سوکٹ بسواس
گذشتہ جمعرات کو ایک 15 سالہ مسلم لڑکا ‘ جو اپنے تین بھائیوں کے ساتھ عید کی خریداری کے بعد اپنے گھر اوپس ہو رہا تھا ‘ تقریبا 20 افراد کے بہیمانہ حملے میں ہلاک کردیا گیا ۔ یہ واقعہ شمالی ہند کی ریاست ہریانہ میں ایک ٹرین میں پیش آیا ۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جنید خان کے قتل کی اصل وجہ ٹرین میں سیٹ کی فراہمی ہے ۔ اس حملے میں جنید کے تین بھائی بھی چاقو سے مسلح ہجوم کے حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم اس ہجوم کا حصہ رہنے کے الزام میں گرفتار کردہ ایک شخص کا ٹی وی پر یہ کہنا تھا کہ اسے اس کارروائی کیلئے دوسروں نے اکسایا تھا کیونکہ مسلمان بیف کھاتے ہیں۔ ہجوم کے حملے میں زخمی ہوجانے والے ایک بھائی شاکر نے دواخانہ میں میڈیا کو بتایا کہ حملہ آوروں نے ہماری ٹوپیاں پھینک دی ‘ ان کے بھائی کی داڑھی پکڑ کر کھینچی ‘ انہیں تھپڑ رسید کئے اور ہمیں بیف کھانے سے متعلق طعنے مارے ۔
نریندر مودی کی ہندوتوا وادی بی جے پی کے اقتدار میں گائے سماج کو تقسیم کرنے والا جانور بن گئی ہے اور سماج میں مذہبی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے ۔ گائے کی فروخت اور اس کے ذبیحہ پر پابندی کی وجہ سے الجھن میں اضافہ ہوا ہے اور گائے کو بچانے کے نام پر ہونے والی سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں۔ دو سال قبل ایک ہجوم نے زراعت پیشہ محمد اخلاق کو محض ان ’’ افواہوں ‘‘ پر قتل کردیا کہ ان کے افراد خاندان نے گھر میں بیف جمع کر رکھا ہے اور وہ اسے کھاتے بھی ہیں۔ گائے کی حفاظت کے نام پر سرگرم گروپس نے ‘ جو ایسا لگتا ہے کہ ماورائے قانون ہوگئے ہیں ‘ جانوروں کو منتقل کرنے والوں کو بھی ہلاک کیا ہے ۔ ہندووں کے ہجوم نے مسلم نوجوانوں کو ہلاک کیا ہے اور یہ بیشتر واقعات بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں پیش آئے ہیں۔ یہ سب کارروائیاں بیف رکھنے کے نام پر کی گئی ہیں۔ ایک معاملہ ایسا بھی تھا کہ ایک بین مذہبی جوڑے نے بھاگ کر شادی کی تھی اس لئے ایک مسلم نوجوان کو ہلاک کردیا گیا ۔
بیشتر افراد یہ سوال کرنے لگے ہیں کہ آیا ہندوستان مودی کی ناک کے نیچے mobocracy کی سمت تو نہیں بڑھ رہا ہے ۔ یہ لوگ اس طرح کی ہلاکتوں پر مودی کی خاموشی پر بھی سوال کرتے ہیں۔ جہاں تک اقلیتوں کی حفاظت کا سوال ہے یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ لا اینڈ آرڈر پوری طرح ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے ۔
بی جے پی کے اقتدار والی ریاست ہریانہ میں پولیس ریلوے اسٹیشن پر بھی ایک نوجوان کو بچانے میں ناکام رہی ۔ مقامی پولیس اسٹیشن کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہاں اتنا ہجوم تھا کہ وہ لوگ اس نوجوان کو بچانے پہونچ نہیں پائے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں ۔ جب کبھی فساد ہوتا ہے یا اس طرح کی لڑائی ہوتی ہے تو لوگ کچھ فرقہ وارانہ باتیں کرتے ہیں لیکن ہم کچھ نہیں کرسکتے ۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست راجستھان میں 55 سالہ پہلو خان کو سر عام پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا گیا تھا اور وہاں کی چیف منسٹر نے ان کی موت پر تعزیت کا اظہار کیا تھا جبکہ انہوں نے اس حقیقت کا اظہار تک نہیں کیا تھا کہ اس شخص کا قتل کیا گیا ہے ۔ بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ اسے پہلو خان کی موت کا کوئی افسوس نہیں ہے کیونکہ وہ گائے کا اسمگلر تھا ۔
