ہند۔ متحدہ عرب امارات دوستی کا نیا دور

محمد ریاض احمد
ابوظہبی کے ولیعہد اور متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر صاحب السمو الشیخ محمد بن زائد النہیان کا تین روزہ تاریخی دورہ ہندوستان اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس دورہ نے ہندوستان کو نہ صرف متحدہ عرب امارات بلکہ دوسرے عرب ملکوں کے قریب بھی کردیا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہندوستان عرب ملکوں کی ایک ضرورت ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں جس کا تعاون و اشتراک بہت ضروری سمجھا جاتا ہے جواب میں عرب ملکوں سے بھیجی جانے والی خطیر رقومات ہندوستان کے بیرون زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اس کے استحکام اور معاشی نمو کا باعث بنتی ہیں۔

جی سی سی ملکوں میں برسر خدمت ہندوستانی تارکین وطن سالانہ 40 ارب ڈالرس اپنے ملک روانہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ صرف سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور سلطنت عمان سے ہندوستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں سالانہ 40 ارب ڈالرس کا اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ سال جی سی سی ملکوں سے ہندوستان کو 35.9 ارب ڈالرس روانہ کئے گئے سب سے زیادہ رقم متحدہ عرب امارات میں مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے  ہندوستانی تارکین وطن روانہ کرتے ہیں۔ جی سی سی سے روانہ کی جانے والی رقم کا 38.7 فیصد حصہ یو اے ای سے بھیجا جاتا ہے۔ 28.2 فیصد حصہ کے ساتھ سعودی عرب دوسرے نمبر پر ہے۔ کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے بھی عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کو کافی اہمیت دی۔ پنڈت جواہر لال نہرو کے دور وزارت عظمی سے ہی عربوں سے دوستی، اسرائیل کے مقابل فلسطینیوں کی تائید و حمایت ہندوستانی حکومتوں کی پالیسی رہی لیکن 90 کے دہے میں پی وی نرسمہا راؤ کی زیر قیادت کانگریس حکومت نے ہندوستان کی اس عظیم پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل سے دوستانہ اور سفارتی تعلقات قائم کرلئے۔ نتیجہ میں عالم عرب میں ہندوستان کے کٹر حریف  وپڑوسی پاکستان کی اہمیت بڑھ گئی۔ عربوں نے اس کی ہر مرحلہ پر جی کھول کر مدد کی۔ جہاں تک ہندوستان اور اسرائیل کی قربت کا سوال ہے دونوں ملکوں نے مختلف شعبوں میں بے شمار معاہدات کئے ہیں لیکن آج بھی باہمی تجارت 5 ارب ڈالرس تک ہی پہنچ پائی ہے۔ اس کے برعکس صرف متحدہ عرب امارات اور ہندوستان کی باہمی تجارت سالانہ 59 ارب ڈالرس تک پہنچ گئی ہے اور امید ہے کہ 2020 تک باہمی تجارت کے اس حجم میں 60 فیصد کا اضافہ ہوگا۔ نریندر مودی حکومت کو یہ جان لینا چاہئے کہ وہ اسرائیل سے صرف عام تباہی کے ہتھیار اور تباہی و بربادی لانے والی ٹکنالوجی حاصل کرسکتی ہے اور اس کے لئے اسے بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے لیکن عرب ملکوں سے ہمیں عام تباہی کے ہتھیار نہیں بلکہ روٹی اور روزگار ملتا ہے۔ اگر ہم صرف اپنے دوست ملک متحدہ عرب امارات میں برسر کار ہندوستانی تارکین وطن کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں تقریباً25 لاکھ ہندوستانی خدمات انجام دے رہے ہیں جن کی کمائی یا آمدنی ہندوستان میں لاکھوں خاندانوں کی خوشحالی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ جہاں تک وزیر اعظم نریندر مودی کی جی سی سی ملکوں سے قربت اور ان ملکوں سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے سے متعلق ان کی کوششوں کا معاملہ ہے ہندوستانی مسلمانوں میں ان کی شبیہہ ہنوز ایک مسلم دشمن لیڈر کے طور پر بنی ہوئی ہے۔  ایک ایسے وزیر اعظم کے طور پر جس نے ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں مختلف تہذیبوں کی نمائندگی کرنے والا لباس وغیرہ تو زیب تن کرنا گوارا کیا لیکن اپنے سرپر مسلمانوں کا تاج (ٹوپی) نہیں سجائی، وزرائے اعظم کی جانب سے رمضان المبارک میں دعوت افطار کا اہتمام کیا جاتا رہا لیکن عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے بعد مودی جی نے اعلیٰ ظرفی اور پرامن بقائے باہم کی اس روایت کو بھی ختم کرڈالا۔

