ہند۔امریکہ تعلقات کی نئی جہتیں مودی کا کامیاب دورہ

غضنفر علی خان

وزیراعظم نریندر مودی کا حالیہ دورہ امریکہ بے حد کامیاب رہا ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اور ان کے انتظامیہ نے دل کھول کر وزیراعظم کی ہر ہر مرحلہ پر پذیرائی کی ، ان کے خیرمقدم کیلئے سرخ قالین بچھایا گیا ۔ صدر امریکہ کی سرکاری رہائش گاہ پر ڈنر میں ٹرمپ کے علاوہ ان کی اہلیہ نے جو امریکہ کی پہلی خاتون ہیں ، بھی شرکت کی ۔ اس کے علاوہ ان کی بیٹی اور ان کے داماد بھی موجود تھے ۔ نائب صدر امریکہ اور موجو دہ امریکی کابینہ کے سب ہی وزراء کی موجودگی نے اس ڈنر کو خاص اہمیت دی۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ امریکی صدر نے اچھے میزبان ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے مسٹر مودی کو ’’اپنا دوست‘‘ قرار دیا۔ غرض ہر ہر مرحلہ پر وزیراعظم مودی کا گرمجوشی سے خیرمقدم ہوا جو معاہدات طئے ہوئے ان کی بھی خاص اہمیت ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان ٹکنالوجی بحریہ کے تعاون ، دفاع اور خلائی امور کے معاملات میں بھی قریبی اور مضبوط رشتہ قائم ہوا ۔ اب یہ اور بات ہے کہ ان روابط ، ان معاہدات پر عمل کتنا ہوتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ اور ہندوستان دنیا کی دو بڑی اور مستحکم جمہوریتیں ہیں۔ دونوں ممالک میں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں۔ اس طرح سے دونوں کے درمیان ایک خاص تعلق بھی ہے ۔ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کبھی بھی کشیدہ نہیں رہے اور دور ایسا ہونے کی معقول وجوہات بھی ہیں۔ ماضی میں ہماری خارجی پالیسی میں سابقہ سویت روس کی جانب ہمارا جھکاؤ تھا جبکہ امریکہ اور روس دونوں میں سرد جنگ جاری تھی ۔ جغرافیائی اعتبار سے روس ہمارے قریب ہے جبکہ امریکہ اتنی ہی دور ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کس طرح امریکہ ایک ملک کی حیثیت سے اور ڈونالڈ ٹرمپ اس کے صدر کی حیثیت سے اس نئی امریکہ اور ہندوستان میں ہونے والی مفاہمت کو کس طرح استحکام و اہمیت دیتے ہیں ۔ یہ بات اس لئے بھی کہی جارہی ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی متلون مزاجی اور جلد بازی کی وجہ خود امریکہ میں بھی ایک حد تک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔

وہ امریکہ کے پہلے صدر ہیں جو پہلی مرتبہ عملی سیاست میں اترے ہیں۔ ان کے تجربات اور مشاہدات زیادہ عمیق نہیں ہیں، اس کے باوجود ہندوستان کے تعلق سے وہ نرم گوشہ ضرور رکھتے ہیں۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں گرچہ سوالات کا جواب دینے سے وزیراعظم مودی نے گریز کیا لیکن یہ کہنے میں کوئی تکلف نہیں کیا کہ امریکہ ہندوستان کا Primary Partner ہے۔ ایک طرح سے امریکہ کے سیاسی حلقوں میں ان کے اس اظہار خیال کا نہایت مثبت اثر ہوا ہے جو آگے چل کر دو طرفہ تعلقات کو نئی جہتیں دے گا ۔ دونوں ممالک کے سربراہوں نے دہشت گردی کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف لڑنے کے عزم کا بھی اظہار کیا ۔ مشترکہ اعلامیہ میں چین ، پاکستان اور جنوبی کوریا کا بطور خاص ذکر کیا گیا ۔ پاکستان کے تعلق سے بھی دونوں لیڈروں میں یہ رائے تھی کہ اس ملک کی سرزمین کو پڑوسی ممالک میں دہشت گردی پھیلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اعلامیہ میں دونوں نے پا کستان پر زور دیا کہ وہ پاکستانی علاقہ سے دہشت گرد حملوں کا قلع قمع کردیں لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت اور خاص طور پر نواز شریف کی حکومت دہشت پسندوں کو احکام دے سکتی ہے ۔ اگر یہ ممکن تھا تو بہت پہلے انتہا پسند عناصر اور تنظیمیں پاکستان میں کسی طرح پنپ نہیں پاتیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت اس قدر کارکرد اور موثر نہیں کہ وہ انتہا پسند طاقتوں کا خاتمہ کرسکے، پھر بھی ہندوستان اور امر یکہ نے اپنے طور پر پا کستان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنے علاقوں سے دہشت گردی کو مکمل طور پر روک دے۔ ہندوستان کو اس وقت ایک اور زبردست کامیابی ہوئی جبکہ امریکہ نے پاکستان کی عسکریت پسند تنظیم جیش محمد، لشکر طیبہ کو دہشت گردہ قرار دیتے ہوئے ان پر امتناع عائد کرنے کا مطالبہ کیا ۔ دہشت گردی کے مسئلہ پر مشترکہ بیان میں اسلامی دہشت پسندی کی اصطلاح بھی استعمال کی گئی ہے جو امریکی میڈیا کی ایجاد ہے ۔ بہرحال اگر امریکہ اور ہندوستان عالمی دہشت پسندی کے خلاف کوئی بھی مشترکہ کارروائی کرتے ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں تو دہشت گردی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل ہوسکتی ہے ۔ پاکستان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہندو۔ امریکی مشترکہ بیان میں پڑوسی ملک پاکستان کو دہشت پسندی کی پرورش کرنے والا ملک قرار دیا گیا ہے تو یہ پاکستان کیلئے شرمناک بات ہے ، یہ الزام نہیں ہے بلکہ ایک سچائی ہے کہ پاکستان خود اس دہشت گردی کا شکار بن گیا ہے ۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ دہشت پسندی پاکستان میں ایک رواج یا ایک طریقہ بن گیا ہے ۔ پٹھان کوٹ اور ممبئی حملوں نے تو راز افشاں کر دیئے ہیں ۔ مشترکہ بیان میں ان حملوں کے مجرموں کو گرفتار کرنے کا بھی پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے ۔ ایک بات قابل غور ہے یہ ہے کہ کیا چین سے جو ہمارا پڑوسی ملک ہے ،ہمارے تعلقات معمول پر ہیں، ہند۔چین دوستی کو اب برائے نام کی چیز بن کر رہ گئی ہے ۔ ہماری ریاست ہماچل پردیش میں چین کی مسلسل دراندازی اور ہمارے علاقوں پر اس کا دعویٰ کتنا غلط ہے یہ امریکہ بھی جانتا ہے۔ جتنی دوستی نما دشمنی چین سے ہندوستان کی ہے اتنی ہی دوستی اور قربت چین اور پاکستان کے درمیان ہے بلکہ اس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ چین سے ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں جس کا اظہار کرتے ہوئے بھی ہم محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ پاکستان اور چین ہمارے پڑوس ہیں اور دونوں سے ہمارے تعلقات غیر یقینی ہیں ۔ امریکہ سے ہماری قربت قابل تعریف ہے لیکن چین سے ہماری دوریاں ہمارے لئے خطرناک بات ہے ۔ خاص طور پر اس لئے بھی پاکستان اور چین کی دوستی میں ا ضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اگر وزیراعظم مودی نے چین کا سیاسی دورہ کیا ہوتا اور اسی طرح وہاں بھی سرخ قالین بچھاکر ان کا خیرمقدم کیا گیا ہوتا ، اگر چین بھی وزیراعظم کو اپنا دوست قرار دیا ہوتا اور وزیراعظم کی زبان سے سرزمین چین پر یہ الفاظ ادا ہوتے کہ چین ہمارا Primary Partner ہے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ چین ہماری خارجہ پالیسی میں خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس پر جتنی توجہ کی جائے کم ہے ۔ وزیراعظم مودی اگر چین کا ایسا ہی کامیاب دورہ کر تے تو ملک کے لئے بہتر ہوتا۔ امریکہ سے قربت قابل تعریف بات ہے لیکن چین کے تعلق سے ہماری غفلت ختم ہونی چاہئے تاکہ ہماری سرحدیں محفوظ رہ سکیں۔