ہندوؤں کو 8 ریاستوں میں اقلیتی موقف دینے کی بات

غضنفر علی خان
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کی غالب اکثریت ہندو دھرم کے ماننے والوں پر مشتمل ہے۔ موجودہ مودی حکومت اور حکمراں بی جے پی تو ہندوستان کو ہندو مملکت قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔ اصل بات تو یہ ہے کہ مودی حکومت، بی جے پی، آر ایس ایس اور ہندوتوا کی حامی سیاسی طاقتیں ملک و قوم کو درپیش سنگین اور سلگتے ہوئے مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے ہر وقت غیر اہم اور غیر متعلقہ مسائل کا کوئی نہ کوئی بھوت کھڑا کرکے ملک کی اکثریت کو خوفزدہ کررہی ہے تاکہ اس دھرم کو ماننے والے صرف اس سنگھ پریوار ہی کو اقتدار سونپیں جو نہ کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہوسکتا ہے۔ بی جے پی حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی معاشی، صنعتی، خارجہ پالیسی داخلی صیانت جیسے محاذوں پر ہار چکی ہے۔ رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ اس لئے زور پکڑ رہا ہے کہ اب اکثریتی طبقہ کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے بی جے پی کے لئے عوام کو اپنا ہمنوا یا موافق بنانے کے لئے کچھ نہیں رہا۔ ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بابری مسجد، رام جنم بھومی ایودھیا مندر کی تعمیر کا مسئلہ بھی چونکہ ربع صدی سے چل رہا ہے اس لئے عوام کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ یہ مسئلہ اُٹھاکر اگر بی جے پی یا سنگھ پریوار یہ سمجھتا ہے کہ وہ انتخابات جیت جائے گا تو یہ اس کی نادانی ہوگی۔ رام مندر کی تعمیر کا مسئلہ ہو یا ملک کی آزادی کی جدوجہد میں بھرپور حصہ لینے والے سردار ولبھ بھائی پٹیل کے 142 ویں سالگرہ کی بات ، کانگریس پارٹی پر الزام لگانے کی گھسی پٹی کہانی ہو، قومی گیت گانے کا لزوم ہو، لو جہاد کے نام پر خاص طور پر کیرالا کی ریاست اور وہاں کی بائیں بازو کی حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش ہو۔ بھلا ان مسائل پر عوام کیوں توجہ دیں گے

اور کیوں ان کے بار بار ذکر کرنے سے متاثر ہوں گے۔ انھیں تو اس وقت کچھ اور ہی مسائل کا سامنا ہے۔ عوام گڈس اینڈ سرویس ٹیکس (جی ایس ٹی) اور گزشتہ 8 نومبر کو نوٹ بندی کے اس فیصلہ کی چٹان کے نیچے دب کر رہ گئے ہیں جو یکا و تنہا وزیراعظم نے کیا تھا۔ عوام کو اسپتالوں میں مرنے والے ان کے معصوم بچوں کی اموات کا غم کھائے جارہا ہے۔ ایسے میں قومی گیت کے وقت جب گایا جارہا ہو انھیں احتراماً کھڑے ہوجانا چاہئے یا نہیں، کی بحث کس طرح متاثر کرسکتی ہے۔ بی جے پی سخت پریشان ہے کہ جی ایس ٹی کے مضرت رساں اثرات، نوٹ بندی کے غلط فیصلہ سے عوام پر مرتب ہونے والے اثرات کو کیسے دور کیا جاسکتا ہے۔ کچھ نہیں سوجھی تو مودی حکومت نے یہ بے فیض بحث چھیڑ دی کہ کانگریس پارٹی نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی خدمات کو فراموش کردیا ہے۔ اس مسئلہ پر دو باتیں اہم ہیں کیا جنگ آزادی میں بشمول پنڈت نہرو، مولانا آزاد ان کے بعد کی پیڑی میں سابق وزیراعظم آنجہانی اندرا گاندھی کے رول کو بلکہ پارٹی کے سارے دور حکومت کو بدنام کرنے اور اپنی ہر ناکامی کا سہرا کانگریس کے سر باندھنے سے سنگھ پریوار کبھی کہیں کوئی کثر چھوڑی ہے۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ کیا آج جس قومی آزادی اور جس جمہوریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے اپنا سیاسی قد بڑھا لیا ہے، سنگھ پریوار نے اُس میں کبھی کوئی حصہ ادا کیا تھا۔ جنگ آزادی میں تو سابقہ جن سنگھ یا موجودہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا تاریخ میں کہیں ذکر تک نہیں ملتا۔ آج کس منہ سے مودی حکومت یہ دعویٰ کررہی ہے کہ وہ کانگریس پارٹی سے مکت (آزاد) بھارت بنائے گی۔ بی جے پی اپنے برانڈ کی وطن دوستی اور قوم پرستی میں تو کھرا سکّہ اور دیگر پارٹیوں کی ملک دوستی یا قوم پرستی کو کھوٹہ سکّہ آخر کس بنیاد پر قرار دیتی ہے۔ عوامی مفاد کی قانونی گنجائش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک درخواست بی جے پی کے ترجمان اشونی کمار ادھوپائے نے سپریم کورٹ میں داخل کی ہے کہ ان آٹھ ریاستوں میں جہاں ہندو دھرم کے ماننے والے اقلیت میں ہیں وہاں انھیں اقلیت قرار دیتے ہوئے ان کے لئے تحفظات فراہم کئے جائیں اور سپریم کورٹ سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی جانب سے مرکزی حکومت سے کہے کہ اس سلسلہ میں حکمنامہ یا نوٹیفکیشن جاری کرے۔ مرکزی حکومت نے 23 اکٹوبر 1993 ء میں ایک حکمنامہ کے ذریعہ مسلمانوں، عیسائیوں، بدھسٹ، پارسی اور سکھوں کے لئے تحفظات فراہم کئے تھے۔ درخواست گذار کا کہنا ہے کہ میزورم، لکشدیپ، میگھالیہ، ناگا لینڈ، جموں و کشمیر، منی پور، اروناچل پردیش حد یہ کہ ریاست پنجاب میں بھی ہندو اقلیت میں ہے اس لئے انھیں ریزرویشن ملنے چاہئے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں ایسا کیا جانا چاہئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ دستور ہند میں اقلیتوں کے لئے (خواہ وہ کسی بھی عقیدہ سے تعلق رکھتے ہوں) معاشی تعلیمی اور زندگی کے دیگر شعبوں میں ریزرویشن مل سکتے ہیں۔ ٹھیک اس دستوری گنجائش کے مطابق ملک کی ان ریاستوں میں مسلمانوں کو بھی تحفظات ملنے چاہئیں جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔ بی جے پی کا یہ دوہرا معیار ناقابل فہم ہے۔ جس طرح ان 8 ریاستوں میں ہندوؤں کو ریزرویشن دینے کی بات کہی جارہی ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ قباحت وہاں پیدا ہوتی ہے جب مسلمانوں کو یہی سہولت دینے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے جس کی بہترین مثال خود ہماری ریاست تلنگانہ ہے جہاں کی ٹی آر ایس حکومت اور اس کے سربراہ چندرشیکھر راؤ نے مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات دینے کا اعلان کیا تو نہ صرف ریاستی بی جے پی کے قائدین بلکہ اس پارٹی کے قومی قائدین نے بیان بازی شروع کردی کہ مذہب کی بنیاد پر تحفظات نہیں دیئے جاسکتے۔ یہ بھی بی جے پی کا دوہرا پن ہے۔ اگر ریزرویشن مذہبی اساس پر نہیں دیئے جاسکتے تو پھر یہی بات ان 8 ریاستوں کے ہندوؤں پر بھی صادق آتی ہے جہاں اکثریتی طبقہ کے لوگ اتفاقاً اقلیت میں ہیں۔ دستور کی روح یہ ہے کہ اس میں بنائے گئے تمام اصولوں کا اطلاق ملک کی تمام ریاستوں پر ہوتا ہے۔ مسلم طبقہ کو اس بات پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ ہندوؤں کو ان کے عددی موقف کی بنیاد پر جہاں جہاں گنجائش ہو ریزرویشن دیئے جائیں۔ اعتراض کی بات یہ ہے کہ کیوں ریاست تلنگانہ میں مسلم طبقہ کو تحفظات فراہم کرنے پر بی جے پی کی مودی حکومت طرح طرح کی رکاوٹیں پیدا کررہی ہے۔ اگر چند ریاستوں میں ہندو بھائی اقلیت میں ہیں تو بلاشبہ ان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے انھیں تحفظات ملنے چاہئے لیکن یہی فراخدلی کیوں مسلمانوں کے معاملے میں بی جے پی حکومت نہیں دکھاتی۔ جب ہماری اپنی ریاست تلنگانہ یا کسی اور ریاست میں مسلم اقلیت کو تحفظات فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی یہ بی جے پی کا دوغلا پن ہے اور اقلیت دشمنی کا ایک اور ثبوت ہے۔