اسمبلی انتخابات…4 ریاستوں میں بی جے پی کے 4 رنگ
سعودی عرب سے مودی کی انتخابی مہم
رشیدالدین
انتخابی ماحول میں ہر پارٹی کا رنگ مختلف ہوتا ہے، اقتدار کیلئے رائے دہندوں کا دل جیتنے مختلف رنگ اختیار کئے جاتے ہیں۔ چار ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی مہم عروج پر ہے اور بی جے پی آسام میں اقتدار کا خواب دیکھ رہی ہے۔ اس نے بعض علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرتے ہوئے کانگریس کو اقتدار سے بیدخل کر نے کا منصوبہ بنایا ہے ۔ کیرالا ، مغربی بنگال اور ٹاملناڈو کے مقابلہ آسام میں بی جے پی نفرت کی سیاست کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد کرنے کی کوشش کرسکتی ہے۔ بی جے پی قائدین اسی حکمت عملی کے مطابق آسام میں سرگرم ہوچکے ہیں۔ آسام میں مسلمانوں کا مستحکم موقف بی جے پی کو ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ لہذا بنگلہ دیشی تارکین وطن کے نام پر فرقہ پرستی کا کارڈ کھیلا جارہا ہے۔ بنگلہ دیش سے سرحد کو مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کیا۔ بعض دیگر قائدین تارکین وطن کو بنگلہ دیش واپس کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ مسلمانوں سے نفرت میں شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی 50 سال تک اب اپوزیشن میں رہنے تیار ہے لیکن وہ یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ سے تشکیل حکومت کیلئے اتحاد نہیں کرے گی۔ مولانا بدرالدین اجمل پر بنگلہ دیش کے تارکین وطن کی سرپرستی کا الزام ہے۔ بنگلہ دیش سے آنے والے جن خاندانوں کو بی جے پی درانداز ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے، وہ طویل عرصہ سے ہندوستان کے شہری ہیں، ان کے ہندوستانی ہونے میں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہندوستان نے حال ہی میں سرحدوں کی حدبندی کے سلسلہ میں بنگلہ دیش سے معاہدہ کیا جس کے تحت ہندوستان کی کچھ زمین بنگلہ دیش کو دی گئی۔ آسام کے مسلمانوں کو ہندوستانی قبول کرنے سے انکار اور بنگلہ دیشی قرار دینے والے قوم پرستوں نے کس طرح ’’مادر وطن‘‘ کو بنگلہ دیش کے حوالہ کردیا ۔
جب ارض وطن کو ’’ماتا‘‘ کا درجہ دیا جاتا ہے تو اپنی سرزمین کا ایک انچ حصہ بھی دوسرے ملک کو کس طرح دیا جاسکتا ہے؟ دراصل آسام میں مسلم جماعت کے سبب بی جے پی نفرت اور تعصب کی سیاست کر رہی ہے۔ 2014 ء کے لوک سبھا انتخابات میں دیگر ریاستوں کی طرح آسام میں بھی بی جے پی کی لہر تھی لیکن یہ لہر یو ڈی ایف کے امکانات پر اثرانداز نہیں ہوسکتی اور بدرالدین اجمل کی پارٹی نے اپنے موقف کو برقرار رکھا۔ اسمبلی انتخابات سے قبل آسام میں جو اوپنین پول منظر عام پر آئے ہیں، اس میں بھی UDF کی مقبولیت برقرار ہے۔ بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتیں مسلم رائے دہندوں میں بدرالدین اجمل کی مقبولیت سے خوف زدہ ہیں۔ الیکشن سے قبل بی جے پی یو ڈی ایف سے متعلق کچھ بھی کہہ لے لیکن نتائج کے بعد اگر تشکیل حکومت کیلئے تائید کی ضرورت پڑے گی تو وہ یو ڈی ایف کے آگے جھکنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرے گی۔ جموں و کشمیر کی مثال سامنے ہے ، جہاں اقتدار کیلئے بی جے پی نے اصولوں اور ایجنڈہ دونوں سے انحراف کر لیا۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں کشمیر کے خصوصی موقف سے متعلق دفعہ 370 کی برخواستگی شامل ہے لیکن اقتدار کیلئے اس مسئلہ کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ بی جے پی اور حریت قائدین میں مذاکرات کا تصور نہیں کیا جاسکتا لیکن کشمیر کے اقل ترین مشترکہ پروگرام میں بی جے پی نے مذاکرات سے اتفاق کیا ہے۔ کشمیر میں مقامی عوام کے جذبات کے اعتبار سے نیشنل کانفرنس سے زیادہ کٹر نظریاتی پارٹی پی ڈی پی ہے لیکن اقتدار کو ایسی پارٹی سے دو مرتبہ سمجھوتہ کرنا پڑا۔ آسام میں نفرت کی سیاست عروج پر ہے لیکن نتائج کے بعد ضرورت پڑنے پر یو ڈی ایف سے رجوع ہوں گے جنہیں آج ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے۔ بی جے پی میں ماقبل اتحاد ان پارٹیوں سے کیا جو بنگلہ دیشی تارکین وطن کے بارے میں اس کے نظریات سے اتفاق کرتے ہیں۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی چار ریاستوں کی الگ الگ صورتحال کو دیکھتے ہوئے متنازعہ موضوعات سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مذہب کے نام پر ووٹ جمع کرنے کا کام دیگر قائدین کے سپرد کردیا گیا ۔
انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم نریندر مودی بیرونی دورہ پر ہیں۔ بلجیم اور امریکہ کے بعد پہلی مرتبہ سعودی عرب روانہ ہوئے۔ دورہ سعودی عرب کے ذریعہ بظاہر یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ باہمی تجارت کے فروغ اور غیر مقیم ہندوستانیوں کے مسائل پر بات چیت ہوگی لیکن درپردہ حقیقت کچھ اور ہے۔ دورہ سعودی عرب کا ریاستوں کی انتخابی مہم سے راست تعلق ہے۔ غیر مقیم ہندوستانیوں کی اکثریت کا تعلق کیرالا سے ہے اور سعودی عرب میں موجود غیر مقیم ہندوستانیوں میں ہر دوسرا شخص کیرالا سے ملے گا۔ نریندر مودی اپنے اس دورہ کے ذریعہ دراصل کیرالا کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ سعودی عرب میں مقیم کیرالا کے لاکھوں افراد اور ان کے ہندوستان میں موجود خاندانوں کا دل جیت کر اسے ووٹ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کیرالا کے علاوہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کی قابل لحاظ تعداد سعودی عرب میں ہے،
لہذا منصوبہ بند طریقہ سے مودی نے سعودی عرب کو اپنے بیرونی دورہ میں شامل کیا۔ واشنگٹن میں نیوکلیئر دہشت گردی کے مسئلہ پر کانفرنس میں نریندر مودی کو نواز شریف کی عدم شرکت سے مایوسی ہوئی ہوگی کیونکہ دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات دنیا بھر کے میڈیا کی اہم خبر ہوتی ۔ اگر نواز شریف واشنگٹن پہنچتے تو کانفرنس پس منظر میں چلی جاتی اور دونوں وزرائے اعظم کی ملاقات کو اہمیت حاصل ہوتی۔ لمحہ آخر میں نواز شریف کی عدم شرکت سے مودی کا بیرونی دورہ بے رنگ ثابت ہوا ہے۔ ویسے نریندر مودی اپنی پبلیسٹی کا کوئی موقع نہیں گنواتے اور ان کے میڈیا اڈوائیزرس نے سرخیوں میں رہنے کے تمام گر انہیں سکھادیئے ہیں۔ نیوکلیئر خطرہ اور نیوکلیئر ہتھیار دہشت گردوںکے ہاتھوں میں جانے کا خطرہ پاکستان میں ہے لیکن وہاں کے کسی اہم قائد نے کانفرنس میں شرکت نہیں کی۔ چار ریاستوں کے انتخابات میں نریندر مودی اور بی جے پی کا ہر ریاست میں الگ الگ رنگ دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی کو کسی بھی مشکل سے بچانے کیلئے آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے متنازعہ نعرہ پر یو ٹرن لے لیا۔ نئی نسل کو جس نعرہ کو سکھانے کی بات کرتے ہوئے بھاگوت نے ملک میں تنازعہ کھڑا کیا تھا اب وہی بھاگوت کہہ رہے ہیںکہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کا نعرہ لگانے کیلئے کسی کو جبر نہ کیا جائے۔ دراصل تنازعہ تو آپ نے شروع کیا جس کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول تیار ہوا۔
