کلدیپ نیر
یوم جمہوریہ کے موقع پر امریکی صدر بارک اوباما کی یقینی شرکت ہندوستان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور تیزی سے ترقی کی جانب گامزن معیشت کی دلیل ہے ۔ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کو کیا گیا ان کا فون کال اس بات کی دلیل ہے کہ وہ دوریاں ختم کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ واشنگٹن نے نئی دلی کو اس لئے منتخب کیا کہ وہ اسے اپنی ایڈوانس پالیسی اور پروگرامس کا حصہ تصور کرتا ہے۔ واشنگٹن ایک آزاد انٹرپرائز کی حمایت کرتا ہے اور وہ سرمایہ کاروں کی دنیا کی قیادت کرتا ہے ۔ اس کی پالیسی کا مقصد بڑے انٹرپرائزز کو فائدہ پہنچانا ہے اور دولت مندوں کو نوازنا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو واشنگٹن ایک ٹیلر میڈ پارٹنر تصور کرتا ہے ۔ صحیح بات تو یہ ہے کہ مودی کے مقابلے اوباما زیادہ لبرل دکھائی دیتے ہیں ۔ ان دونوں نے جب ہاتھ ملائے ہیں ، تو اس کے پیچھے کوئی معاشی وجہ نہیں ہے۔ حالانکہ ہندوستان امریکہ کو معاشی طور پر فائدہ پہنچاسکتا ہے کیونکہ امریکی صنعت مجبور ہے کہ وہ ہندوستان کا رخ کرے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ امریکہ ہندوستان کو اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر دیکھتا ہے اور وہ ہندوستان کو اپنے ملک میں تیار کردہ ہتھیار فروخت کرنا چاہتا ہے ۔ ہندوستان کی خواہش ہے کہ وہ اپنی فوج کو عصری ساز و سامان اور ہتھیاروں سے لیس کرسکے ۔ ہندوستان ترقی یافتہ ملٹری ٹکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتا ہے ۔ اور وہ اس بات کی بھی توقع رکھتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں امریکہ سے تعاون حاصل کرے ، جو مغرب کی نمائندگی کرتا ہے۔
نئی دہلی نے بوفورس سودے کے بعد 15000 کروڑ روپئے کی لاگت سے بندوقین خریدیں ، کیونکہ ہندوستان کو اس بات کا تیقن دیا گیا تھا کہ وہ مینوفیکچررس ہندوستان میں پلانٹ قائم کریں گے ۔ بیک وقت جبکہ ملک دو طرفہ حملہ کا سامنا کررہا ہے تو نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت دوول نے اس بات کا انتباہ دیا ہے کہ ملک کو کسی بھی حال میں ایسے وقت میں ہتھیاروں کی شدید ضرورت ہے چاہے وہ جس ذرائع سے بھی حاصل کئے جائیں ۔ خوش قسمتی کی بات ہے کہ روس آج بھی ہندوستان کا آزاد سپلائر ہے اور وہ مغرب سے ، اسلحہ کی خریدی میں کوئی مضائقہ تصور نہیں کرتا ہے جیسا کہ ماضی کے واقعات میں اس طرح کا عمل دیکھنے کو مل چکا ہے اور نئی دہلی نے اس سے استفادہ بھی کیا ہے ۔
بلاشبہ اوباما ہندوستانی جمہوریت کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مقصد ہندوستان اور پاکستان سے دوری بنائے رکھنا ہے ۔ جس انداز سے طالبان افغانستان میں اپنے پیر پھیلارہے ہیں ، اور کسی حد تک پاکستان میں بھی اپنی طاقت بڑھارہے ہیں ، اوباما اسے ناپسند کرتے ہیں ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ اسلام آباد یہ ضرور کہتا ہے کہ طالبان امریکہ کی پیداوار ہے لیکن اس سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی ہے کہ وہ طالبان پر حملہ کرنے کی پہل کرے گا وہ اس کے بڑھتے قدم روکنے کی کوشش کرے گا ۔ پاکستان کسی نہ کسی طرح طالبان کی مدد کرتا آرہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی نظروں میں اس کی شبیہ بہتر نہیں نظر آتی ہے ۔
