ظفر آغا
پاکستان دنیا کے ان چند بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے ، جو اپنے قیام کے بعد سے اب تک ترقی کے بجائے تنزلی کی طرف گامزن ہے ۔ قیام پاکستان کو قلیل مدت گزری تھی کہ اسکے بانی محمد علی جناح کا انتقال ہوگیا اور جناح کا یہ خواب کہ پاکستان ہندوستان کی طرح ایک جدید ترقی یافتہ ملک بن سکے ، کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا ۔ پھر پہلے جمہوری وزیراعظم لیاقت علی خان ایک عوامی جلسے میں بے نظیر بھٹو کی طرح گولی کا نشانہ بن گئے ۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان پر فوج کا سایہ اس طرح مسلط ہوا کہ وہ آج بھی پاکستان پر حاوی ہے ۔1970 کی دہائی میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش میں تبدیل ہوگیا ۔ جلد ہی جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو جیسے کرشماتی جمہوری لیڈر کو تختۂ دار پر چڑھا کر ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ۔ پھر جنرل ضیاء الحق نے پاکستان میں سیاست کی بنیاد ڈالی جو دہشت گردی کے بارود پر رکھی ہوئی تھی ۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان اب خود اس دہشت گردی کی زد میں ہے جس کو وہ محض اپنے پڑوسی ہندوستان اور افغانستان کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا ۔ افسوس یہ ہے کہ اس دہشت گردی نے بے نظیر بھٹو جیسی بے نظیر عوامی لیڈر کو بھی اپنا نشانہ بنایا ۔
الغرض ! پاکستان اپنے قیام سے اب تک لڑکھڑا رہا ہے اور اب اسکے عوام پاکستان کی اس بے راہ روی سے اوب چکے ہیں ۔ تب ہی تو حالیہ چناؤ میں گولی اور بارود کے خوف کا حصار توڑ کر کروڑوں کی تعداد میں عام پاکستانیوں نے ووٹ ڈالے ۔ حالیہ پاکستانی انتخابی نتائج نے کوئی بات طے کی ہو یا نہ طے کی ہو لیکن یہ بات یقیناً طے کردی کہ پاکستانی عوام پاکستان کے اندر چلنے والی دہشت گردی کے سخت خلاف ہیں ۔ وہ امن چاہتے ہیں اور دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ دوسری بات جو پاکستانی انتخابی نتائج سے واضح ہے وہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ ملک کی فوج اقتدار سے الگ بیرک میں محدود رہے اور ملک میں جمہوریت کا سکہ چلتا رہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ پاکستانی عوام بجلی ، پانی ، سڑک اور روزمرہ کی مہنگائی سے بھی پریشان ، ایک ترقی یافتہ زندگی گزارنے کے لئے بے چین ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی جمہوریت کے نئے دولہا میاں نواز شریف پاکستانی عوام کی امیدوں پر کھرے اتریں گے ۔
جیسا راقم نے عرض کیا کہ اب تک پاکستانی تاریخ ناکامیوں اور ناامیدیوں کی تاریخ رہی ہے ۔ اس پس منظر میں میاں نواز شریف کی راہ کوئی آسان نہیں ہے ۔ آئے دن کے خودکش دہشت گرد حملے ، بڑھتی مہنگائی و بے روزگاری اور ملک کی بدترین معاشی حالت ۔ بجلی اور پانی جیسی سہولیات کی مشکلات ، پھر فوج کا ہر وقت منڈلاتا سایہ اور ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے دیرینہ پیچیدہ مسائل ۔ یہ تمام وہ مشکلات ہیں جن سے نواز شریف کو جوجھنا ہے اور یقیناً ان تمام مسائل کا حل نکال پانا خود نواز شریف جیسے تین بار وزیراعظم رہے تجربہ کار سیاستداں کے لئے بھی آسان نہ ہوگا ۔ لیکن چار مسائل ایسے ہیں جن سے نواز شریف کو جلد ہی جوجھنا ہی پڑے گا اور جلد ہی ان فرنٹ پر عوام کو راحت دینی ہوگی ۔ پہلا مسئلہ دہشت گردی کا ہے یہ وہ خطرہ ہے جو اب ہر عام پاکستانی کے گھر پر دستک دے رہا ہے ۔ کبھی اس مسئلہ سے کراچی جل اٹھتا ہے تو کبھی خیبر پختونخواہ اسکا شکار ہوتا ہے اور بے گناہ پاکستانی اس سے پریشان عدم تحفظ کی زندگی گزارتے ہیں ۔ کیا نواز شریف دہشت گردی پر قابو پاسکیں گے یا نہیں ۔