ہجوم کے ہاتھوں قتل کے واقعات سے ہندو ازم اور مودی حکومت دونوں کی بدنامی ہو رہی ہے ۔ معروف مصنف آتش تاثیر نے نیویارک ٹائمز میں تحریر کیا کہ ہندوستان اپنی قدیم قدریں کھوتا جا رہا ہے ۔ یہ ناقابل یقین ہے کہ کسی کی جان لینے سے بچنے کا اصول ‘ اب عصر حاضر میں کسی کے قتل کے جواز کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ اسی ہندوستان میں گاندھی جی اور مارٹن لوتھر کنگ نے اہنسا اور عدم تشدد کو فروغ دیا تھا ۔ ایک اور میگزین میں یہ خیا ل ظاہر کیا گیا ہے کہ مودی کے راج میں فرقہ وارنہ تعلقات سے متعلق بحث سے گھبراہٹ ہونے لگی ہے ۔ تاہم ہندوستان کے سینئر بیوروکریٹ راجیو مہرشی الٹا میڈیا پر تنقید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میڈیا ایسے واقعات کی ضرورت سے زیادہ تشہیر کرتا ہے ۔ مہرشی کا کہنا تھا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ نفرت انگیز جرائم ہندوستان میں نئے ہیں۔ یہ در اصل جاہلانہ نوعیت کے ہیں ۔ آج ان سے ضمیر دہل جاتا ہے ۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتیں یا نفرت انگیز جرائم نئے چیز ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان پر ضرورت سے زیادہ ہوا کھڑا کیا جا رہا ہے اور ضرورت سے زیادہ تشہیر کی جا رہی ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں نفرت پر مبنی جرائم نئے نہیں ہیں۔ تشدد کا بحران بھی ہندوستان کیلئے نیا نہیں ہے ۔ کئی لوگ اس سلسلہ میں امریکہ کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں بندوق برداروں کے جرائم بہت زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ہجوم کے ہاتھوں ہلاکتیں بھی ہندوستان میں نئی نہیں ہیں۔ مغربی بنگال میں تین دہوں طویل کمیونسٹ اقتدار کے دوران 630 سے زائد افراد کا ہجوم کے ہاتھوں قتل کردیا گیا ۔ اسے سیاسی نظریات کو کچلنے کی کوشش اور لا اینڈ آرڈر کی ابتری سے تعبیر کیا گیا اور عوامی برہمی بالکل معمولی تھی ۔ جنید خان کے قتل کے دن سرینگر میں جامع مسجد کے باہر ایک مسلم پولیس عہدیدار کو مسلم ہجوم نے پیٹ کر ہلاک کردیا ۔ جاریہ مہینے ہی کے اوائل میں ایک مسلم کارکن کو ضرورت سے زیادہ پرجوش سرکاری عہدیداروں نے پیٹ کر ہلاک کردیا جبکہ اس نے رفع حاجت کرنے والی خواتین کی تصاویر لینے سے انہیں روکا تھا ۔ جہاں مذہبی تشدد کی بات آتی ہے ہندوستان کا ریکارڈ بہتر نہیں ہے ۔ مذہبی عدم رواداری کے معاملہ میں ہندوستان بدترین ممالک میں چوتھا مقام رکھتا ہے ۔ یہاں خواتین کو چڑیل قرار دیا جاتا ہے اور ملک کے کئی حصوں میں جائیداد کیلئے انہیں قتل کردیا جاتا ہے ۔ انہیں گھریلو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے ۔
تاہم نریندر مودی حکومت کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ انتہائی ناکارہ ہوگئی ہے یا پھر ہندو شر پسندوں کے خلاف کارروائی کرنا ہی نہیں چاہتی ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو سوشیالوجسٹ شیو وشواناتھن کے الفاظ میں عدم تحفظ اور بے چینی کی سیاست کی وجہ سے ہے اور اس سے نراج کی کیفیت پھیل رہی ہے جبکہ حکومت قتل و خون پر تماشائی بنی ہوئی ہے ۔ کئی افراد کو یہ تشویش ہے کہ آیا ہندوستان ایسی خطرناک صورتحال میں جا رہا ہے جہاں ایک اکثریتی حکومت ایک طاقتور لیڈر کی قیادت میں نفرت پر مبنی جرائم کی مذمت سے گریز کرتی ہے اور اس کے شہریوں کی اکثریت خاموشی کو ترجیح دیتی ہے یا لب کشائی سے ڈرتی ہے ۔ ایک وکیل نے ٹوئیٹ کیا تھا کہ اس کے خاندان کے بڑے ہجوم کے ہاتھوں اس طرح کی ہلاکتوں کی تائید کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اس نے اپنی برہمی کو بڑی مشکل سے قابو میں کیا تھا ۔
سوال یہ ہے کہ آیا صرف چند صحافیوں ‘ اساتذہ اور کارکنوں کے علاوہ دوسروں میں حوصلہ کیوں نہیں ہے ؟ ۔ کیا بیشتر ہندوستانی تشدد اور عدم روادی کے حصہ دار بن گئے ہیں ؟ ۔ چہارشنبہ کو ملک بھر میں اس طرح کے نشانہ بناتے ہوئے کئے جانے والے قتل کے خلاف احتجاج کیا گیا ۔ کئی ہندوستانیوں نے اس میں بھی خاموشی اختیار کرنے کو ترجیح دی ۔ انہیں شائد احساس نہیں ہے کہ معمولی نوعیت اور بڑے پیمانے پر تشدد کے مابین رابطہ ہے ۔ نفرت پر مبنی جرائم بڑی آسانی سے وسیع تر تشدد میں پھیل سکتے ہیں۔
کولمبیا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سدیپتا کوی راج کا کہنا تھا کہ تشدد کا ہر عمل جو آپ کسی احتجاج کے بغیر برداشت کرتے ہیں اسے آپ کے دروازہ سے قریب کرتا ہے ۔ ایسا اس لئے ہے کہ معمولی تشدد پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے کہ بڑا تشدد پھوٹ نہ پڑ جائے ۔ یہ ایسی وارننگ ہے جس کو ہندوستان بارہا نظر انداز کر رہا ہے ۔