ہند ۔ پاک تعلقات لفاظی کی نذر

ہر کوئی کہتا ہے میں ہوں دوسرا کوئی نہیں
اس صدی کا اس سے بڑھ کر المیہ کوئی نہیں
ہند ۔ پاک تعلقات لفاظی کی نذر
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ کشیدگی کو دور کرنے کی کوشش کی بجائے باہمی تعلقات کو دونوں ملکوں کے قائدین نے اپنی لفاظی کی نذر کردیا ہے۔ اقوام متحدہ میں وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم نواز شریف دونوں کے دورہ اور مسئلہ کشمیر پر اظہارخیال کو ہر دونوں فریقوں نے اپنے نکتہ نظر پر زور دیا۔ وزیرخارجہ سشماسوراج نے بھی یکم ؍ اکٹوبر کو اپنے خطاب میں پاکستان پر ہندوستان کے موقف کی تازہ تفصیلات پیش کیں۔ باہمی مذاکرات اور دہشت گردی کے موضوعات نئے نہیں ہیں۔ مذاکرات کا عمل ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ رہا ہے جبکہ کشیدگی اور تعطل کی صورتحال برقرار ہے۔ وزیرخارجہ سشماسوراج نے اپنے موقف کو پیش کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی تو پاکستان نے بھی اپنے عوام کے سامنے ہندوستان کے خلاف اظہارخیال کیلئے کسی نکتہ بھی نہیں چھوڑا۔ ایسے میں باہمی تعلقات کا معاملہ معلق ہی رہا۔ لیڈروں کو اپنے ملکوں کے مسائل کی یکسوئی کیلئے کوشش کرنی ہوتی ہے۔ انہیں مسئلہ کی یکسوئی میں رول ادا کرنا ہے یا مسائل پیدا کرنے ہیں صرف نتیجہ خیز مذاکرات سے ہی اس خطہ میں مستقل امن اور تعلقات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور یہی دونوں ملکوں کے عوام کے مفاد اور فلاح و بہبود کے حق میںہے۔ پاکستان کے تعلق سے یہی بات دوہرائی جاتی ہے کہ اسے سچائی کی راہ اختیار کرتے ہوئے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہئے ورنہ وہ بحیثیت ایک ملک اپنی شناخت کو مشکوک ہونے سے روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے گا۔ پاکستان کے تعلق سے یہی کہا جاتا رہا ہیکہ وہ ایک دہشت گردی کا گروہ ملک ہے۔ ہندوستان کو نیوکلیئر ہتھیاروں کے حوالے سے دھمکی دیتا آرہا ہے۔ پاکستان کے مختلف وزراء اور فوجی عہدیداروں سے بیانات بھی حالات کو ابتر بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ہندوستان کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا رہا ہیکہ وہ پڑوسی ملک کے بارے میں سخت موقف اختیار کرتا ہے۔ مذاکرات سے قبل پیشگی شرائط عائد کرکے بات چیت کا موقع بھی فراہم ہیں کرتا جبکہ ہندوستان کا جواب یہ ہوتا ہیکہ وہ باہمی مذاکرات کے ذریعہ تمام دیرینہ مسائل حل کرنے کیلئے تیار ہے۔ اقوام متحدہ میں دونوں ملکوں کو اپنے موقف کے اظہار کا موقع ملتا ہے لیکن دونوں نے تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پاکستان کا ادعا ہوتا ہیکہ اس نے سکریٹری جنرل بان کی مون کو تمام شواہد پیش کئے ہیں جس میں یہ ثبوت بھی موجود ہے کہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلائی جارہی ہے۔ ہندوستان کی سیکوریٹی ایجنسیوں کا تحریک طالبان سے گٹھ جوڑ بنا ہوا ہے۔ وزیرخارجہ سشماسوراج کے خطاب کے بعد پاکستان کو ایک پڑوسی ملک کی حیثیت سے کشیدگی کو ہوا دینے والی حرکت نہیں کرنی چاہئے تھی۔ ہندوستان پر الزام ہیکہ وہ نہ صرف پاکستان کی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ملا ہوا ہے بلکہ باہمی مذاکرات کو تعطل کا شکار کرکے دونوں ملکوں کے درمیان مجموعی فضا کو بگاڑ رہا ہے۔ ہندوستان کا اس بات پر اصرار کرنا کہ وہ صرف ایک نکاتی ایجنڈہ پر ہی بات کرے گا اس سے واضح ہوتا ہیکہ وہ حقیقی بات چیت میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ ہندوستان نے 2007ء کے سمجھوتہ ایکسپریس بم دھماکہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ سشماسوراج نے امن کیلئے پاکستان کے اس چار نکاتی فارمولہ کو یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ہندوستان صرف ایک نکاتی ایجنڈہ پر اس لئے بات کرنا چاہتا ہے تاکہ دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے۔ ہندوستان نے بھی 26/11 حملوں کے خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتا رہا ہے مگر نہ ہی پاکستان نے اور نہ ہی ہندوستان نے دونوں کے مطالبات کو پورا کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے ایسے میں کشیدگی اور مذاکرات کے تعطل کا شکار رہنا افسوسناک ہوتا ہے۔ آگے چل کر اسی طرح کے حالات کی اگر بھاری قیمت چکانی پڑے گی تو اس کیلئے دونوں ملکوں کے موجودہ برسراقتدار قائدین کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اقوام متحدہ میں وزیرخارجہ سشماسوراج کی جانب سے کی گئی تقریر کو شاندار قرار دیتے ہوئے وزیراعظم مودی نے ستائش کی ہے مگر یہ ستائش اور شاباشی اس وقت قابل تعریف ہوگی جب دونوں ملکوں کے درمیان دوستی کی راہیں کشادہ ہوں گی۔ اس کیلئے دونوں ملکوں کے قائدین کو لفاظی سے کام لینے کے بجائے ہمدردانہ اور حالات کے مشاہدہ کی خوبیوں کے مظاہرہ سے اس کی بحالی میں مدد ملے گی۔ دونوں ملکوں سے عوام ہمیشہ ایک دوسرے کے درمیان اچھے تعلقات کے متمنی رہے ہیں۔ تعلقات میں کشیدگی سے پیداوار اور ترقی میں رکاوٹ حائل ہوتی ہے۔