ہند ۔ پاک بات چیت کی برخواستگی

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صدکام نہنگ
جانے کیا گذرے ہے قطرے پہ گہرہونے تک
ہند ۔ پاک بات چیت کی برخواستگی
ہندوستان و پاکستان کے مابین مشیران قومی سلامتی کے مذاکرات کے تعلق سے جو اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے وہ بالآخر درست ثابت ہوگئے اور بات چیت منسوخ کردی گئی ۔ اکثر دیکھا گیا تھاکہ دونوں ملکوں کے مابین جب کبھی بات چیت کے امکانات پیدا ہوتے اس سے قبل کچھ نہ کچھ خیر سگالی کے جذبات کے مظاہرے ہوا کرتے تھے۔تاہم اس بار بات چیت بالکل پہلی مرتبہ قومی سلامتی کے مشیران کے مابین ہونے والی تھی اور شائد یہ بھی مرتبہ تھا کہ بات چیت سے قبل حالات میں بہت زیادہ کشیدگی پیدا ہوگئی تھی ۔ اس بار کی جو کشیدگی رہی تھی اس کی مثال پہلے کبھی نہیں مل سکتی ۔ سرحدات پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میںشدت پیدا ہوگئی تھی ۔ تقریبا ہر روز سرحدات پر فائرنگ کے واقعات پیش آ رہے تھے ۔ فائرنگ کے نتیجہ میںجانی و مالی نقصان بھی ہو رہا تھا ۔ سرحد کے قریب رہنے والے گاوں والوںمیں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ دونوں ملکوں کے ذمہ داران کے مابین بھی الزامات و جوابی الزامات کا سلسلہ چل رہا تھا ۔ ہندوستان کی جانب سے پاکستان پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوںکے الزامات عائد کئے اور جواب میں پاکستان بھی اس طرح کے الزامات عائد کرنے میںپیچھے رہنا نہیںچاہتا تھا ۔ غرض یہ کہ بات چیت سے قبل اعتماد کو بحال کرنے کے اقدامات کرنے کی بجائے حالات کوبگاڑنے پر زیادہ توجہ دکھائی دی اور یہ تاثر عام ہوتا جا رہا تھا کہ بات چیت کو غیر یقینی کیفیت کاشکار بنانے کیلئے ہر ممکنہ اقدامات کئے جائیں۔ذرائع ابلاغ میں یہ تاثر بھی عام ہوتا جا رہا تھا کہ بات چیت کے نام پربھی سیاست شروع ہوگئی ہے۔ روس کے شہر اوفا میں جب دونوںوزرائے اعظم نریندر مودی اور نواز شریف کی ملاقات ہوئی اور دونوں نے قومی سلامتی مشیران کے مابین بات چیت سے اتفاق کیا تھا اسی وقت سے دونوں ملکوںمیں بعض گوشوں کی جانب سے بات چیت کے احیاء اور تعطل کے خاتمہ کیلئے کئے جانے والے اقدامات کی مخالفت شروع ہوگئی تھی۔ پاکستان میں بعض گوشے ہندوستان کے ساتھ بات چیت کو بحال کرنے کی کوششوںکے مخالف تھے تو ہندوستان میں بھی کچھ گوشوں کی جانب سے مذاکرات کے احیاء کی شدت سے مخالفت کی گئی تھی۔
اب جبکہ بات چیت منسوخ ہوچکی ہے تو یہ کہاجاسکتا ہے مذاکرات کے مخالفین کے عزائم پورے ہوچکے ہیں۔ ساتھ ہی جن گوشوں میںبات چیت کے احیاء سے کچھ امیدیں بندھی تھیں وہ ختم ہوگئیں ۔ بات چیت کے منسوخ ہوجانے سے باہمی تعلقات میں کشیدگی کم ہونے کے آثار بھی ختم ہوگئے ہیں۔ جس طرح سے دونوں ملکوں کی جانب سے بات چیت سے قبل حالات کوگرم کیا گیا تھا اس سے قیاس بھی پیدا ہوتے ہیں کہ فریقین میںکوئی بھی خلوص کے ساتھ بات چیت کا خواہاں نہیں تھا ۔ یہ محض رسمی کوشش تھی جوحالات کی نذر ہوگئی ۔ یہ خیال بھی پیداہونے لگاہے کہ فریقین میںکوئی بھی بات چیت کیلئے تیار نہیں تھا اور کسی دباؤ کی وجہ سے یا بین الاقوامی برادری میں اپنا اپنا امیج بہتر بنانے کیلئے بات چیت سے اتفاق کیا گیا تھالیکن داخلی دباؤ کی وجہ سے ایسے اقدامات کئے گئے جن کے نتیجہ میں دونوں ہی ملکوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے خود کو بری الذمہ کرلینے کا موقع مل جائے ۔حالانکہ کوئی بھی فریق بات چیت کے اختتام کی ذمہ داری خود پر لینے کوتیار نہیں ہے لیکن کوئی بھی فریق اس ذمہ داری سے بچ بھی نہیں سکتا ۔ دونوںملکوں نے جوموقف اختیار کیا تھا وہ ایک دوسرے کیلئے قابل قبول نہیں رہا ۔ کسی بھی فریق نے بات چیت کو یقینی بنانے اپنے موقف میں نرمی پیدانہیں کی ۔ جہاں ہندوستان حریت قائدین سے سرتاج عزیز کی ملاقات اور بات چیت میں کشمیر مسئلہ کوشامل کرنے تیار نہیں تھا وہیں پاکستان ان دونوں باتوں پر بضد تھا ۔ دونوں بھی اپنے موقف میں کسی طرح کی نرمی پیدا کرنے تیار نہیں تھے ۔
بات چیت کے منسوخ ہوجانے سے ان گوشوں کے عزائم کی تکمیل ہوگئی جونہیںچاہتے تھے کہ بات چیت ہو اور تعلقات میں بہتری کے آثار پیدا ہوں۔ پاکستان کی جانب سے سرحدات پر فائرنگ اور جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کے واقعات میں اضافہ بھی اس کا ثبوت ہیں اور ہندوستان میںکچھ گوشے بھی اپنی بیان بازیوںسے ماحول کو پراگندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیںرکھنا چاہتے تھے ۔ بحیثیت مجموعی بات چیت کا التوامایوس کن صورتحال ہے ۔ اس کے نتیجہ میں دونوںکے مابین تعلقات کو بہتر بنانے فوری امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری نہ صرف دونوں ملکوں کیلئے بلکہ سارے جنوبی ایشیائی خطہ کیلئے بہتر تھی۔ دونوں ملکوں کی حکومتوں کواپنے اپنے ملکوں میں ایسے عناصرپر قابو پانے کی ضرورت ہے جو باہمی تعلقات میںبہتری کی راہ میںرکاوٹ پیدا کرتے ہیں۔ باہمی سطح پر اعتماد سازی کے اقدامات پر دونوںحکومتوںکو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