ہاں انہوں نے تجارتی نقطہ نظر سے جی سی سی ملکوں کے ساتھ دوستی بڑھانے کو ترجیح دی۔ نتیجہ میں عرب ملکوں نے بھی مودی کی دوستی کا جواب دوستی کی شکل میں دیا۔ حکومت سعودی عرب نے تو مودی کو مملکت سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ ترین شہری اعزاز کنگ عبدالعزیز ایوارڈ عطا کیا جو ہندوستان اور ہندوستانیوں کے تئیں سعودی حکومت کے جذبہ احترام کی روشن مثال ہے۔ مملکت قطر ۔ متحدہ عرب امارات کی حکومتوں نے بھی مودی جی کی عزت افزائی اور مہمان نوازی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ بہرحال ہندوستان کی 68 ویں یوم جمہوریہ تقریب میں ابوظہبی کے ولیعہد اور یو اے ای کے ڈپٹی سپریم کمانڈر صاحب السمو الشیخ محمد بن زائد النہیان کو بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کرتے ہوئے مودی نے عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی سمت عطا کی ہے۔ آپ کو بتادیں کہ زائد از 2.5 ملین ہندوستانی متحدہ عرب امارات کے سات امارات ابوظہبی، دوبئی، شارجہ، عمان، فجیرہ راس الخیمہ اور ام القوئین پر مشتمل وفاق میں مقیم ہیں۔

1971ء میں شیخ محمد بن زائد النہیان کے والد شیخ زائد بن سلطان النہیان کی قیادت میں اس وفاق کی تشکیل سے قبل ہی ہندوستانی وہاں تجارت اور بینکنگ کے شعبہ میں چھائے ہوئے تھے۔ ہندوستان روپیہ کو کرنسی کی حیثیت حاصل تھی اور ہندوستانی پوسٹل اسٹمپ استعمال ہوا کرتے تھے۔ آج متحدہ عرب امارات میں ہندوستانی، نہ صرف جواہرات (سونے چاندی ہیرے موتی) کے کاروبار بلکہ تعمیری ساز و سامان، ہیوی، و لائٹ مشنریز تفریح وطبع، تعلیم، پارچہ جات، تیار ملبوسات، نگہداشت صحت، انفرا اسٹرکچر، ریئل اسٹیٹ، اور انفارمیشن ٹکنالوجی جیسے اہم شعبوں میں چھائے ہوئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں زندگی کے ہر شعبہ میں ہندوستانیوں کی اہمیت کا اندازہ اس محاورہ ’’یو اے ای کی زمین کی کھدائی پر پٹرول سے زیادہ ہندوستانی نکلتے ہیں‘‘ سے لگایا جاسکتا ہے۔ ہندوستانیوں کے لئے اچھی بات یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکمراں اور عوام ہندوستانی تارکین وطن ورکروں اور مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین کی دیانت اپنے کام کے تئیں ان کی وفاداری امن پسندی اور جذبہ محنت کے متعارف ہیں۔ مودی حکومت نے یوم جمہوریہ تقریب میں شیخ محمد بن زائد النہیان کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو کرتے ہوئے نفع بخش سودا کیا ہے کیونکہ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں میں وہ ہندوستانی موقف کی تائید و حمایت کرتا ہے۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے یو اے ای ہندوستانی امیدواروں کی تائید کرے گا۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات ہندوستان کے لئے مغربی اشیاء کا گیٹ وے بھی ہے۔ اس کے علاوہ یو اے ای میں 60 ہزار ہندوستانی کمپنیاں کام کرتی ہیں۔ 1947ء میں آزاد ہوئے ہندوستان اور 1971ء میں ایک وفاق بنے متحدہ عرب امارات کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ 1820-1971 برطانوی حکمرانی میں رہے اس ملک کو سجانے اور سنوارنے میں ہندوستانیوں کا ناقابل فراموش رول ہے۔ 1970اور 80 کے دہوں میں ہندوستانی تارکین وطن کی ایک کثیر تعداد نے یو اے ای کا رخ کیا۔ 1972 میں نئی دہلی میں یو اے ای کا سفارتخانہ قائم کیا گیا اور 1973ء میں ممبئی میں یو اے ای کے قونصل خانہ کا قیام عمل میں آیا۔

