ہوا سے کہنا چراغوں سے ہوشیار رہے

رشیدالدین
’’میں نریندر دامودر داس مودی ایشور کی شپتھ لیتا ہوں کہ میں ویدھی دوارا استاپتھ بھارت کے سم ودھان کے پریتی سچی شردھا اور نشٹھا رکھوں گا‘‘ یہ وہ الفاظ تھے جنھیں ادا کرتے ہوئے نریندر مودی نے دنیا کی عظیم جمہوریت کے وزیراعظم کے عہدہ کا حلف لیا تھا۔ نریندر مودی کی خدا کے نام پر کھائی اس قسم کو ابھی دو ہفتے بھی مکمل نہیں ہوئے کہ وہ دنیا کے سامنے اُٹھائے گئے حلف کو بھلا بیٹھے۔ دستور کے تیسرے شیڈول میں حلف کیلئے جو الفاظ کا تعین کیا گیا اس میں دستور ہند پر مکمل ایقان کے ساتھ ملک کے اقتدار اعلیٰ اور سالمیت کے تحفظ کا عہد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ سماج کے ہر شہری کے ساتھ دستور و قانون کے مطابق مساوی انصاف کا حلف دلایا جاتا ہے ۔ اگر ملک کے حکمراں خدا کے نام پر اُٹھائے گئے حلف کو بھلا بیٹھیں تو پھر دستور و قانون کی بالادستی کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آج کے سیاستدانوں کیلئے حلف اُٹھانا اور قسم کھانا محض ضابطہ کی تکمیل کے سوا کچھ نہیں۔ دستور ہند نے ملک میں جمہوری طرز حکمرانی کو رائج کیا ہے لیکن نریندر مودی اقتدار کے حصول کے دو ہفتوں میں ہی پارلیمانی اور جمہوری طرز حکمرانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈکٹیٹر شپ اور آمریت کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ حلف کی صریح خلاف ورزی اور دستور کی توہین نہیں تو کیا ہے ۔

ظاہر ہے کہ جب حلف برداری کے الفاظ حلق کے نیچے نہ اُتریں تو اُن سے عمل کی توقع کرنا ہی فضول ہوگا ۔ نریندر مودی نے ملک پر حکمرانی کیلئے 46 رکنی کابینہ تشکیل دی لیکن دو ہفتوں میں کابینی وزراء کو بے اثر کرنے کی کارروائی شروع کردی گئی۔ بی جے پی پر مودی کچھ اس طرح حاوی ہوچکے ہیں کہ پارٹی کے قد آور نیتا بھی خود کو بونا محسوس کررہے ہیں۔ جمہوریت کی آڑ میں مودی کی آمریت نہ صرف ملک کیلئے نقصاندہ ہے بلکہ جمہوری اور پارلیمانی طرز حکمرانی کے منافی ہے ۔ مودی نے کابینہ تو تشکیل دیدی لیکن بیورو کریسی کے سہارے حکمرانی کی تیاری کررہے ہیں ۔ ترقی کے نعرہ سے انتخابی مہم چلاکر ’’وکاس پُرش‘‘ کے طورپر عوام سے روبرو ہونے والے نریندر مودی بقول اُوما بھارتی ’’ویناش پُرش‘‘کے طورپر اُبھر رہے ہیں۔ مودی نے نعرہ دیا تھا کہ ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ لیکن عوام تو کجا وہ ساتھی وزراء کو بھی ساتھ لے کر چلنے آمادہ نہیں۔ سرکاری محکمہ جات کی موثر کارکردگی میں معاون وزارتی گروپس کی برخاستگی کے ذریعہ مودی نے اقتدار کو اپنے اطراف مرکوز کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جس طرح اُنھوں نے صدارتی نظام حکومت کی طرح انتخابی مہم چلائی تھی ، تشکیل حکومت کے بعد اُسی طرز حکمرانی کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ ایک طرف انھوں نے وزراء کو 100 دن کا لائحہ عمل تیار کرنے کی ہدایت دی تو دوسری طرف تمام محکمہ جات کے اعلیٰ افسروں کو پابند کیا کہ وہ کسی کے دباؤ میں نہ آئیں بلکہ کسی بھی فیصلہ کے سلسلے میں اُن سے فون یا ای میل کے ذریعہ راست طورپر رجوع ہوں ۔ متعلقہ وزراء کے بغیر عہدیداروں کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اس طرح کی ہدایات جاری کرنا کیا وزراء کی اہمیت کو گھٹانا نہیں ہے ؟ جب عہدیدار راست وزیراعظم کو جوابدہ بنا دیئے جائیں تو اُن کے نزدیک وزراء کی وقعت کیا رہ جائے گی ؟ بہتر حکمرانی کے لئے بیورو کریسی کو جواب دہ بنانا یقینا اچھا اقدام ہے لیکن اُس کیلئے پارلیمانی اور جمہوری نظام حکومت کے اُصولوں سے انحراف ملک کو ترقی کے بجائے نراج کی طرف لے جائے گا ۔ جمہوری نظام حکومت میں عہدیدار متعلقہ وزیر کو جوابدہ ہوتے ہیں اور وزیر حکومت کے سربراہ کو اور حکومت عوام کو جوابدہ ہوتی ہے ۔ کیا نریندر مودی کو اپنے کابینی رفقاء پر بھروسہ نہیں ؟

