تاریخ مسخ کرنے کی کارجحان خطرناک، اقلیتوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنانے کی کوشش، ممتاز مورخ پروفیسر ایم کے شری ملی کا لیکچر
کولکتہ۔ یکم جنوری (ریاست ڈاٹ کام) انڈین ہسٹری کانگریس کے عمومی صدر کے ایم شری ملی نے ملک میں کسی مسئلہ پر دلیل حجت اور بحث کی قبولیت کے کھڑے ہوئے رجحان پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں توڑ جوڑ اور اس کو مسخ کرنے کی کوششیں بھی ایک مختلف نوعیت کی دہشت گردی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ کو دوبارہ تحریر کرنے کی کوششوں کے پس پردہ آر ایس ایس۔ بی جے پی کا اصل بنیادی ایجنڈہ یہی ہے کہ ایسا ایک ہندو ملک بنایا جائے جہاں اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجہ کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کے ایم شری ملی نے جو دہلی یونیورسٹی کے تاریخ کے سابق پروفیسر ہیں کہا کہ ’’یہ بات باعث تشویش ہے کہ ہندوستان میں حجت اور بحث کی گنجائش گھٹتی جارہی ہے۔ ہم نے ایسے تکلیف دہ رجحان کا پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ وہ جو تاریخ کے بارے میں بالکل معمولی معلومات رکھتے ہیں تاریخ کو مسخ کرنے اور اس میں اپنے من گھڑت نظریات مسلط کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ (دراصل) ایک مختلف نوعیت کی دہشت گردی ہے۔‘‘ شری ملی نے کہا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی ملک و قوم کو مذہبی بنیادوں پر منقسم کرنے کا تہہ کرچکے ہیں۔ تاریخ معقول اسباب بحث و دلائل کا ایک ضابطہ ہوتی ہے اور یہ محض من گھڑت سچائیوں، تخیلات اور واہمہ سازی کے ذریعہ رقم نہیں کی جاسکتی۔ سابق پروفیسر نے افسوس کا اظہار کیا کہ تاریخ کے بارے میں سنگھ پریوار کی تشریح سے وجہ تسمیہ اور بحث بدترین شکار بنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’دیومالائی واقعات کو سمجھنے کے مختلف راستے ہیں۔ دیومالائی واقعات کا ہر حصہ تاریخ نہیں ہوتا۔ لیکن آپ اس پر بحث میں ملوث بھی نہیں ہوسکتے۔ آپ عوام سے لڑنا جھگڑنا چاہتے ہیں۔ تاریخ رقم کرنے کا یہ طریقہ نہیں ہوتا۔‘‘ اس تاریخ نے یہ بھی بیان کیا کہ ہندوتوا اور ہندوازم دو مختلف نظریات ہیں۔ اول الذکر ایک سیاسی نظریہ ہے۔ شری ملی نے کہا کہ ہندوتوا کو اقتدار تک رسائی کے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ ایودھیا مندر اور فلم پدماوتی پر چیخ پکار کا مقصد ہندو ووٹوں کی صف بندی ہے۔ ہندوستان میں پڑھائی جانے والی تاریخ کو بائیں بازو اور آزاد خیال مورخیں کی طرف سے مسخ کرنے سے متعلق بی جے پی اور آر ایس ایس کی تنقیدوں پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے شری ملی نے کہا کہ مورخین کو ان افراد سے تاریخ کا سبق سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جنہوں نے جدوجہد آزادی کے دوران خود کو برطانوی سامراج کے آگے سپرد کردیا تھا۔ شری ملی کے نظریات ممتاز مورخ عرفان حبیب سے ہم آہنگ پائے گئے جنہوں (عرفان حبیب) نے کہا کہ تاریخی حقائق اور حقیقت کے واقعات پر مبنی ہوتی ہے اور حقائق ایجاد کرنے کی کسی بھی کوشش کو محض فسانہ سمجھا جاتا ہے۔ پروفیسر شری ملی نے کہا کہ برسر اقتدار جماعت ملک میں مغلیہ سلطنت کے کارناموں اور ورثے کو پامال اور رسوا کرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم انہوں نے من گھڑت تاریخ سے مزاحمت کی کوششوں میں ہندوستانی عوام کے ذہنوں کی کارکردگی پر مکمل اطمینان اور بھروسہ کا اظہار کیا۔ پروفیسر حبیب نے بڑھتی ہوئی سیاسی عدم رواداری اور معقولیت پسند مصنفین نریندر ڈربھولکر، گویند پانسارے، ایم ایم کالبرگی کی حالیہ ہلاکتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خوف و اندیشوں کی فضاء ہے جس میں قتل کے واقعات آزادی افکار و اظہار خیال کے خلاف جاری سفاکانہ مہم کی مسموم یادیں تازہ رکھے ہوئے ہیں۔