ظفر آغا
پہلے شاہ رخ خان اور اب عامر خان ۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟ ایک ایک کر مشہور فلم ہستیوں کا شمار ’’غداروں‘‘ کی فہرست میں ہوتا چلا جارہا ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ عامر اور شاہ رخ پاکستان جائیں تو کوئی کہتا ہے کہ ان کو سعودی عرب بھیجو ۔ آخر کیوں ؟ ان کا گناہ کیا ہے اور ان کو پاکستانی کیوں کہا جارہا ہے ؟ ان کا گناہ محض یہ ہے کہ انہوں نے فرقہ پرستوں کو آئینہ دکھادیا۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ ملک کے موجودہ حالات کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے تو عامر اور شاہ رخ دونوں نے یہ کہہ دیا کہ حالات کوئی اچھے نہیں ہیں ۔ بقول عامر نوبت یہ آچکی ہے کہ خود ان کی بیوی کرن راؤ اس ملک میں غیر محفوظ محسوس کررہی ہیں ۔ بس عامر کے منہ سے اتنی سی بات نکلنا گناہ ہوگیا اور بھائی کوئی عامر اکیلے تو نہیں ہیں جو یہ بات بول رہے ہیں ۔ کیا مہیش بھٹ نے یہی نہیں کہا ۔ کیا مشہور تاریخ داں روملا تھاپر نے یہ نہیں بولا ، کیا جواہر لال نہرو کی بھتیجی سہگل نے اپنا اعزاز حکومت کو واپس نہیں کردیا ۔ لیکن ان کو کسی نے ’’پاکستانی‘‘ یعنی غدار وطن کا تمغہ نہیں دیا ۔ بس کسی مسلمان سے اگر بھولے سے بھی فرقہ پرستی کے خلاف ایک لفظ بھی نکل گیا تو وہ فوراً پاکستانی ٹھہرادیا جاتا ہے ۔ وہی بات اگرہندو کہے تو وہ غلط ہوسکتا ہے لیکن دیش دشمن نہیں اور اگر وہی بات مسلمان کہہ دے تو وہ پاکستانی یعنی دیش کا غدار ہوجاتا ہے ۔
ہندو اور مسلمان کے خلاف یہ امتیاز کرنے والوں کی فکر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ملک کی کچھ تنظیمیں ہندوستانی مسلمانوں کو آج تک پاکستانی یعنی غدار مانتی ہیں ۔ صرف اتنا ہی نہیں اسکا یہ بھی خیال ہے کہ بحیثیت مسلمان کسی قسم کی ناانصافی پر منہ کھولنے کا بھی حق نہیں ہے ۔ اس کے خیال میں بابری مسجد شہید ہو تو مسلمان خاموشی سے اس ناانصافی کو تسلیم کرلے ۔ گجرات میں نسل کشی ہو اور وہ خاموش رہے ۔ اسی طرح دادری میں لوگ بے گناہ اخلاق کو گھس کر اسکے گھر میں مار ڈالیں اور عامر اور شاہ رخ خاموش تماشائی بنیں رہیں ۔ اس قسم کے مظالم کے خلاف اگر کوئی بولے تو ہندو بول سکتا ہے ۔ اگر مسلمان بولے گا تو وہ بس پاکستانی ٹھہرادیا جائے گا ۔ یعنی ظلم برداشت کرو اور خاموش رہو !
یہ اب ممکن نہیں ہے ! ہندوستانی مسلمانوں کو دوسرے درجے کی شہریت منظور نہیں ہے ۔ یہ ہمارا وطن ہے اور ویسے ہی ہمارا وطن ہے جیسے ہندوؤں ، سکھوں ، بدھسٹوں اور عیسائیوں کا وطن ہے ۔ یہ محض ہمارا وطن اس لئے نہیں ہے کہ ہم یہاں پیدا ہوئے ہیں ، یہ ہمارا وطن اس لئے بھی ہے کہ یہاں ہمارے آباو اجداد نے اپنا خون بہایا ہے وہ یہاں دفن ہیں ۔ پھر ہر مسلمان کو 1947 میں یہ موقع ملا تھا کہ وہ چاہے تو پاکستان چلا جائے لیکن یہاں کی مسلم اکثریت نے اس وقت ناسازگار حالات میں بھی یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان چھوڑ کر نہیں جائے گا ۔ اس ملک میں اس نے کبھی بھاگلپور ، تو کبھی مرادآباد ، تو کبھی ملیانہ ، کبھی بابری مسجد اور کبھی گجرات جیسے ہولناک فسادات برداشت کئے لیکن اس نے اس ملک سے نہ غداری کی اور نہ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں گیا ۔ اب دادری جیسے کربناک واقعہ کے بعد بھی وہ اس عظیم ملک کو چھوڑ کر کہیں جانے والا نہیں ہے ۔ لیکن وہ طاقتیں جو چاہتی ہیں کہ مسلمان گھٹ گھٹ کر جئے تو یہ ممکن نہیں ہے ۔ ہم نے اس ملک کی آزادی کی لڑائی لڑی ۔ اگر پاکستان و چین نے ہماری سرحدوں کو پار کیا تو ہم نے اپنے سپوتوں کا خون بہا کر اس ملک کی آزادی کی حفاظت کی اور ہم نے کوئی احسان نہیں کیا ۔ یہ ہمارا فرض تھا اور ہم نے اس کو نبھایا۔ ہم ہمیشہ اس ملک کی حفاظت کے لئے دیوار بن کر کھڑے رہیں گے ۔ آخر ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے ۔ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں ہمارا برابر کا حصہ ہے اس لئے اب ہم کو کوئی پاکستانی کہہ کر ڈرا نہیں سکتا ۔
