حب الوطنی یا ملک سے غداری
تعلیمی اداروں پر زعفرانی نظریں
پارلیمنٹ سیشن میں طاقت کا مظاہرہ
رشیدالدین
پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کیلئے بزنس ایجنڈہ ابھی طئے نہیں ہوا لیکن دونوں ایوانوں میں ہنگامہ آرائی اور کارروائی میں خلل کا ایجنڈہ طئے ہوچکا ہے ۔ بجٹ سیشن کے آغاز سے عین قبل فضاء ناسازگار ہوگئی۔ سیشن کے آغاز سے قبل حکومت نے اپوزیشن کا اجلاس طلب کرتے ہوئے اجلاس کے پرامن انعقاد کیلئے تعاون کی خواہش کی تھی۔ یہ محض ایک رسمی کارروائی ہے اور ہر حکومت پارلیمنٹ سیشن سے قبل اس طرح کا کل جماعتی اجلاس طلب کرتی ہے۔ نریندر مودی حکومت نے بھی یہ کوشش کی ، لیکن بعض تازہ ترین واقعات نے اپوزیشن کو حکومت کو گھیرنے کا موقع فراہم کردیا۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی کہ خود برسر اقتدار بی جے پی نے پارلیمنٹ میں جارحانہ موقف اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان صورتحال کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔ جب برسر اقتدار پارٹی خود کارروائی چلانے تیار نہ ہو تو پھر پارلیمانی جمہوریت کا تحفظ کون کرے گا۔ اپوزیشن کا کام مسائل پیش کرنا ہے اور حکومت کی ذمہ داری جواب دینے کی ہے ۔ کانگریس پر الزام تراشی سے قبل بی جے پی اپنا محاسبہ کرے کہ یو پی اے دور حکومت میں اس نے پارلیمنٹ کو کتنی بار چلنے دیا۔ بجٹ سیشن کا 23 فروری سے آغاز ہوگا۔ 26 فروری ریلویز اور 28 فروری کو عام بجٹ پیش ہوگا۔ پہلے مرحلہ کا سیشن 20 مارچ تک جاری رہے گا۔ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں دلت طالب علم روہت کی خودکشی کا معاملہ ابھی گرم تھا کہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں افضل گرو کی یاد میں مظاہرہ نے صورتحال کو دھماکو کردیا ہے۔ پاکستان کے حق میں اور ہندوستان کی مخالفت میں نعروں کے الزامات نے نہ صرف دہلی بلکہ دیگر ریاستوں کی یونیورسٹیز میں ماحول کو بگاڑ دیا ہے۔ دیش بھکتی اور ملک دشمنی کے نام پر نہ صرف طلبہ بلکہ سیاسی جماعتیں بھی بٹ چکی ہیں۔ بی جے پی اور سنگھ پریوار کو جیسے ایک ہتھیار مل گیا تاکہ جس پر چاہیں دیش دروہی کا الزام عائد کرتے ہوئے حملہ کردیں۔ یونیورسٹیز سے حملوں کا سلسلہ اب عدالتوں تک پہنچ چکا ہے۔ قانون کے تحفظ کی ذمہ دار اور انصاف کا مندر کہی جانے والی عدالت میں جج کے روبرو کورٹ روم میں قانون کے محافظ کہے جانے والے وکلاء نے قانون شکنی کی۔ وکلاء جو کہ خاطیوں کو سزا دلانے کیلئے عدالت میں بحث کرتے ہیں، انہیں اس جرم کی سزا کون دے گا ؟ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے، چاہے وہ وزیراعظم ہی کیوں نہ ہوں لیکن سیاہ کوٹ پہنتے ہی وکلاء نے کیسے تصور کرلیا کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔ طلبہ اور صحافیوں پر حملہ شرمناک حرکت ہے، جس نے نہ صرف عدالت کے وقار کی توہین کی بلکہ مقدس پیشہ وکالت کو شرمسار کردیا۔ ایک نہیں دوسرے دن بھی عدالت میں وہی منظر دہرایا گیا۔ عدالت کا احاطہ یونیورسٹی کے کیمپس میں تبدیل ہوچکا تھا۔
