ہند میں دعوت و تبلیغ کی ضرورت

ڈاکٹر محمد سراج الرحمن نقشبندی
آج رب کائنات کی بنائی ہوئی زمین پر مسلمان نہایت تکلیف دہ حالات سے دو چار ہیں۔ کہیں دشمنانِ اسلام مقاماتِ مقدسہ (بیت المقدس) پر قابض ہیں تو کہیں امت مسلمہ کی نسل کشی کی جا رہی ہے، کہیں مسلمانوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کو لوٹا جا رہا ہے تو کہیں مسلم رہنماؤں کو اسلام دشمن طاقتیں اپنا آلۂ کار بناکر مساجد کو مسمار کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد مقامات پر ظالم حکمراں مسلط ہوکر ہماری معیشت کو منظم انداز میں تباہ اور ہم پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ آج کے یہ حالات ہر صاحب ایمان کو خون کے آنسو رُلا رہے ہیں۔ یہ تمام حالات راست یا بالواسطہ اللہ کی طرف سے ہیں، لیکن امت مسلمہ ان حالات کو تنبیہ یا سزا نہیں سمجھ رہی ہے۔ وہ اپنے فرض منصبی کی طرف (یعنی جس کی ذمہ داری دے کر رب العالمین نے اس کو اپنا خلیفہ بناکر بھیجا اور جس دعوت دین حق کی عظیم ذمہ داری اس کے کندھوں پر رکھی) سے روگردانی کر رہی ہے، جب کہ رب العالمین نے دعوت کا کام انجام دینے پر اعلیٰ ترین انعامات اور اکرامات کی بارش کا وعدہ فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے محفوظ رکھے گا اور دعوتِ الی اللہ کے لئے محنت کرنے والوں کی مدد فرمائے گا۔ واضح رہے کہ دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں کے دِلوں میں صرف اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور جس شخص کے ہاتھ پر ایک شخص نے اسلام قبول کرلیا، اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ اس کے علاوہ دعوتِ الی اللہ کے کام کا اجر روئے زمین پر کئے جانے والے تمام اعمال میں افضل ترین ہے، جہاد فی سبیل اللہ میں ایک ہزار دشمنانِ اسلام سے تنہا مقابلہ سے افضل ہے اور راہِ خدا میں سو سرخ اونٹوں کی قربانی سے زیادہ عظیم ہے۔
رب ذوالجلال کی طرف سے اس عظیم کام کے عوض دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ملنے کے باوجود ہم اس دعوت کے کام کو اہمیت نہیں دے رہے ہیں، جب کہ موجودہ دَور میں دعوتی کام کے لئے ماحول بہت سازگار ہے، کیونکہ سکون کی متلاشی و بھٹکی ہوئی انسانیت دین حق قبول کرنے کے لئے بے چین و بے قرار ہے۔ پھر بھی ہم دعوتِ دین کے کام سے غفلت برت رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہم دنیاوی آفات اور مرعوبیت کا شکار بن رہے ہیں۔ اس نبوی مشن اور کامیابی و کامرانی کے انمول راستے کو ترک کرکے ہم نصرتِ الہی سے محروم ہیں، تاہم اس تازیانۂ عبرت اور اللہ کی مدد سے محرومی کو ہم نے مصیبتِ الہی نہیں سمجھا، اس علت کو غفلت کی سزا نہیں سمجھا اور نہ ہی ہم اپنے بہکے ہوئے قدم کو درست کرنے کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ہماری ہر تدبیر ناکام اور ہر کوشش رائیگاں ہو رہی ہے۔

دنیا بالخصوص برادرانِ وطن میں دعوتِ دین حق اور تعارف اسلام کی محنت و سعی نا کے برابر ہے۔ اب تو ہماری یہ کیفیت ہے کہ شمع اسلام کو بجھتا ہوا دیکھ کر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مصائب و آلام کے حل کے لئے آج ساری دنیا کی مساجد کے ائمہ و خطباء، یہاں تک کہ حرمین شریفین اور مقدس راتوں میں دعائیں کی جا رہی ہیں، اس کے باوجود رب العالمین ہماری دعائیں نہیں سن رہا ہے۔ صورتِ حال یہ ہے کہ دعائیں مانگنے اور مدد طلب کئے جانے کے باوجود مسلمانوں کے حالات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں۔ ان حالات کا حقیقی سبب واضح ہے کہ ہم نے بحیثیت امت محمدیہ دعوتِ دین کے کام سے منہ موڑ لیا ہے، یعنی جس کام کی طرف اس امت کو پوری یکسوئی کے ساتھ متوجہ ہونا ضروری تھا، اس سے پہلو تہی نے دعاؤں کو نامقبول اور نصرتِ الہی سے ہمیں محروم کردیا ہے۔

حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے آپﷺ کے چہرۂ انور کو پُر تفکر محسوس کیا کہ کوئی بات پیش آئی ہے۔ چنانچہ آپﷺ نے وضوء فرمایا اور کسی سے گفتگو نہیں کی۔ پھر میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کے لئے حجرہ سے لگ گئی۔ آپﷺ نے منبر پر بیٹھ کر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کی اور فرمایا ’’اللہ تعالیٰ تم سے فرماتا ہے نیکی کا حکم کرتے رہو اور بُرائی سے روکتے رہو، اس سے پہلے کہ تم دعا کرو اور میں تمہاری دعا قبول نہ کروں اور تم مانگو میں عطا نہ فرماؤں اور تم مدد چاہو اور میں تمہاری مدد نہ کروں‘‘۔ اس سے زیادہ آپﷺ نے کچھ نہیں فرمایا اور منبر سے اُتر گئے۔ (ابن حبان، کتاب البر والاحسان)
دعوت و تبلیغ کے کام کو قرآن مجید میں ’’دعوتِ الی اللہ‘‘ کہا گیا ہے، جس کی ادائیگی میں صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ اور بزرگان دین پیش پیش رہے، جس کے ثمر آور نتائج سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں اور جب تک امت مسلمہ یہ فریضہ انجام دیتی رہی، باوقار زندگی اس کے حصے میں رہی۔ یہ فرض منصبی دراصل انسان کے رشتے کو خالق و مالک سے جوڑنا ہے، بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ راست پر لانا اور اس کے اندر سوئی ہوئی روح کو جگانا ہے۔ دعوتِ الی اللہ ایک خالص اُخروی نوعیت کا کام ہے، جس کا قومی، اقتصادی یا سیاسی معاملات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔

دعوتِ الی اللہ کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں سارے انسانوں کی خیر خواہی اور محبت و ہمدردی کا جذبہ ہو، آپ انسانیت کے حقیقی خیر خواہ بن کر اُبھریں۔ دعوت و تبلیغ کی جو ذمہ داری امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے، اختیاری عمل نہیں ہے کہ خواہ اس کو کرے یا چھوڑ دے، بلکہ یہ ایک ایسی ذمہ داری ہے جسے ہر حال میں ادا کرنا ہے۔ امت کا اس معاملے میں کوئی عذر قابل قبول نہیں ہوگا، حتی کہ بظاہر دوسرے دینی اعمال بھی امت کی نجات کے لئے کافی نہیں ہوسکتے، اگر وہ دعوت دین حق کے فرض منصبی کو چھوڑے ہوئے ہے۔
حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہم کو واضح پیشین گوئی ملتی ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام کرنے کے لئے برصغیر میں ایک مخصوص گروہ اُٹھے گا، جس کو عصابۃ کہا جائے گا، یعنی یہ گروہ دعوتی جدوجہد کرے گا (نسائی، باب غزوۃ الہند) یہ مخصوص گروہ ہند میں دعوتی کام کرے گا اور لوگوں کو جنت کا راستہ دکھائے گا اور یہی وہ دعوتی کام ہے، جس کے ذریعہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ابدی رحمت کے سائے میں آئیں گے۔ یہ گروہ عذاب جہنم سے محفوظ رہے گا، جنت کے دروازے اس کے لئے کھول دیئے جائیں گے اور رب العالمین کی ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
ہندوستان میں شرک اب بھی زندہ شکل میں موجود ہے، کیونکہ یہاں دعوت کا کام مطلوب شکل میں نہیں کیا جاسکا۔ ایسی حالت میں امت مسلمہ پر لازم ہے کہ دعوت الی اللہ کی مہم کو آگے بڑھائے اور دل و جان سے تبلیغ و اشاعت کے کام میں جٹ جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ توحید و رسالت کے اس مشن کو عام کرنے کی توفیق نصیب فرمائے اور اس جنتی گروہ (عصابۃ) میں ہمیں شامل فرمائے، جس کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا و آخرت کی کامیابی کی بشارت دی ہے۔ آمین بجاہ طٰہٰ و یٰسٓ۔