ظفر آغا
ہندوپاکستان میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ چونکئے مت، کیونکہ کرناٹک میں جس انداز میں جمہویت کا قتل آپ دیکھ رہے ہیں وہ ہندوستان نہیں ، پاکستان کی روایت رہی ہے۔ پاکستانی فوج کو اگر ذوالفقار علی بھٹو جیسے شاندار لیڈر کو راستے سے ہٹانے کی ضرورت پڑی تو عدلیہ کے ذریعے بھٹو کو پھانسی دلوا دی گئی۔ اگر بے نظیر آنکھوں میں کھٹکنے لگ گئیں تو ان کوکسی دہشت گرد سے گولی مروا دی گئی۔ حد تو سنہ 1970 میں ہوئی جب اس وقت کے مشرقی پاکستان کے لیڈر مجیب الرحمن کو پاکستان میں اکثریت حاصل ہو گئی تو فوج نے وہاں لاکھوں لوگوں کو قید کروا دیا۔ الغرض فوجی نظام کو جب جو ٹھیک لگا اس نے آئین کا استعمال قانون و ضوابط کی طرح نہیں بلکہ اپنی مرضی کے مطابق کیا۔
اب ذرا کرناٹک پر نگاہ ڈالئے۔ وہاں گزشتہ ہفتہ جو کچھ ہوا کیا وہ کچھ ویسا ہی نہیں جو کچھ پاکستان میں ہوتا آ رہا ہے! چناؤ ہوئے، کسی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملی۔ بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ٹھہری، لیکن نتائج آنے کے بعد کانگریس اور جے ڈی (ایس) نے مل کر اکثریت بنا لی اور حکومت بنانے کا دعوی کیا۔ گورنر صاحب نے تمام آئینی اصولوں اور رسموں کو بالائے طاق رکھ کر بی جے پی کے یدی یورپا کو وزیر اعلیٰ کا حلف دلوا دیا۔ اور غور کیجئے جیسے بھٹو پاکستا ن میں مارے گئے ویسے ہی یہاں جب جج لویا نے بی جے پی صدر امت شاہ کے خلاف چل رہے مقدمے میں سخت رویہ اپنایا تو جج لویا راتوں رات مشتبہ حالات میں مرے پائے گئے۔ کچھ برس قبل سنہ 2002 میں جب نریندر مودی کو ’ہندو ہرے سمراٹ ‘ بننے کی ضرورت پڑی تو گجرات میں مسلم نسل کشی ہو گئی۔ کل کو جب 2019 میں نریندر مودی کو وزیر اعظم بننے کی ضرورت پڑے گی تو کیا گارنٹی ہے کہ ہندوستان دوسرا گجرات نہیں بن جائے گا!
کیا کرناٹک میں پاکستان جیسے حالا ت نہیں نظر آنے لگے کہ یہاں ملک آئین کی رو سے نہیں فوجی نظام کی مرضی سے چلتا ہے۔کرناٹک میں مودی شاہ اور سنگھ کی یہ مرضی تھی کہ وہاں بی جے پی کی حکومت بنے تو بس گورنر صاحب نے آئین کی پرواہ کئے بغیر بی جے پی کو حکومت پر بیٹھا دیا۔ یعنی گورنر گورنر نہیں بلکہ مداری کے رول میں آگیا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ آخر سنگھ اور بی جے پی ہندوستان کی صدیوں پرانی جمہوری روایت کو کچلنے پر کیوں آمادہ ہے! اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ سنگھ اور بی جے پی کو ایک جمہوری ہندوستان نہیں بلکہ ہندو راشٹر چاہئے۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان میں فوجی نظام کو ایک کٹر اسلامی پاکستان درکار ہے۔ اور سنگھ کے اس ایجنڈے کے لئے کرناٹک میں بی جے پی حکومت قائم ہونی ضروری تھی خواہ وہ آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑاکر ہی کیوں نہ قائم ہو۔
