’ہندو پاکستان‘

محمد ریاض احمد
ہندوستان میں بی جے پی کی فرقہ وارانہ پالیسی کو لے کر اکثر سیاسی قائدین، دانشوروں، ماہرین تعلیم، ادیب و شعراء کے علاوہ حقوق انسانی کے جہدکاروں میں برہمی اور مایوسی کی لہر پائی جاتی ہے۔ ان کی برہمی اور مایوسی اس لئے بھی حق بجانب ہے کہ پچھلے چار برسوں کے دوران مودی حکومت میں باتیں زیادہ کام کم ہوا ہے۔ فرقہ پرستوں کو اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں تشدد برپا کرتے ہوئے قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والوں کے خلاف نفاذ قانون کی ایجنسیاں بشمول پولیس کارروائی کرنے سے گریز کررہی ہے۔ اس کے برخلاف ہجومی تشدد یا Lynching کا شکار بننے والے مسلمانوں کے خلاف مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ اگر ناانصافی کا یہی سلسلہ جاری رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہمارے وطن عزیز میں بھی پاکستان جیسی دھماکو صورتحال پیدا ہوگی۔ آج پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ مذہبی شدت پسندی کے فروغ کا نتیجہ ہے۔ وہاں دہشت گردانہ واقعات میں سو دو سو نہیں بلکہ پچھلے 17 برسوں کے دوران 70 ہزار لوگ مارے گئے اور اس سے کہیں گنا زیادہ تعداد میں پاکستانی باشندے زخمی ہوئے ہیں جن میں ہزاروں ایسے ہیں جو مستقل طور پر معذور ہوچکے ہیں۔ہندوستان میں بھی ہندو مذہبی شدت پسندی 4 برسوں کے دوران کافی بڑھ گئی ہے۔ بی جے پی اور اس کے سرپرست آر ایس ایس کی ذیلی تنظیمیں اپنے آپے سے باہر ہوگئی ہیں۔ وہ جانوروں (تحفظ گائے) کے نام پر انسانوں پر قاتلانہ حملے کررہے ہیں۔ بے قصور لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار رہے ہیں۔ لو جہاد کے نام پر فسادات برپا کررہے ہیں۔ ملک کے کچھ مقامات پر مسلم لڑکیوں اور عیسائی راہباؤں کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔ غرض ہندوستان کی موجودہ صورتحال کچھ ایسی ہوگئی کہ ہندوتوا کے نام پر دہشت مچائے رکھنے والے غنڈوں پر مودی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال اور اُس پر مودی حکومت کی مجرمانہ خاموشی کے بارے میں حقوق انسانی کے ممتاز جہدکار رام پنیانی نے بہت اچھا ریمارک کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ صورتحال ایمرجنسی کی صورتحال سے کہیں زیادہ اڈلف ہٹلر کے آئیڈیالوجی میں یکسانیت نظر آتی ہے۔ یعنی ملک کی موجودہ صورتحال اور ہٹلر کی پالیسیوں و نظریات میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ رام پنیانی کے اس ریمارک میں دَم اس لئے بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کا ان کے مخالفین نے متعدد مرتبہ اڈولف ہٹلر سے تقابل کیا ہے۔ رام پنیانی کی طرح کانگریس قائدین بھی ملک کی موجودہ صورتحال سے ناخوش ہیں۔ ان کے خیال میں مودی کی پالیسیاں ہندوستان جیسے کثرت میں وحدت اور پرامن بقائے باہم میں پختہ یقین رکھنے والے ملک کے لئے تباہ کن ہے۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ اور سابق سفارتکار ششی تھرور کا دعویٰ ہے کہ اگر 2019 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوتا ہے تو اقلیتوں کے حقوق پامال کردیئے جائیں گے اور ہندوستان ایک ہندو پاکستان میں تبدیل ہوجائے گا۔