دہلی میں بی جے پی کے رکن اسمبلی جو مارپیٹ میں شامل تھے، انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر بندوق ہوتی تو وہ گولی ماردیتے۔ اپنے ساتھی کی عدالت میں پیشی کے سلسلہ میں آنے والے طلبہ پر پاکستان کے حق میں نعرہ بازی کا الزام عائد کردیا گیا جس کی الیکٹرانک میڈیا نے ویڈیو کلپنگ کے ساتھ تردید کی ہے۔ پتہ نہیں کیوں حالیہ عرصہ سے بی جے پی اور زعفرانی تنظیموں کو ہر احتجاجی نعرہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ ہی سنائی دے رہا ہے۔ اگر کل کے دن کسان اور مزدور اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگائیں تو شائد ان پر ملک سے غداری کا مقدمہ درج ہوجائے گا۔ ذات پات کے نظام اور فاشسٹ نظام سے آزادی کے نعروں کو ملک کے خلاف نعرے قرار دینا باعث حیرت ہے۔ سنگھ پریوار اور بی جے پی نے پاسپورٹ اور ویزا کی اجرائی کی طرح حب الوطنی سرٹیفکٹ جاری کرنے کاؤنٹر کھول لیا ہے اور اس کے مراکز یونیورسٹی میں قائم کئے گئے ہیں۔ ایک خاص ایجنڈہ کے تحت تعلیمی اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تاکہ نوجوان نسل کو زعفرانی رنگ میں ڈھال دیا جائے۔ بی جے پی کو یونیورسٹیز میں سیکولر ذہنیت کا غلبہ برداشت نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن میں حب الوطنی اور ملک سے غداری کے سرٹیفکٹس جاری کئے جاسکتے ہیں اور کارروائی کا ہنگاموں کی نذر ہونا طئے ہے۔ طلبہ پر مخالف ہندوستان نعرے لگانے کا الزام ابھی تک ثابت نہیں ہوا اور اگر کسی نے ایسا کیا ہے تو ہرگز تائید نہیں کی جاسکتی۔ ایک ٹی وی چیانل نے ویڈیو کے ذریعہ یہ ثابت کیا کہ پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والے دراصل اے بی وی پی کے کارکن تھے جو چہروں پر نقاب لگائے ہوئے تھے ۔ نعرے لگاکر وہ فرار ہوگئے اور مقدمہ دوسرے طلبہ پر درج کردیا گیا۔ طلبہ پر ملک دشمنی کا الزام لگانے والے عناصر نریندر مودی کی پاکستان سے محبت پر خاموش کیوں ہیں؟ سرحدوں پر سپاہیوں کا خون بہہ رہا ہے لیکن مودی بن بلائے ہی اسلام آباد پہنچ گئے اور نواز شریف کے برتھ ڈے ظہرانہ میں شرکت کی ۔ گاندھی جی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو دیش بھکت اور انگریزوں کے خلاف پہلی تلوار اٹھانے والے شیر میسور ٹیپو سلطان کو دیش کا غدار قرار دینے والے پہلے اپنی حب الوطنی کا محاسبہ کرلیں۔ کیا ایسے لوگ آج دوسروں کو حب الوطنی کی سند دیں گے ؟ اگر یونہی چلتا رہا تو سنگھ پریوار اور بی جے پی کے سواء کوئی دیش بھکت نہیں رہے گا۔ مورخین کے مطابق سنگھ پریوار نے آزادی کی لڑائی میں انگریزوں کیلئے مجاہدین آزادی کی مخبری کی تھی۔ وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی نے سنٹرل یونیورسٹیز کے وائس چانسلرس کے ساتھ اجلاس میں ہر یونیورسٹی پر قومی پرچم لہرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقیناً اس فیصلہ پر کسی کو اعتراض نہیں ہوسکتا بلکہ ہر اسکول اور سرکاری دفتر پر قومی پرچم لہرانا چاہئے ۔ تاہم سوال یہ ہے کہ آر ایس ایس ہیڈکوارٹر پر قومی پرچم کیوں نہیں ؟ 1947 کے بعد 1950 ء اور پھر 52 سال بعد 2002 ء میں آر ایس ایس نے ناگپور ہیڈکوارٹر میں قومی پرچم لہرایا تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں، اس کی وضاحت سمرتی ایرانی کو کرنی چاہئے۔ دلچسپ بات تو یہ ہیکہ یونیورسٹیز کے بارے میں فیصلے کرنے والی وزیر کی تعلیمی ڈگری پر تنازعہ برقرار ہے۔ جو شخص بھی اپنا مخالف ہو یا نظریات سے اختلاف کرے وہ قوم دشمن۔ یہ رجحان عدم رواداری نہیں تو اور کیا ہے ؟ آخر یہ کب تک چلے گا ؟