بی جے پی اور سنگھ کے لئے سنہ 2019 میں مودی کی واپسی ضروری ہے۔ اگر مودی پھر وزیر اعظم نہیں بنتے تو ہندو راشٹرا کا ایجنڈہ پھر ٹل جائے گا۔ مودی کو اقتدار میں واپس لانے کے لئے اگلے سال ہونے والے پارلیمانی چناؤ سے قبل تمام ریاستوں میں ہونے والے چناؤ میں بی جے پی کی جیت لازمی ہے۔ کرناٹک میں اسی لئے دھاندلی ہوئی تاکہ اس سال مدھیہ پر دیش، راجستھا ن اور چھتیس گڑھ میں جو ریاستی چناؤ ہونے ہیں وہاں بی جے پی کے لئے فضا ہموار ہو جائے۔ پھر وہاں کرناٹک کی طرح کسی بھی صورت میں اپنی حکومتیں بنا کر 2019 کا لو ک سبھا چناؤ جیت کر مودی کو وزیر اعظم بنا دیا جائے۔ مقصد یہ ہے کہ بار ملک کو ہندو راشٹر بنا دیا جائے۔
اب آپ کی سمجھ میں آیا کہ نہیں کہ مودی کا ہندوستان فوجی پاکستان جیسا کیوں نظر آرہا ہے۔ بات یہ کہ دونوں ممالک میں مذہب کے نام پر سیاست ہو رہی ہے۔ ایک جگہ ملک ’اسلام‘ کے جھوٹے نعرے پر چل رہا ہے تو دوسری جگہ دھرم کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اگر ایک طرف سپاہ صحابہ ہے تو دوسری جانب ہندو سینا ہے۔ اگر ادھر جہادی ہیں تو ادھر گئو رکشک ہیں۔ ہندوستان اس قدر پاکستان سے ملتا جلتا نظر آئے گا یہ گاندھی اور نہرو جیسے قائدین آزادی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا۔
مگر گھبرایئے مت ! ہندوستان اور پاکستان میں ایک فرق ابھی بھی باقی ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ اس ملک میں جواہر لال نہرو، مولانا آزاد اور امبیڈکر جیسے لیڈر گزرے ہیں جنہوں نے سیکو لر اورجدید ہندوستان کی جڑیں قائم کی ہیں اور وہ جڑیں ابھی بھی قائم ہیں۔ اسی لئے کرناٹک میں بھی لڑائی جاری ہے اور باقی ہندوستان میں بھی اس لڑائی کی تیاری شروع ہو چکی ہے۔ جمہوری طاقتوںاور سیکولر اپوزیشن کو یہ سمجھ میں آچکا ہے کہ سنگھ کے خلاف جنگ سب مل کر ہی لڑ سکتے ہیں۔ تب ہی تو کرناٹک میں چناؤ ختم ہوتے ہی کانگریس اور جے ڈی ایس ایک ہو گئے اور یہ ایسے نہیں ہوا۔ سونیا گاندھی سے لے کر ممتا بنرجی اور مایاوتی تک نے فون کر کے دیوے گوڑا کو سمجھایا کہ مسئلہ محض کرناٹک کا نہیں بلکہ دیش کو ہندو راشٹر ہونے سے بچانے کا ہے۔ یہ بات دیوے گوڑا کی سمجھ میں آگئی اور بس بی جے پی کا کرناٹک کھیل بگڑ گیا۔لیکن وہ کرناٹک ہو یا باقی ہندوستان، جمہوری اور سیکولر طاقتیوں کے لئے راستہ کوئی آسان نہیں ہے۔ سنگھ اس ملک کو ہندو پاکستان بنا نے پر بضد ہے۔ وہ ملک ہی نہیں بلکہ پورے نظام میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے۔ اس لئے اس ملک میں سنگھ کے خلاف کم از کم ایک بار تو جنگ ہوگی۔ اور اس جنگ کو جیتنے کے لئے تمام سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو ایک پرچم تلے وہی کرنا پڑے گا جیسے کرناٹک میں یہ طاقتیں نتائج کی پرواہ کے بنا ایک ہو ئیں۔
بھلے ہی ہندوستان بھی ایک ہندو پاکستان نظر آنے لگا ہو لیکن گھبرائیے مت، امید ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ آخر یہ گاندھی اور نہرو کا ہندوستان ہے محمد علی جناح کا پاکستان نہیں!