یاد رکھئے عامر و شاہ رخ جیسے مسلمانوں کی، قیام پاکستان کے بعد یہ تیسری نسل ہے ۔ اس مسلم نسل نے نہ تو بٹوارہ دیکھا ہے اور نہ ہی اس کا پاکستان سے کچھ لینا دینا ہے ۔اس نسل نے اسی ہندوستان میں آنکھیں کھولی ہیں ۔ اس نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر اسی سرزمین پر اسکولوں میں جا کر تعلیم حاصل کی ہے ۔ اس نسل نے یہیں ہندوؤں کے ساتھ مل کر کرکٹ اور فٹ بال کھیلا ہے ۔ پھر عامر اور شاہ رخ کی نسل کا مسلمان خاموش کیوں رہے گا؟ وہ نہ تو فرقہ پرست ہے اور نہ ہی غدار ۔ ہندوستان اس ملک کے مسلمان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے ، اسکی سانسوں میں بسا ہے اور اس کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ وہ یہیں پیدا ہوا اور یہیں مرے گا ۔ یہ اسکا وطن ہے ۔ اس لئے اگر گجرات ہوگا اور دادری ہوگی تو یہیں آواز اٹھائے گا۔ یہاں جب تک وہ نسل زندہ تھی جس نے پاکستان کا بٹوارہ دیکھا تھا تووہ خوف سے خاموش رہتی تھی ۔ لیکن وہ نسل جس کا پاکستان سے کوئی مطلب نہیں وہ مسلم نسل اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم و ناانصافی کے خلاف ویسے ہی آواز اٹھائے گی جیسے دوسرے آواز اٹھاتے ہیں ۔
ناانصافی اور ظلم کے خلاف ہر ہندوستانی شہری کو آواز اٹھانے کا حق ہے ۔ یہ ہمارا آئینی حق ہے ۔ ہم ایک جدید سیکولر اور جمہوری ہندوستان میں جی رہے ہیں ۔ ہم ہندوستانی مسلمان کسی پاکستان میں نہیں رہتے کہ جہاں ہر وقت مذہب کے نام کا ڈنکا بجتا ہے اور دہشت گردی کا راج چلتا ہے ۔ یہ ہندوستان ہے جہاں جمہوری نظام ہے ۔ اس جمہوری نظام میں ہر شہری کو بلاتفریق مذہب و ملت برابر کے شہری ہونے کا حق حاصل ہے۔یہاں مسلمان ووٹ کی بھی اتنی ہی قدر ہے جتنی کسی اور مذہب یا عقیدہ رکھنے والے کے ووٹ کی قیمت ہے ۔ اس لئے ہم جمہوری طرز پر اپنے ووٹ کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کو ہراتے رہیں گے ۔ ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی یہ جمہوری طاقت ابھی بہار میں دکھادی ۔ فرقہ پرستوں نے گجرات کیا تو سال 2004 کے لوگ سبھا چناؤ میں بھی ہندوستانی مسلمانوں نے اپنی اسی جمہوریت طاقت کا استعمال کیا ۔ اس سے قبل 1992 میں بابری مسجد شہید کی گئی تو 1993 کے اترپردیش اسمبلی چناؤ میں مسلمانوں نے اسی ووٹ کے ذریعہ فرقہ پرستی کو شکست دی اور سچ تو یہ ہے کہ محض ہندوستانی مسلمان ہی جمہوری طرز سے فرقہ پرستی کے خلاف نہیں لڑتا ہے ۔ کیا ابھی بہار اور 2004 میں ہندو اکثریت نے گجرات فساد جیسے واقعات کے خلاف ووٹ نہیں ڈالا تھا ۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے ۔ یہ ملک مسلمانوں کا ہے ۔ یہ ملک سکھوں ، عیسائیوں ، بودھوں اور ہر ہندوستانی شہری کا ملک ہے ۔ اس ملک کا دل اتنا بڑا ہے کہ اس ملک میں ہر ایک کے لئے جگہ ہے ۔ جس pluralism کی بات امریکہ آج کررہا ہے وہ رنگارنگ گنگا جمنی تہذیب اس ملک کی روح میں سمائی ہوئی ہے ۔ یہاں ہر قسم کی ناانصافی کے خلاف ہندو اور مسلمان دونوں نے مل کر لڑائی لڑی ہے۔ وہ انگریزوں کا ظلم رہا ہو یا فرقہ پرستوں کا ظلم ، ہر ظلم کے خلاف ہندو اور مسلمان دونوں کی آواز اٹھتی رہے گی ۔ وہ آواز کبھی مہیش بھٹ و رومیلا تھاپر کی ہوگی تو کبھی عامر خان و عرفان حبیب کی ہوگی ۔ پچھلی نسل کا مسلمان ، پاکستان کے نام پر ڈر گیا تھا ، لیکن آج کا عامر خان اور شاہ رخ خان ڈرتا نہیں ۔ وہ خاموش نہیں رہے گا ۔ کوئی اس کو پاکستانی کہہ کر اس کو ڈرا نہیں سکتا ہے ۔ یہی اس ملک کی عظمت ہے ، اسی لئے اس ملک کا عامر و شاہ رخ یہیں رہے گا ، کسی پاکستان نہیں جائے گا ۔ لیکن اگر ناانصافی ہوئی تو اپنا جمہوری حق استعمال کرے گا ۔