اگر ایسا ہی ہے تو پھر وزارت کیوں تشکیل دی گئی ؟ عہدیداروں کو کھلی چھوٹ سے حکومت کی کارکردگی سدھار کے بجائے بگاڑ کے راستے پر چل پڑے گی اور نقصان تو بہرحال عام آدمی کا ہوگا۔ نریندر مودی کے یہ اقدامات اقتدار کی مرکوزیت سے متعلق غیرصحتمندانہ رجحان میں اضافہ ہے اور مستقبل میں آمریت کا غلبہ ہوسکتا ہے ۔ نریندر مودی کو کابینی نظام کو نقصان پہنچانے کی کوششوں سے باز آنا ہوگا کیونکہ ملک اور عوام کی بھلائی کے فیصلے اتفاق رائے سے کئے جانے چاہئے نہ کہ ڈکٹیٹر شپ کے ذریعہ ۔ نریندر مودی کو گجرات کی طرح مرکز میں بھی اقتدار کا مرکز بننے کے بجائے کابینہ کے مشترکہ فیصلوں کو قبول کرنا ہوگا اور یہی عوام اور جمہوریت کے مفاد میں ہوگا ۔ گجرات کا تجربہ ملک کے لئے قابل عمل نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح وزراء کٹھ پتلی بن جائیں گے۔ نریندر مودی جن میں ڈکٹیٹر شپ کا انداز کوٹ کوٹ کر بھرا ہے وہ ملک کو ایک جماعتی نظام میں جھونک دینا چاہتے ہیں جو محض ایک فرقہ کے مخصوص مکتب فکر کی نمائندگی کرتا ہے ۔ یہ کیفیت 1975 ء کی تاریخ کو دہرائے گی جب اندرا گاندھی نے بھی اقتدار کو اپنے اطراف مرکوز کرلیا تھا ۔ اسی اقتدار کے نشہ میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے جمہوری اور دستوری حقوق کو سلب کرلیا گیا ۔ آمریت کے خلاف جئے پرکاش نارائن اور مرارجی دیسائی نے جدوجہد کی اور 1977ء میں کانگریس کو بدترین شکست ہوئی اور جنتا پارٹی برسراقتدار آئی ۔ پارلیمانی جمہوریت میں تقسیم کار ہوتا ہے جبکہ اقتدار کا مرکوز ہونا آمریت کی علامت ہے ۔

