ہندوستان کو عرب دنیا سے دور کرنے

ہندوستانی خارجہ پالیسی کے متعلق ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں تضاد نہیں ہوتا بلکہ ہندوستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جس کے تعلقات ہمیشہ ہی جمہوریت کیلئے جدوجہد کرنے والے ممالک سے رہے ہیں اور بسا اوقات ہندوستان کے تعلقات معاشی و سیاسی اعتبار سے ایسے ممالک سے بھی رہے ہیں جہاں پر شاہی دور چل رہا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی خارجہ پالیسی اتنی لچکدار ہے کہ بیک وقت ہندوستان دو حریف ممالک سے اپنے بہتر تعلقات برقرار رکھنے کے موقف میں ہوتا ہے لیکن 1992 ء کے بعد اسرائیل سے استوار ہونے والے سفارتی تعلقات کے بعد ہندوستانی خارجہ پالیسی میں بتدریج تبدیلی رونما ہوتی جارہی ہے اور ہند۔اسرائیل دفاعی تعلقات کے استحکام سے جو صورتحال پیدا ہورہی ہے اس کے اثرات یقینی طور پر ہندوستان کے عرب ممالک اور ایران سے تعلقات پر مرتب ہوں گے۔ اب جبکہ عالم عرب کے ساتھ ساتھ شام ، عراق و دیگر ممالک سنگین خطرات کا سامنا کر رہے ہیں، ایسے میں ہندوستان کے اسرائیل سے تعلقات کا استحکام مزید مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
ہندوستانی عوام میں اسرائیل کے متعلق آج بھی نفرت پائی جاتی ہے جبکہ اسرائیل ہندوستان کو سب سے زیادہ زرعی و دفاعی سرمایہ کاری کرنے والا ملک ہے لیکن عوام کے دلوں کو جیتنا اسرائیل کے بس کی بات نہیں ہے چونکہ ہندوستانی عوام آزادی کی قدر و قیمت جانتے ہیں لیکن جو لوگ انگریزوں کے غلاموں کا کردار کرنے والوں اور ان کے مخبروں کو اپنا آئیڈیل تصور کرتے ہیں، انہیں آزادی کی کیا قیمت چکانی پڑے گی، اس کا اندازہ نہیں ہوسکتا چونکہ آزادی ہند کیلئے قربانیاں دینے والوں اور جدوجہد کرنے والی قوم کو فلسطینیوں کے درد کا احساس ہے جبکہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر مذمت یا افسوس کا اظہار کرنے سے گریز کرنے والوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں ہے چونکہ آزادی سے ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں رہا۔

اسرائیل کے متعلق ہندوستانی خارجہ پالیسی میں اس وقت تبدیلی رونما ہوئی جب ملک میں پی وی نرسمہا راؤ وزیراعظم ہوا کرتے تھے، اس کے ساتھ ہی حالات میں تبدیلی آتی گئی لیکن ہندوستان نے فلسطینیوں کے حق کو تسلیم کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی لیکن سن 2000 ء میں وزیر داخلہ ہند مسٹر لال کرشن اڈوانی نے اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے ہند۔اسرائیل تعلقات جو استحکام بخشا تھا اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور 2000 کے بعد سے کسی وزیر داخلہ نے اسرائیل کا دورہ نہیں کیا لیکن اب جبکہ ملک میں ایک مرتبہ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں ہے اور راج ناتھ سنگھ قومی کابینہ میں وزارت داخلہ کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں وہ آئندہ ماہ اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں۔ 14 سال کے دوران اسرائیل نے ہندوستان کے زرعی و دفاعی شعبہ میں جو سرمایہ کاری کی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک میں اسرائیلی تکنیک کے بغیر دفاع اور زراعت کا تصور محال ہوچکا ہے۔ 