محمد ریاض احمد
اکثر ہمارے ملک میں سڑکوں پر لوگوں کو ڈگڈگی اور بندر والے کا تماشہ دیکھنے کا موقع ملتا ہے ‘ ان تماشوں میں ڈگڈگی والے کی بہت اہمیت ہوتی ہے وہ اپنے ہاتھ میں ایسی رسی پکڑا ہوتا ہے جس سے بندر بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ ڈگڈگی والا ڈگڈگی بجاتے ہوئے بندر کو اپنے اشاروں پر نچاتا ہے اسے گُلاٹی مارنے پر مجبور کرتا ہے ۔ڈگڈگی والے کے اشارہ پر بندر سیکل چلاتا ہے اونچی رسی پر سے چھلانگیں لگاکر وہاں موجود تماشہ بینوں کیلئے تفریح کا سامان فراہم کرتا ہے ۔ ڈگڈگی والے کے اشاروں پر بندر عجیب و غریب حرکتیں کرتے ہوئے تماشہ بینوں کو ہنسنے پر مجبور کردیتا ہے اور اس کی کرتب بازی دیکھ کر لوگ اپنی جیبوں میںہاتھ ڈالے کچھ نہ کچھ پیسے ڈگڈگی والے کے کشکول میں ڈال ہی دیتے ہیں ۔ اسطرح اس تماشہ میں راست ڈگڈگی والے اور اس کے خاندان کا فائدہ ہوتاہے جبکہ بندر ‘ بندر ہی رہتا ہے ۔
اس میں کرتب بازی سیکھنے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔ قلابازیوں اورچھلانگ لگانے میں غیر معمولی مہارت بھی اسے ڈگڈگی والے کے شانہ بشانہ لاکر کھڑانہیں کرسکتی ‘ ایک ایسا وقت بھی آتا ہے جب اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کام نہ کرنے پر ڈگڈگی والا بندر کی بے تحاشہ پٹائی بھی کردیتا ہے ۔ اس طرح ڈگڈگی والے کی بیچارے بندر پر برتری باقی رہتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں ہورہا ہے لیکن اس تماشہ میں ڈگڈگی والا ہے اور نہ ہی بندر بلکہ کردار بدل گئے ہیں ۔ ملک میں جاری اس تماشہ میں کوئی ڈگڈگی بھی نہیں ہے ۔ ہاں … یہاں آر ایس ایس اور حکومت ہیں ۔ کانگریس سے لیکر ہر سیاسی جماعت اور ان کے چھوٹے بڑے لیڈروں کا کہنا ہیکہ وزیراعظم نریندر مودی اچھے دن آنے والے ہیں ‘ سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ فرقہ وارانہ فسادات کا سلسلہ بند کرنے ‘ ملک بھر میں صفائی مہم ‘ گاؤں گاؤں بیت الخلاؤں کی تعمیر اور ترقی و خوشحالی کے ایجنڈہ پر کام کرنے کے جو نعرے بلند کررہے ہیں، وہ دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ مودی صرف اور صرف آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کررہے ہیں ۔ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ آر ایس ایس کی مرضی و منشاء کے خلاف ایک قدم بھی آگے بڑھائیں ‘ اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ادا کریں ۔ یہی وجہ ہیکہ بی بے پی حکومت کے اقتدار سنبھالے ابھی مختصر سا عرصہ گذرا ہے بی جے پی قائدین ملک میں فرقہ وارانہ ماحول کو کشیدہ کرنے، مذہبی منافرت پیدا کرتے ہوئے ہندوستانیوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی اسی طرح کوشش کررہے ہیں جس طرح جدوجہد آزادی کے دوران انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی ۔
ہمارے ملک میں وزیراعظم بڑے ہی پر زور انداز میں ترقی و خوشحالی کی باتیں کررہے ہیں‘ بیرونی دورے کرتے ہوئے غیر مقیم ہندوستانیوں کویہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ہندوستان میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے یہاں بلاخوف و خطر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے ۔ امن و امان کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو گذشتہ 6ماہ کے دوران بی جے پی ارکان پارلیمنٹ اور قائدین کی زہریلی بکواس کے نتیجہ میں فرقہ وارانہ ماحول بہت خراب ہوا ہے ۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے دینی مدارس کو دہشت گردی کے مراکز قرار دیتے ہوئے اس بات کا بیہودہ الزام عائد کیا کہ یہ مدارس ’’ لو جہاد‘‘ کیلئے نوجوانوں کو رقمی انعامات دے رہے ہیں ۔ ان کے خیال میں مدرسوں میں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اس طرح مدرسوں میں دی جانے والی تعلیم قومی مفاد میں نہیں ہے ۔ ساکشی مہاراج کے اس طرح بھونکنے پر نریندر مودی بالکل خاموش رہے ‘ ان کی خاموشی سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سارے ہندوستان کے نہیں بلکہ صرف ساکشی مہاراج جیسی ذہنیت کے حامل لوگوں کے وزیراعظم ہیں ۔ اسی طرح یوگی آدتیہ ناتھ نے لو جہاد کا عجیب نعرہ لگاتے ہوئے مودی کابینہ میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش کی لیکن آر ایس ایس قیادت ان کی زبان سے مسلمانوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ زہر اگلوا رہی ہے ۔
یوگی نے اشتعال انگیزی کی حد پار کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ اگر مسلمان لو جہاد کے نام پر ایک ہندو لڑکی کا مذہب تبدیل کراتے ہیں تو ہم 100مسلم لڑکیوں کو ہندو بنائیں گے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان سے بھی مودی پر کچھ اثر نہیں ہوا ۔ ان بیانات سے ایک قدم اورآگے بڑھتے ہوئے اس بندری یوگی نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہیکہ تاج محل شیومندر پر تعمیر کیا گیا ۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی اس شرانگیزیوں کے باوجود مودی گونگے ‘ بہرے اور اندھے کی طرح خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ بہار کے بی جے پی قائد گری راج سنگھ نے مودی کی چاپلوسی میں بی جے پی میں موجود دیگر چاپلوس ذہنوں پر سبقت لے جاتے ہوئے جب یہ کہاکہ مودی کی مخالفت کرنے والوں کیلئے ہندوستان میں کوئی جگہ نہیں ‘ انہیں پاکستان بھیج دینا چاہیئے اس وقت بھی مودی نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ۔ کسی نے گری راج سنگھ سے یہ پوچھنے کی ہمت نہیں کی کہ کیا ہندوستان آپ کے باپ کی جاگیر ہے ۔ مودی نے گری راج سنگھ کو اشتعال انگیز بیانات جاری کرنے سے گریز کا مشورہ دینے کی بجائے اپنی کابینہ میں شامل کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا ۔ دوسری طرف مظفر نگر فسادات کے ملزم سنجیو بلیان کو مودی نے کابینہ میں شامل کرتے ہوئے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب و روایات کو شرمسار کردیا ۔ غرض مودی فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے والے بی جے پی ارکان پارلیمان اور قائدین کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ۔ دلچسپی کی بات یہ ہیکہ مودی نے بڑے ہی پُرزور انداز میں سواچھ بھارت ملک کی صفائی پروگرام شروع کیا ‘ انہیں ملک میں موجودہ فرقہ پرستی کے اس کچرہ کو بھی صاف کرناچاہیئے تھا جو ان کی کابینہ اور پارٹی میں جمع ہوگیا ہے ۔