حالانکہ امریکہ کی خواہش ہے کہ ہندوستان جیسا جمہوری ملک اگر طالبان کے خلاف لڑائی میں تعاون دے تو وہ اس کے لئے پہل کرسکتا ہے ۔ لیکن موجودہ وقت میں وہ اپنی فورسس اس علاقے میں تعینات نہیں کرنا چاہتاہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نے ویتنام جنگ میں جب شرکت کی تھی تو اس کا حشر کیا ہوا تھا ۔ اس علاقے کے انتہا پسند جہاد خدا کی جانب سے بھیجی گئی نصرت سے تعبیر کرتے ہیں اور مغربی ممالک کے خلاف جہاد کو ایک بہتر وسیلہ تصور کرتے ہیں ۔
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان بہتر رشتے کی توقع اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک یہ دونوں ایک دوسرے کے تئیں عدم اعتماد کی ذہنیت سے اوپر نہ اٹھ سکیں ۔ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان دوریاں بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔ فی الوقت دونوں ممالک کے درمیان جس طرح کے کشیدہ حالات ہیں وہ ہندوستان کی آزادی کے کم و بیش 70 برس بعد کبھی بھی نہیں دیکھے گئے تھے ۔ یہ بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ سارک چوٹی کانفرنس (کاٹھمنڈو) میں دونوں وزرائے اعظم نے ایک دوسرے سے دوریاں بنائی رکھیں ۔ اور جس انداز سے دونوں ممالک نے اس موقع پر اپنے اپنے برتاؤ اور رویے کا مظاہرہ کیا ہے ، اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ دونوں ممالک شک و شبہ اور عدم اعتماد کی فضا سے ابھی تک دور نہیں ہوئے ہیں ۔
مجھے اس وقت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بات یاد آرہی ہے کہ انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ کہا تھا کہ ’’ہم نے مسلمانوں کے لئے ایک ایسے ملک کے قیام میں کامیابی حاصل کی ہے جو مسلمانوں کے لئے ہے‘‘ ۔ اور دونوں ممالک امریکہ اور کناڈا کی طرح آپس میں مل جل کر رہیں گے حالانکہ انھوں نے دو ملک تھیوری کی وکالت کی تھی لیکن انھوں نے آزادی کے بعد کبھی بھی مذہب کو سیاست میں خلط ملط کرنے کی وکالت نہیں کی ۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد آبادی کی مہاجرت کو درست قرار نہیں دیا اور انھوں نے اس کی شدید مخالفت کی ۔ ہند وپاک کے درمیان دشمنی کے لئے صرف پاکستان پر الزام عائد کرنا قطعی درست نہیں ہوگا ۔ کانگریس نے تقسیم کے فارمولے کو منظور کیا حالانکہ گاندھی جی نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ تقسیم اگرہوگی تو ان کی نعش پر ہوگی ۔
یہ بات بھی درست ہے کہ قانون کی نظر میں مسلمان اور ہندو دونوں برابر ہیں ۔ لیکن سیول سرویسس اور خاص طور پر پولیس کی بالادستی نے اس ضمن میں کافی منفی رول ادا کیا ہے ۔ پولیس فورس یہ سمجھتی ہے کہ ہندوؤں کو یہاں برتری حاصل ہے اور ان کا کہا ہوا حرف آخر تصور کرنا چاہئے ۔
میں مسلمانوں کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن میں اتنا ضرور کہوں گا کہ مودی لہر نے ہندوتوا کو ضرور ہوادی ہے ۔ وہ اسے مسلمانوں کے لئے سخت ترین بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ آزاد خیال لوگ اس بات کو تسلیم کریں جب وہ مشورے کے لئے آر ایس ایس کی جانب قدم بڑھائیں ۔ ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اس بات کا اعلان کیا کہ 800 برسوں بعد ہندو راج لوٹ کر آیا ہے ۔ حالانکہ وہ یہ بات بھول گئے ہیں کہ ہندوستان میں اب تک ہندوؤں کی اکثریت کے باوجود دستور ہندکی بالادستی قائم رہی ہے اور دستور نے ہی ملک پر حکمرانی کی ہے ۔ میں یہ خواہش کرتا ہوں کہ ہندوؤں کی نئی نسل اس حقیقت کو سمجھے اور وہ اقلیتوں سے قریب ہونے کی کوشش کرے ۔ اسے چاہئے کہ روایتی خیالات و نظریات سے اوپر اٹھ کر مسلمانوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھائے ، یہی ملک کے حق میں ہوگا ۔