بی جے پی اور اپوزیشن دونوں نے بجٹ سیشن کیلئے اپنی اپنی حکمت عملی تیار کرلی ہے اور سیشن کا ہنگامہ خیز ہونا یقینی ہے۔ بجٹ سیشن پر جو مسائل چھائے رہیں گے، ان میں JNTU، عدالت کے احاطہ میں طلبہ اور صحافیوں کی مارپیٹ، حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی میں طالب علم کی خودکشی ، اروناچل پردیش میں صدر راج ، ممبئی دہشت گرد حملے کے گواہ معافی یافتہ ڈیوڈ ہیڈلی کا بیان، عشرت جہاں انکاؤنٹر اور عدم رواداری شامل ہیں۔ رواداری اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ لگانے والے وزیراعظم نریندر مودی اس عدم رواداری پر پارلیمنٹ میں کیا موقف اختیار کریں گے۔ جی ایس ٹی بل پر سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہیں ہے لہذا موجودہ حالات میں اس کی منظوری کے امکانات موہوم دکھائی دے رہے ہیں۔ 4 ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے پس منظر میں بجٹ اجلاس پارٹیوں کیلئے سیاسی مقصد براری کا پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔ 8 ریاستوں میں اسمبلی کی 12 نشستوں پر ہوئے ضمنی چناؤ میں بی جے پی اور اس کی حلیف جماعتوں نے بہتر مظاہرہ کیا۔ کانگریس بھی یو پی میں اپنے وجود کا احساس دلانے میں کامیاب رہی ۔ کرناٹک اور اترپردیش میں حکمراں جماعتوں کو دھکا لگا ہے۔ بہار اسمبلی چناؤ میں بہتر مظاہرہ کے بعد یو پی کی دیوبند نشست پر کامیابی سے کانگریس کے حوصلے بلند ہیں۔ تقریباً 25 سال بعد یہ نشست کانگریس کو واپس ملی ہے اور 38 سال بعد کوئی مسلم امیدوار اس حلقہ سے منتخب ہوا ہے۔ اترپردیش میں دو نشستیں حکمراں سماج وادی پارٹی کے ہاتھ سے نکل گئیں جو کہ حکومت کی عدم مقبولیت کا ثبوت ہے۔ بی جے پی اور کانگریس کا بہتر مظاہرہ آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کیلئے خطرہ کی گھنٹی ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے جارحانہ تیور اور نوجوان نسل کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیابی نے بی جے پی کو خوفزدہ کردیا ہے۔
بیرون ملک ٹریننگ کے بعد سے راہول گاندھی میں اندرا گاندھی کی قائدانہ جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ دلت نوجوان خودکشی مسئلہ پر راہول نے دو مرتبہ حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا دورہ کیا ۔ انہوں نے بھوک ہڑتال میں بھی حصہ لیا ۔ راہول گاندھی طلبہ کے مسائل پر قائدانہ رول میں دکھائی دیئے۔ جے این ٹی یو میں گڑبڑ کے بعد یونیورسٹی پہنچ گئے اور صدر جمہوریہ سے نمائندگی کی۔ جس طرح نریندر مودی نے کہا کہ ہندوستان کی آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہے، ٹھیک اسی طرح راہول گاندھی نوجوان ووٹرس کیلئے پرکشش بن چکے ہیں۔ ان میں تبدیلی مجوزہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کیلئے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ کانگریس کو آسام اور کیرالا میں اپنی حکومتوں کو بچانا ہے۔ جن ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہیں ، ان میں ایک بھی بی جے پی زیر اقتدار نہیں ہے۔ لہذا بی جے پی کو نقصان کا کوئی خوف نہیں بلکہ وہ اپوزیشن سے حکومت چھیننے کیلئے ہرطرح کے حربے استعمال کرے گی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ 2014ء میں نریندر مودی کی مقبولیت کا راز ان کی لفاظی اور الفاظ کی جادوگری تھا۔ اب تقاریر کا جادوئی اثر کم ہونے لگا ہے۔ ایسے میں جارحانہ تیور کے ساتھ راہول گاندھی بی جے پی کیلئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ سیشن میں راہول گاندھی دیگر ہم خیال جماعتوں کے ساتھ حکومت کو گھیرنے کا کوئی موقع نہیں گنوائیں گے۔ ملک کی موجودہ صورتحال پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ہوائیں نفرتوں کی چل رہی ہیں روز بھارت میں
محبت بھائی چارہ کے سہانے دن وہ لوٹادو