لوک سبھا انتخابات میں کامیابی اور مرکز میں تشکیل حکومت کے بعد بی جے پی نے اب اُن 4 ریاستوں پر توجہ مرکوز کرلی ہے جہاں آئندہ چند ماہ میں اسمبلی انتخابات ہوں گے ۔ الیکشن کمیشن توقع ہے کہ مہاراشٹرا ، دہلی ، ہریانہ اور جھارکھنڈ میں انتخابی شیڈول کا اگست میں اعلان کردے گا ۔ ان چاروں ریاستوں میں کہیں بھی بی جے پی زیراقتدار نہیں ہے ۔ لوک سبھا چناؤ کی لہر کا فائدہ اُٹھاکر بی جے پی ان ریاستوں کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی فراق میں ہے ۔ چار ریاستوں کے لئے ابھی سے انتخابی ماحول کو گرمانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ مہاراشٹرا کے پونے میں ایک مسلم سافٹ ویر پروفیشنل کا قتل ، اترپردیش میں عصمت ریزی کے واقعات اور آسام میں بنگلہ دیشی ہونے کے الزام میں مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کی مہم یہ تمام بظاہر الگ الگ نوعیت کی سرگرمیاں ہے لیکن درحقیقت بی جے پی کی انتخابی مہم کا حصہ نظر آتی ہیں۔ اُترپردیش میں خواتین سے بدسلوکی کے واقعات کا اچانک رونما ہونا یقینا کئی شبہات کو جنم دیتا ہے ۔ عام انتخابات میں یو پی کی 80 لوک سبھا نشستوں میں بی جے پی نے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جس سے بی جے پی کے حوصلے کافی بلند ہیں۔ نریندر مودی کے سپہ سالار امیت شاہ جو اُترپردیش میں پارٹی کی کمان سنبھالے ہوئے ہیں وہ کسی بھی صورت میں اُترپردیش میں پارٹی کو برسراقتدار لانے کی تیاری کررہے ہیں۔ اب جبکہ یو پی میں اسمبلی انتخابات کیلئے تین سال باقی ہیں لیکن اس طرح کے واقعات کو بنیاد بناکر امن و ضبط کی ابتر صورتحال کے بہانے صدر راج کے نفاذ کی تیاری ہے تاکہ وسط مدتی چناؤ کے ذریعہ اُترپردیش پر قبضہ کیا جائے ۔ عام انتخابات کے ماسٹر مائنڈ امیت شاہ دیکھنا ہے کہ اُترپردیش کی کامیابی میں کس حد تک اہم رول ادا کر پائیں گے۔ نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی ملک میں جارحانہ فرقہ پرستی کی علمبردار طاقتیں سر اُٹھانے لگی ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں کسی نہ کسی عنوان سے عوام میں نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے ۔ کبھی اذانِ فجر پر پابندی کا مطالبہ تو کہیں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے حق میں مہم ۔ مہاراشٹرا جوکہ آر ایس ایس کا گڑھ ہے وہاں سنگھ پریوار کی تنظیمیں متحرک ہوچکی ہیں۔

پونے میں جھوٹے الزام کے تحت مسلم سافٹ ویر پروفیشنل کا قتل ساری ریاست میں نفرت کی سیاست کو عام کرنے کا حصہ ہے۔ جس طرح لوک سبھا انتخابات سے قبل مظفرنگر میں فسادات بھڑکائے گئے اور بی جے پی نے اُسی آگ میں اپنی سیاسی روٹیوں کو سیکنے کا کام کیا۔ مظفرنگر فسادات کے ملزم کو نہ صرف پارٹی نے ٹکٹ دیا بلکہ مودی نے اُسے اپنی کابینہ میں شامل کیا۔ نریندر مودی کی انتخابی مہم کے دوران آسام اور مغربی بنگال میں بنگلہ دیشی پناہ گزینوں کی واپسی کی دھمکی دی گئی تھی ۔ اسی تسلسل کے تحت بی جے پی کی آسام یونٹ نے بنگلہ دیش کا لیبل لگاکر مسلمانوں کو بیدخل کرنے کی مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جن کے آباء و اجداد ہندوستانی تھے اُن سے ہندوستانی ہونے کا ثبوت مانگا جارہا ہے۔ عام انتخابات کی مہم کے دوران آسام میں مسلمانوں پر حملوں کے ذریعہ بھی بی جے پی نے انتخابی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ نفرت کے یہ سوداگر آخر کب تک بے قصور اور معصوم افراد کی لاشوں پر اقتدار کا تخت سجاتے رہیں گے ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مہاراشٹرا میں تشدد میں اضافہ ہوگا تو اُترپردیش کے ساتھ وہاں بھی صدر راج نافذ کیا جاسکتا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مہاراشٹرا اور اُترپردیش کے واقعات کے پس پردہ سازشیوں کا پتہ چلایا جائے ۔ اُترپردیش اور مہاراشٹرا کی خفیہ انٹلیجنس کو اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ آیا ان واقعات کے پس پردہ ’’سنٹرل انٹلیجنس ‘‘ تو نہیں؟ الغرض ملک کی بڑی ریاستوں میں اقتدار کے لئے بی جے پی کوئی بھی گیم پلان تیار کرسکتی ہے ۔ منور رانا نے موجودہ حالات پر کیا خوب کہا ہے ؎
گئے وہ دن کہ ہواؤں سے خوف کھاتے رہے
ہوا سے کہنا چراغوں سے ہوشیار رہے