ہند۔ سعودی باہمی تعلقات میں حج امور کی اہمیت و افادیت

عامر علی خاں
ہندوستان کے دنیا کے تقریبا کئی مسلم اور اسلامی ممالک سے انتہائی قریبی تعلقات رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہندوستان نے ان ممالک سے تعلقات کو کافی اہمیت دی ہے اور ان کو آگے بڑھانے میں ہمیشہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے تاہم جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے اس سے ہندوستان اور خاص طور پر ہندوستان کے مسلمانوں کا روحانی رشتہ ہے ۔ یہاں حرمین شریفین کی موجودگی اور ان سے مسلمانوں کی اٹوٹ وابستگی نے اس ملک کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو کافی اہمیت عطا کی ہے ۔ جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے اس نے بھی ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ ان کو آگے بڑھانے میں سعودی عرب کی حکومت نے بھی مسلسل کام کیا ہے ۔ موجودہ حکومتوں کے درمیان بھی تعلقات انتہائی خوشگوار اور گرمجوشانہ بھی کہے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ رہی ہے کہ سعودی فرمانروا شاہ سلمان نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی کو سعودی عرب مدعو کرکے اپنا اعلی ترین سیویلین ایوارڈ بھی عطا کیا تھا ۔ دونوں ملکوں کے تعلقات کی نوعیت ہمہ جہتی ہے ۔ کئی شعبہ جات ایسے ہیں جن میں دونوں ممالک بہتر تال میل کے ساتھ کام کرتے ہیں اور ان تعلقات میں استحکام پیدا ہوتا جارہا ہے تاہم حج تعلقات کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اور ان سے دیگر امور بھی جڑتے جا رہے ہیں۔
ہندوستانی عازمین کو سعودی عرب میں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ان کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ ہوتا ہے ۔ ہندوستانیوں کیلئے جو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں حالانکہ وہ دوسرے ممالک سے آنے والے عازمین کیلئے بھی ہوتی ہیں لیکن ہندوستان کو کچھ اعزاز بھی حاصل ہیں جن کے ذریعہ ہندوستانی حج مشن کے ذریعہ عازمین کی خدمات کو بہتر طور پر انجام دینے میں مدد ملتی ہے ۔ ہندوستان کو اپنے طور پر وہاں عارضی دواخانے قائم کرنے کی سہولت فراہم کی گئی ہے ۔ ہندوستان سے جو عازمین ہر سال حج کیلئے جاتے ہیں ان کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ درج کیا جا رہا ہے ۔ حج 2019 کیلئے 2.47 لاکھ افراد نے درخواستیں پیش کی ہیں۔ عازمین حج کی تعداد میں جو اضافہ ہے اس کو دیکھتے ہوئے سعودی حکام کی جانب سے سہولیات کی فراہمی میں بھی ترجیح دی جاتی ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے بعض موقعوں پر کچھ ممالک کے ویزوں کی تعداد میں تخفیف کی گئی تو اس کا کچھ حصہ ہندوستان کو بھی الاٹ کیا گیا تھا اس سے بھی ہندوستان کو دی جانے والی اہمیت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ ہندوستانی عازمین کیلئے ایام حج کے دوران مناسک حج کے تقریبا ہر مقام پر اپنے طور پر دواخانے قائم کرنے اور عازمین کو ضرورت کے وقت ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کیلئے جو اجازت دی گئی ہے وہ بھی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے اور اس سے بھی عازمین کو کافی سہولت اور اطمینان ملتا ہے ۔ یہ سہولت جو ہندوستانی عازمین حج کیلئے دستیاب ہے وہ شائد کسی دوسرے ملک کے باشندوں کو دستیاب نہیں ہے حالانکہ ان ممالک سے بھی خاطر خواہ تعداد میں عازمین ،حج کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب آتے ہیں۔
ہندوستان نے سعودی عرب تک سفر حج کیلئے بحری راستوں کو بھی بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ یہ فیصلہ بھی آئندہ وقتوں میں عازمین حج کی تعداد میں اضافہ کا موجب بن سکتا ہے ۔ سفر حج کیلئے جو فضائی کرایہ مقرر کیا جاتا ہے وہ انتہائی زیادہ ہے ۔ معمول کے کرایوں سے بہت زیادہ رقومات عازمین حج سے وصول کی جاتی ہے ۔ اب بحری سفر کو بحال کرنے کی جو تجویز ہے اس کے ذریعہ سفر حج کو کم سے کم کرنے پر توجہ دینے کا ادعا کیا جا رہا ہے ۔ فی الحال عازمین حج سے 80 ہزار روپئے تک فضائی کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ اگر بحری سفر بحال ہوجائے تو یہ کرایہ گھٹ کر 20 ہزار روپئے کے آس پاس ہوجائیگا اور جو مڈل کلاس مسلمان ہیں وہ بھی حج کیلئے آگے آسکتے ہیں اور انہیں بھی یہ سعادت مل سکتی ہے ۔ سعودی عرب نے بھی ہندوستان کی اس تجویز کو قبول کرلیا ہے اور اس سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی عرب ہندوستان کے ساتھ حج کے تعلقات کو مستحکم رکھنے ہی کو ترجیح دیتا ہے اور ممکنہ حد تک سہولیات کی فراہمی کیلئے وہ ہمیشہ تیار رہتا ہے ۔ جب ہندوستان سے مختلف ریاستوں کے عہدیدار عمارتوں کے انتخاب کیلئے سعودی عرب کا دورہ کرتے ہیں انہیں پوری سہولت فراہم کرتے ہوئے عمارتوں کے انتخاب میں بھی سعودی حکام کی جانب سے مدد فراہم کی جاتی ہے ۔