2000 ء میں بحیثیت وزیر داخلہ لال کرشن اڈوانی کے دورہ اسرائیل کے دوران انہوں نے جن امور پر اسرائیل سے مدد طلب کی تھی ، ان میں سب سے اہم ملک کو درپیش داخلی خطرات سے نمٹنے کیلئے میکانزم کے متعلق ہندوستانی عہدیداروں کو تربیت کی فراہمی تھی اور اس وقت جو سلسلہ شروع ہوا تو اب تک بھی ملک میں اعلیٰ عہدیدار اسرائیلی تربیت کے حصول کیلئے اسرائیل کا دورہ کرتے ہیں۔ مسٹر لال کرشن اڈوانی نے 2000 ء میں کئے گئے اپنے دورہ اسرائیل کے دوران جن عہدیداروں کو اپنے ہمراہ شامل رکھا تھا ، ان میں ہوم سکریٹری ، سی بی آئی چیف ، آئی بی ڈائرکٹر، بی ایس ایف ڈائرکٹر جنرل کے علاوہ جوائنٹ سکریٹری ، محکمہ داخلہ شامل تھے، ان کے دورہ میں موجود عہدیداروں کے عہدوں سے ہی یہ واضح ہوگیا تھا کہ وزیر داخلہ ہند کا دورہ اسرائیل کا مقصد کیا ہے۔

اب جبکہ مسٹر راج ناتھ سنگھ اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں تو ایسے میں بھی کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے لیکن توقع ہے کہ دورہ اسرائیل کے دوران مسٹر راج ناتھ سنگھ ہندوستان کو درپیش سرحدی و داخلی خطرات کے متعلق نہ صرف اسرائیل کو واقف کروائیں گے بلکہ ان سے نمٹنے کیلئے عصری میکانزم سے لیس فورس کی تیاری میں مدد بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ۔ ماہ نومبر کے دوران متوقع وزیر داخلہ کے اس دورہ اسرائیل کے متعلق اب تک موصولہ اطلاعات کے بموجب وزیر داخلہ اپنے دورہ اسرائیل کے دوران نہ صرف اپنے ہم منصب سے ملاقات کریں گے بلکہ وہ اسرائیلی وزارت خارجہ کے عہدیداروں و دفاعی عہدیداروں سے ملاقات کریں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ مسٹر راج ناتھ سنگھ کی اسرائیل ڈیفنس فورس کے کمانڈر ان چیف بینی گیانٹز اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے چیف ٹامر پارڈو سے بھی ملاقات ممکن ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات میں استحکام کی سمت یہ ملاقات انتہائی کلیدی اہمیت کی حامل ہے اور اس ملاقات کے دوران دونوں ممالک مشترکہ خطرات سے نمٹنے پر تبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔

مسٹر راج ناتھ سنگھ کا دورہ اسرائیل ایک ایسے وقت ہونے جارہا ہے جبکہ حکومت اسرائیل کی جانب سے قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو مسلمانوں اور یہودیوں میں تقسیم کرنے کی ناپاک سازش منظر عام پر آچکی ہے اور اسرائیلی پارلیمنٹ ماہ نومبر میں ہی منعقد ہونے والے اجلاس کے دوران الاقصیٰ کی تقسیم کا بل روشناس کرواسکتی ہے ۔ اسرائیل کے اس ناپاک منصوبہ کے خلاف نہ صرف فلسطین میں برہمی پائی جاتی ہے بلکہ عرب لیگ کی جانب سے بھی اس طرح کی کسی بھی کوشش پر سنگین نتائج کا انتباہ دیا جاچکا ہے۔ عالم عرب کے علاوہ مغربی ممالک داعش کی سرگرمیوں اور بالخصوص ترکی کے سرحدی علاقہ کوبانی میں امریکہ کی جانب سے گرایا گیا کرد عوام کیلئے ہتھیار داعش کے ہاتھ لگنے کی اطلاعات سے انتہائی خوف زدہ ہے اور داعش کے خلاف امریکہ کی زیر قیادت تشکیل دیا گیا محاذ سرگرم عمل ہے جس کا حصہ کئی عرب ممالک بھی ہیں لیکن اگر اسرائیل کی جانب سے مسجد اقصیٰ کی تقسیم کے بل کو روشناس کروایا جاتا ہے تو ایسی صورت میں داعش کے خلاف سرگرم اتحاد بھی پارہ پارہ ہوسکتا ہے۔ ایران کی جانب سے مسجد اقصی کی تقسیم کے بل کی اطلاعات کی سخت مذمت کی جارہی ہے، اسی طرح اردن نے بھی اسرائیل کو اس طرح کے کسی عمل سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ فلسطینی اتھاریٹی کے علاوہ حماس کی جانب سے اس کارروائی پر سنگین نتائج کا انتباہ دیا گیا ہے، اسی طرح دیگر عرب ممالک نے بھی عالمی طاقتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کی حرکت پر خاموش تماشائی نہ رہے بلکہ خاموشی کو توڑتے ہوئے اسرائیلی درندگی کو روکنے کے اقدامات کریں۔ اس سلسلہ میں عرب لیگ کی جانب سے اقوام متحدہ سیکوریٹی کونسل سے بھی اپیل کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر مداخلت کرتے ہوئے عالم اسلام کے جذبات کو مجروح کرنے والے بل کو اسرائیلی پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے سے روکے ۔ ہند۔ایران، ہند۔سعودی، ہند۔قطر، ہند۔امریکہ، ہند۔فلسطین، ہند۔ترکی کے علاوہ ہندوستان کے کئی ممالک سے انتہائی خوشگوار تعلقات ہیں، جنہیں برقرار رکھنا حکومت ہند کی ترجیح ہونی چاہئے۔ اسرائیل جو کہ گزشتہ 14 برسوں کے دوران ہندوستان کو ہتھیار فروخت کرنے والا دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے، اس سے مزید گہرے روابط ہندوستان کے دیگر ممالک سے بہتر تعلقات کیلئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات بھی کچھ حد تک بگڑ سکتے ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران کی گئی داعش کے خلاف محاذ میں شامل ہونے کی امریکی پیشکش کو صرف اس لئے نظر انداز کیا کہ کہیں اس طرح کے فیصلے ملک کو داخلی مشکلات میں مبتلا نہ کردیں لیکن وزیر داخلہ کا ایسے حالات میں دورہ اسرائیل کئی خدشات پیدا کرنے کے مترادف ثابت ہوسکتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل کے مشیر برائے قومی سیکوریٹی جوزف کوہان کے دورہ ہند کے دوران جو ملاقاتیں و اطلاعات کا تبادلہ ہوا، ان کے متعلق ہند۔اسرائیل تعلقات کے استحکام و ترقی کی کوئی حد متعین نہیں ہوگی اور دونوں ممالک ہر شعبہ میں اپنے تعلقات کو مستحکم بنانے کیلئے کوشاں رہیں گے۔ حکومت ہند خارجہ پالیسی میں آرہی اس تبدیلی سے جو حالات پیدا ہوں گے، اس کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے چونکہ ہندوستان کو نہ صرف تیل کی دولت سے مالا مال ممالک سے تیل حاصل کرنا ہے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں روزگار حاصل کرتے ہوئے ملک کی معیشت کو مستحکم کر رہے ہندوستانیوں کو بھی نظر میں رکھتے ہوئے خارجہ پالیسی کا تعین کرنا ہوگا چونکہ اسرائیل سے ہندوستان کے تعلقات کے استحکام کی صورت میں دیگر ممالک سے ہندوستان کے تعلقات میں ظاہری نہ سہی کچھ حد تک خلاء پیدا ہونے کا قوی خدشہ ہے جس سے نہ صرف ملک کی معیشت متاثر ہوسکتی بلکہ صیانتی امور پر بھی ملک کو کئی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ ہندوستان میں برسر اقتدار نریندر مودی حکومت کی جانب سے افغانستان کے علاوہ سرحدوں سے جڑے دیگر ممالک سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے اقدامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ظاہری طور پر سیکولر ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جبکہ نظریاتی اعتبار سے زعفرانی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا رہنے پر یقین رکھتی ہے۔
infomubashir@gmail.com
@infomubashir