نعرہ نہ لگانے والوں کو ملک دشمن اور پاکستان جانے کا مشورہ دیا گیا۔ دہلی میں دینی مدارس کے طلباء اس متنازعہ نعرہ سے انکار کی صورت میں حملہ کا نشانہ بنائے گئے ۔ سماج میں نفرت کا زہر گھولنے کا مقصد تو پورا ہوگیا لیکن انتخابی فائدہ کیلئے اچانک موقف تبدیل ہوگیا۔ دینی مدرسہ کے طلبہ پر حملہ کی اخلاقی ذمہ داری کیا بھاگوت قبول کریںگے ؟ مختار عباس نقوی کو مسلمانوں کے حب الوطنی کا اعتراف ہونے لگا ہے اور انہوں نے کہا کہ قوم پرستی اور حب الوطنی مسلمانوں کو ڈی این اے میں ہے۔ کاش یہ بات نقوی اس وقت کہتے جب نفرت کے سوداگر بیف اور متنازعہ نعروں پر مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ انتخابی فائدہ کیلئے آج مختار عباس نقوی مسلمانوں کو حب الوطنی کا سرٹیفکٹ جاری کر رہے ہیں۔ بیف کے مسئلہ پر جھارکھنڈ میں دو مسلم تاجروں کو پھانسی پر لٹکادیا گیا لیکن مختار عباس نقوی نے زبان نہیں کھولی۔ انتخابی فائدہ کیلئے مسلمانوں کو خوش کرنے رواداری کی باتیں اور انتخابات کے بعد دادری جیسا سلوک سنگھ پریوار کی عادت بن چکی ہے۔ مغربی بنگال میں انتخابی تقریر کے دوران اذان کی آواز پر نریندر مودی نے تقریر کو روک دے اور تمام مذاہب کے احترام کی تلقین کی۔ مودی کو مساجد کے احترام کا خیال اس وقت نہیں آیا جب ان کے دور چیف منسٹری میں گجرات میں دنگائیوں نے مساجد کو نشانہ بنایا اور کئی مساجد سے اذان کی آواز بند کردی گئی لیکن بنگال میں انتخابی فائدہ کیلئے اذان کا احترام۔ گزشتہ دنوں نریندر مودی نے عالمی صوفی فورم میں شرکت کی جو عملاً حکومت کا اسپانسرڈ پروگرام تھا۔
شہنشاہ اکبر کے دربار میں دین الٰہی کی تائید کرنے والے درباری علماء کی طرح صوفی فورم کے مندوبین کی جانب سے بھارت ماتا کی جئے کے نعرہ پر نریندر مودی یقیناً خوش ہوئے ہوں گے اور وہ اس نعرہ کے وقت فخریہ انداز میں مندوبین کی طرف دیکھ رہے تھے۔ شائد انہوں نے کچھ دیر کیلئے خود کو شہنشاہ اکبر تصور کیا ہوگا۔ صوفی فورم میں مودی نے صوفیائے کرام اور ان کی تعلیمات کی خوب تعریف کی۔ انہیں 2002 ء میں گجرات کے چیف منسٹر کی حیثیت سے صوفیائے کرام کے احترام کا خیال نہیں آیا ، جب فسادات میں صوفیائے کرام کے آستانوں کو تہس نہس کردیا گیا۔ آج تک گجرات میں صوفیائے کرام ے آستانوں کی تعمیر کا کام انجام نہیں دیا گیا۔ اذان کے احترام اور صوفیائے کرام کے تذکرہ سے قبل گجرات فسادات میں مساجد اور آستانوں کے ساتھ سلوک کا جائزہ لیں تو بہتر ہوگا۔ الغرض نریندر مودی انتخابی فائدہ کیلئے مسلمانوں کی دلجوئی میں مصروف ہیں۔ آسام اور کیرالا میں مسلم جماعتیں مضبوط موقف میں ہیں اور ان کی تائید کے بغیر کوئی بھی جماعت تشکیل حکومت کا تصور نہیں کرسکتی۔ ان ریاستوں کے رائے دہندوں کو یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور مسلم لیگ جیسی مضبوط موقف رکھنے والی نمائندہ جماعتوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ منظر بھوپالی نے کچھ اس طرح مشورہ دیا ہے ؎
ہوا کے خوف سے زخمی کبھی انا نہ کرو
بجھیں چراغ تو بجھنے دو التجا نہ کرو