ششی تھرور کے اس حقیقت پر مبنی تبصرہ پر بی جے پی حلقوں میں ہلچل مچ گئی وہ تلملاکر رہ گئے۔ بی جے پی قائدین نے ششی تھرور کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے لئے صدر کانگریس راہول گاندھی سے معذرت خواہی کا مطالبہ کردیا۔ ششی تھرور نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آگے بڑھتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ 2019 ء میں دوبارہ اقتدار ملنے پر بی جے پی ایک نیا دستور مرتب کرکے ہندوستان کو کم روادار بنائے گی۔ ششی تھرور کہتے ہیں کہ اگر لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی 2014 ء کی اپنی کامیابی کو دہراتی ہے تو ہمارے دستوری اداروں کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوجائے گا وہ باقی نہیں رہیں گے۔ وہ لوگ دستور کی دھجیاں اُڑادیں گے اور ایک نیا دستور لکھا جائے گا جس میں ہندو راشٹرا یا ہندو ملک کے اُصول ہوں گے۔ بی جے پی والے اقلیتوں کو حاصل حق مساوات برخواست کردیں گے جس سے ایک ہندو پاکستان کی تخلیق ہوگی جو مہاتما گاندھی، نہرو، سردار پٹیل، مولانا آزاد اور جدوجہد آزادی کے عظیم مجاہدین کے ہندوستان کے منافی ہوگا۔ ششی تھرور کے ان ریمارکس پر بی جے پی قائدین تلملا اُٹھے ہیں۔ پارٹی ترجمان سمبت پاترا نے تو حد کردی انھوں نے ششی تھرور سے معذرت خواہی کا مطالبہ کرنے کے بجائے صدر کانگریس راہول گاندھی سے معذرت خواہی کرنے کی مانگ کرڈالی۔ پاترا کے بموجب تخلیق پاکستان کے لئے کانگریس ذمہ دار ہے کیوں کہ وہ اپنے عزائم کی تکمیل چاہتی تھی۔ ایک بار پھر کانگریس نے ہندوستان کو ذلیل و خوار کیا اور ملک کے ہندوؤں کو بدنام کیا۔ اپنے عجیب و غریب بیانات کے لئے موضوع مذاق بنے رہنے والے بی جے پی لیڈر سبرامنیم سوامی نے اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ششی تھرو کی ذہنی حالت پر شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔ اس سلسلہ میں انھوں نے مودی جی کی مدد طلب کی ہے حالانکہ مودی جی کو اپنے ہی پارٹی میں ایسے کئی ارکان پارلیمان، ارکان اسمبلی اور قائدین کا سامنا ہے جن کے بیانات سننے پڑھنے اور انھیں گفتگو کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد ان لوگوں کی ذہنی حالت پر شک ہوتا ہے۔ بعض کو اپنے انداز بیان، نقل و حرکت، اشاروں کنایوں وغیرہ سے کسی بھی طرح ایک مستحکم ذہنی حالت کے حامل دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے باوجود سبرامنیم سوامی کا خیال ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کو یہ ضرور دیکھنا چاہئے کہ کانگریس لیڈر ششی تھرور کو کہیں طبی امداد کی ضرورت تو نہیں۔ سبرامنیم سوامی نے ششی تھرور کو پاکستان کا دوست تک قرار دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ تھرور کی کئی پاکستانی محبوبائیں ہیں۔ دراصل وہ آئی ایس آئی کے لئے کام کرنے والی خواتین ہیں۔ مسٹر ششی تھرور عالمی سطح پر بھی اپنی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ اُنھوں نے اُمور خارجہ سے متعلق پارلیمانی اسٹانڈنگ کمیٹی کے صدرنشین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ بی جے پی قائدین ششی تھرور پر لاکھ تنقیدیں کرلیں ، سچ یہ ہے کہ فی الوقت ہندوستان میں ہندوتوا طاقتیں کھلے عام قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہے، دستور کو پامال کیا جارہا ہے ۔ حکمراں پارٹی کے قائدین یہاں تک کہ مرکزی وزراء دستور میں تبدیلیوں کی باتیں کر رہے ہیں۔ یکساں سیول کوڈ نافذ کرنے کی کوششوں کے ذریعہ ہندو راشٹر کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔
mriyaz2002@yahoo.com