرآباد سٹی ٹریفک پولیس نے نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے والوں کے خلاف مہم چھیڑی تو اعداد و شمار بتلاتے ہیں کہ نشہ کی حالت میں گاڑی چلانے والوں کی اکثریت 21 تا 30 سال کی عمر والوں کی سامنے آئی ہے ۔ جرائم کی طرف رغبت پیدا کرنے میں بھی نشہ آور اشیاء کا اہم رول مانا گیا ہے ۔ ایسے میں نشہ کے خلاف مہم کے دور رس نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اور نوجوان نسل کے حال ہی نہیں مستقبل کو بھی محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔ ہوش میں آؤ کچھ کرو کا نعرہ لگانے کی ضرورت ہے ورنہ نشہ کی بُری عادات ڈبودے گی ہمارے بچوں کو ۔
اللہ رب العزت ہمیں ہماری اولاد کو سرپرستوں کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ان لوگوں کا راستہ چلا جن پر اس نے انعام کیا اور ہر طرح کے مسائل سے امت مسلمہ کی حفاظت کا معاملہ فرما اور تمام مسلمانوں کو اپنے منصبی فرائض کی ادائیگی بحسن و خوبی کرنے والا بنا (آمین) ۔
sarwari829@yahoo.com