ہندوستانیوں کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہر سال ہندوستان سے ایک اعلی سطح کا وفد سعودی فرمانروا کی دعوت پر سعادت حج حاصل کرنے سعودی عرب کا دورہ کرتا ہے ۔ حالانکہ کئی ممالک کے وفود کو شاہ سعودی عرب کی جانب سے خیرسگالی وفد کی شکل میں مدعو کیا جاتا ہے لیکن یہ تمام ممالک اسلامی یا مسلم ممالک ہیں۔ ہندوستان ایک سکیولر ملک ہونے کے باوجود یہاں سے ایک خیرسگالی وفد سعودی عرب کو مدعو کیا جاتا ہے اور ہندوستان سے بھی بلا ناغہ پوری پابندی کے ساتھ یہ وفد سعودی عرب روانہ کیا جاتا ہے ۔ یہ ہندوستان کیلئے اعزاز کی بات کہی جاسکتی ہے ۔ اسی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حرمین شریفین میں جو خادمین ہیں ان کے انتخاب میں بھی ہندوستان کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ حالانکہ حرمین شریفین میں خدمات کی ذمہ داری ایک بڑی کمپنی کی ہے تاہم اس کی جانب سے بھی حکومتوں کے تعلقات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہندوستانیوں کو یہ موقع بھی ضرور فراہم کیا جاتا ہے ۔ وہاں جو خوش قسمت خدمات انجام دیتے ہیں ان میںہندوستانیوں ‘ پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی تعداد خاطر خواہ ہوتی ہے اور ان میں بھی ہندوستانیوں کیلئے خاصی گنجائش ہوتی ہے ۔ یہ بھی ہندوستانیوں کیلئے ایک اعزاز ہے کہ اس کے باشندوں کو حرمین شریفین میں خدمت کے موقع سے سرفراز کیا جاتا ہے ۔ کئی ممالک کے باشندے ایسے ہیں جو یہ خدمت سرانجام دینا چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ اعزاز حاصل نہیں ہوتا ۔
ہندوستان اور سعودی عرب کی جانب سے باہمی تعلقات کو آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ حج امور میں مسلسل اشتراک پر خاص توجہ دی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ حج انتظامات میں ہر سال مسلسل بہتری پیدا ہوتی جا رہی ہے ۔ جو سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں وہ مثالی بھی کہی جاسکتی ہیں۔ عازمین کی سہولت کا خاص خیال رکھا جا رہا ہے ۔ وہاں عازمین کی جو رہائش ہوتی ہے اس کی گوگل میاپنگ کی سہولت شروع کردی گئی ہے تاکہ عازمین کو راستے بھولنے پر بھی زیادہ مشکلات پیش نہ آئیں اور دوسرے ان کی بآسانی مدد کرسکیں۔ حج سے متعلق بیشتر امور کو دونوں ہی ممالک میں ڈیجیٹل کرتے ہوئے آن لائین پیش کردیا گیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کسی طرح کی الجھن پیدا نہیں ہوپاتی اور عازمین جب چاہیں بآسانی ساری معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ جہاں تک ویزا فیس کا سوال ہے یہ دوسرے ممالک کی بہ نسبت ہندوستانی عازمین سے بہت معمولی حاصل کی جاتی ہے ۔ عمرہ ویزے تو حکومت سعودی عرب کی جانب سے مفت جاری کئے جاتے ہیں تاہم یہ چند مخصوص کمپنیوں کو جاری ہوتے ہیں اور یہ کمپنیاں صرف معمولی اخراجات کے ذریعہ ویزے اسٹامپ کرواتی ہیں۔ ان کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ عازمین کی واپسی کو بھی یقینی بنائیں۔ دیگر ممالک کے عازمین سے جو فیس حاصل کی جاتی ہے وہ ہندوستان کی بہ نسبت قدرے زیادہ ہوتی ہے ۔ اب جو ایک سے زائد مرتبہ سفر حج یا عمرہ کرنے والوں پر اضافی فیس عائد کی جا رہی ہے وہ صرف سعودی عرب کا مسئلہ نہیں رہا ہے بلکہ سارے خلیج کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے زائرین پر اضافی فیس عائد کی گئی ہے ۔
بحیثیت مجموعی ہندوستان و سعودی عرب کے تعلقات انتہائی مستحکم ہیں۔ ہندوستان کیلئے سعودی عرب چوتھا بڑا تجارتی شراکت دار ہے ۔ وہ ہندوستان کو 34.49 ملین ٹن تیل فراہم کرتا ہے ۔ ہندوستان کی تیل و توانائی کی ضروریات کا بڑا حصہ اس سے پورا ہوتا ہے ۔ دونوں ملکوں کی حکومتیں باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے میں کوئی کسر باقی رکھنا نہیں چاہتیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کو عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ امید کی جاسکتی ہے کہ مستقبل میں بھی یہ تعلقات نہ صرف اسی طرح جاری رہیں گے بلکہ ان میں مزید استحکام آئیگا ۔ ہندوستانی عازمین کو مستقبل میں مزید بہتر اور موثر سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