1975 ء میں شیخ محمد بن زائد کے والد شیخ زائد بن سلطان النہیان نے ہندوستان کا دورہ کیا جواب میں 1976 میں اس وقت کے صدر جمہوریہ فخر الدین علی احمد نے یو اے ای کا دورہ کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مستحکم بنانے کا اشارہ دیا تھا۔ شیخ زائد نے 1983ء اور 1992ء میں بھی ہندوستان کا دورہ کیا جس سے متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں اور عوام میں ہندوستانیوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ شیخ زائد کو یو اے ای کا بابائے قوم مانا جاتا ہے اور انہوں نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ تجارتی و دیگر شعبوں میں بہتر سے بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہند۔ یو اے ای تعلقات 4000 سال قدیم ہیں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ شیخ محمد بن زائد النہیان یوم جمہوریہ تقریب میں پہلے عرب مہمان خصوصی نہیں بلکہ اس سے قبل 2006 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز السعود نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرکے فخریہ انداز میں ہندوستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دیا تھا ویسے بھی مودی حکومت نے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے مقصد سے عرب ملکوں سے تعلقات بڑھانے کی جو سعی کی ہے موجودہ عالمی تناظر میں اسے قابل ستائش ہی کہا جاسکتا ہے۔ اگست 2015ء میں مودی نے قطر اور یو اے ای کا تاریخی دورہ کیا تھا اس دورہ میں حکومت ابوظہبی نے مندر کی تعمیر کے لئے اراضی الاٹ کی تھی جس کا ہندوستان میں غیر معمولی خیرمقدم کیا گیا۔ شیخ محمد بن زائد النہیان کے دورہ میں دونوں ملکوں کے درمیان دفاع، تجارت، توانائی، انفراسٹرکچر، سیکوریٹی اور سرمایہ کاری جیسے شعبوں میں تعاون و اشتراک کے علاوہ انسانی اسمگلنگ، منشیات کی اسمگلنگ اور انسداد دہشت گردی سے متعلق 14 معاہدات طے پائے۔ مودی جی اور ابوظہبی کے ولیعہد نے جعلی کرنسی کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے بھی معاہدات کئے۔ دہشت گردی اور انہیں سرکاری طور پر فروغ دینے والوں کے خلاف بھی شیخ محمد اور نریندر مودی کے خیالات میں یکسانیت پائی گئی ہے۔ اس دورہ میں امید تھی کہ یواے ای ۔ انڈیا انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ فنڈ سے 75 ارب ڈالرس (تقریباً 5 لاکھ کروڑ روپے) کا سرمایہ مشغول کرنے کا جو اعلان کیا گیا تھا اس پر کوئی معاہدہ طے پائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود یہ دورہ ہر لحاظ سے ہندوستان اور یو اے ای کے تعلقات کو ایک نئی جہت اور نئی بلندی عطا کرے گا اور باہمی تعلقات دونوں ملکوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں گے۔
mriyaz2002@yahoo.com