اس بات سے اب انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں دو قسم کے دہشت گرد ہیں ۔ ایک گروہ ان دہشت گردوں کا ہے جو حافظ سعید جیسوں کی قیادت میں پاکستانی فوج کے زیر سایہ پنپ رہا ہے اور دوسرا گروہ اب فوج سے ناراض ہو کر پاکستانی طالبان کی شکل میں خود پاکستان کے لئے عذاب بن گیا ہے ۔ اسلئے ان گروہوں پر قابو پانا آسان نہیں ہے ۔ لیکن نواز شریف پاکستان میں پنجابی نظام کی نمائندگی کرتے ہیں جسکی گرفت دہشت گرد گروہوں اور خود پاکستان پر بھی گہری ہے ۔ اسلئے ہماری ناقص رائے میں نواز شریف پاکستان کے اندر چل رہی دہشت گردی پر خاصی حد تک لگام لگانے میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ یہ بات دیگر ہے کہ کراچی جیسے غیر پنجابی اور مہاجر آبادی والے علاقوں میں ابھی بھی دہشت گردی کا بازار گرم رہ سکتا ہے ۔ لیکن وہ دہشت گرد گروہ جو ہندوستان کے خلاف فوج کی گرفت میں ہیں ان پر نواز صاحب کی کتنی گرفت رہے گی یہ کہنا بھی ابھی ذرا مشکل ہے ۔ دوسری بات جس کی طرف نواز شریف کو فوراً دھیان دینا ہے وہ ہے پاکستان کی معاشی اور بجلی و پانی جیسے روزمرہ کے مسائل کا حل تلاش کرنا ۔ یہ بھی کٹھن ڈگر ہے ۔ نواز صاحب کو اس سلسلے میں باہری امداد درکار ہوگی ۔ تین دروازے ہیں جن کا دروازہ نواز شریف صاحب کو کھٹکھٹانا پڑے گا ۔ وہ تین دروازے ہیں امریکہ ، چین اور سعودی عرب ۔ میری رائے میں نواز شریف کے رشتے ان تینوں جگہوں پر درست ہیں اور خاص طور سے نواز شریف سعودی عرب کے چہیتے ہیں اس لئے وہ پاکستان کے لئے سعودی امداد لانے میں پوری طرح کامیاب رہیں گے ۔ ساتھ ہی امریکہ اور چین سے بھی میاں صاحب کو بڑی دشواری نہیں پیش آنی چاہئے ۔ نواز شریف کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو نہیں ہے کہ وہ راتوں رات ملک کے تمام معاشی مسائل حل کردیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ انکے دور میں پاکستانی عوام کو معاشی مسائل کے فرنٹ پر بھی کچھ راحت پہونچے گی ۔ (اب پیچھے دو اہم مسائل اور ہیں ، وہ ہیں فوج اور ہندوستان کے ساتھ میاں صاحب کے رشتے ۔ ان کو میاں صاحب کیسے ڈیل کرتے ہیں اب یہ دیکھنا ہے) ۔ نواز شریف کو مشرف صاحب نے فوج کی مدد سے اقتدار سے نکال کر نہ صرف باہر پھینکا تھا بلکہ ان کو جیل بھی بھیجا تھا ۔ اسلئے انکے رشتے فوج سے تلخ ہیں مگر اب وہ یہ کہہ کر اس میں مشرف کا ہاتھ تھا فوج کا نہیں ، فوج سے رشتے بہتر کرنا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ اب فوج کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ جب چاہے اپنی بیرک سے نکل کر اقتدار پر قابو کرلے اسلئے فوج کو کم از کم نواز کے شروعاتی دور میں انکی سننی ہوگی ۔ ادھر ہندوستان تو پاکستان سے اچھے رشتوں کا خواہاں ہے ہی ۔ اگر میاں صاحب (جنہوں نے ہندوستان کے ساتھ بہتر رشتوں کی داغ بیل ڈالی تھی) اس سلسلے میں ایک قدم اٹھاتے ہیں تو ہندوستان دو قدم اٹھانے کو راضی ہوگا ۔اگر میاں صاحب یہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو وہ یقیناً ہند و پاک رشتوں کی ایک نئی تاریخ رقم کردیں گے ۔ لیکن اس سلسلے میں فوج ان کو کتنی اجازت دیتی ہے یہ ابھی ایک غور طلب مسئلہ ہے لیکن میاں صاحب کے اقتدار میں آنے سے ہند و پاک رشتوں میں بہتری کے امکان یقیناً واضح ہوئے ہیں ۔
الغرض ! میاں نواز شریف پاکستان کی تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر وزیراعظم بننے جارہے ہیں ، جب پاکستان کو اپنے ماضی سے نکل کر ایک تابناک مستقبل کی طرف قدم بڑھانا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک کے لئے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ لیکن تاریخ نے میاں نواز شریف کے ہاتھوں میں یہ کام اب سونپ دیا ہے ۔ دیکھیں میاں صاحب پاکستانی تاریخ کو ایک تابناک موڑ دے پاتے ہیں یا نہیں ؟ اب فیصلہ تو تاریخ ہی کرے گی کہ وہ اپنے مشن میں کتنے کامیاب ہوئے ۔ لیکن ہماری نیک خواہشات انکے ساتھ ضرور ہیں کیونکہ ہم ایک تابناک پاکستان کے حق میں ہیں ۔