ایک محب وطن ہندوستانی کے ناطے ہر ہندوستانی شہری اس طرح کے لوگوں کو کچرہ ‘ غلاظت اور تعفن کہنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہیکہ ترقی کے نعرے لگاکر اقتدار حاصل کرنے والے مودی ڈگڈگی اور بندر والے کھیل کا ایک حصہ تو نہیں بن گئے ‘ کیا انہوں نے اپنی ڈوری پوری طرح آر ایس ایس کے ہاتھوں میں تو نہیں تھما دی ہے ؟ آیا وہ آر ایس ایس اور اس کی قیادت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں؟ اس لئے کہ حال ہی میں سادھوی نرنجن جو ہندوستانی تہذیب سے شاید واقف نہیں ‘ اشتعال انگیزی کی تمام حدود کو پار کرتے ہوئے بی جے پی کے سواء تمام جماعتوں کے قائدین اور ہندوستان کی اس 70فیصد عوام کو حرام زادے کہا ہے جنہوں نے مودی ‘ بی جے پی کے حق میں اپنے ووٹ استعمال نہیں کئے ۔ مودی نے اس مرکزی وزیر کی بھرپور مدافعت کرتے ہوئے اسے عہدہ سے برطرف کرنے کی ہمت نہیں دکھائی ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی انہیں آر ایس ایس کے اشارہ پر کرنا پڑا ۔
یو پی اے دور حکومت میں نریندر مودی اور بی جے پی اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ایک خاموش اور ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ کام کرنے والا وزیراعظم کہنے سے گریز نہیں کرتے تھے حالانکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ ایک معتبر باوقار شخصیت ہیں ۔ ان میں اور مودی کے درمیان ہر لحاظ سے زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے ۔ مودی کو سیاسی قائدین اور مظلومین گجرات کے علاوہ سماجی جہدکاروں نے بارہا موت کا سوداگر اور ہٹلر قرار دیا ہے جب کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو گاندھیائی قائد کی حیثیت سے دنیا نے تسلیم کیا ہے ۔مودی کا ہٹلر سے تقابل ہی ان کے کٹر ہندوتوا نظریہ کو ظاہر کرتا ہے ۔
حیرت اس بات پر بھی ہیکہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت اور دیگر قائدین ہندوستان کو ہندو مملکت بنانے کی باتیں کررہے ہیں اس کے باوجود نریندر مودی کا منہ ہی نہیں کھلتا ان کا منہ اس آہنی دروازہ کی طرح کھلنے سے قاصر ہے جو بہت زیادہ زنگ آلود ہوگیا ہو ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری حکومت اور اس کے کرتا دھرتاؤں پر بھی فرقہ پرستی اور ہندوتوا کا زنگ پوری طرح چڑھ چکا ہے ۔ یہی وجہ ہیکہ مودی آر ایس ایس کے ہر حکم پر ’’حکم میرے آقا‘‘ کی رٹ لگاتے ہوئے سر جھکاتے جارہے ہیں ۔ اس ضمن میں کانگریسی قائد ڈگ وجئے سنگھ نے اچھی بات کہی ۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی ایک کمزور وزیراعظم ہے اور ابتداء میں انھوں نے خود کو بااختیار اور مضبوط ظاہر کرنے کی کوشش ضرور کی لیکن ناگپور میں واقع آر ایس ایس ہیڈ کوارٹرس سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ خفیہ پیامات نے مودی کی برتری کا سارا زعم خاک میں ملادیا ۔ نتیجہ میں انھوں نے اپنی کابینہ میں آر ایس ایس سے قریبی تعلق رکھنے والوں کو شامل کیا اس کے علاوہ زیادہ تر قلمدان راجیہ سبھا ارکان کو دئے گئے جیسے فینانس ، دفاع ، پٹرولیم ، کوئلہ ، توانائی ، فروغ انسانی وسائل ، جنگلات ، کامرس وغیرہ وغیرہ ۔ اہم بات یہ ہے کہ آر ایس ایس قیادت سے سبز جھنڈی دکھانے کے بعد ہی مودی قدم بڑھاتے ہیں اور جہاں تک آر ایس ایس اور سبز جھنڈی کا سوال ہے آر ایس ایس کو ہر سبز شئے سے نفرت ہے ۔ ہندوتوا کی حامی تنظیمیں سبز رنگ سے نفرت کرتی ہیں ۔ جس طرح بی جے پی سنگھ پریوار کے ارکان طفلانہ بیانات جاری کرتے ہوئے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس سے لگتا ہیکہ اگر ان بیوقوفوں کا بس چلے تو وہ ہندوستان کے طول و عرض میں موجود جنگلات کو صرف اس لئے کاٹ دیں گے
کیونکہ ان کا رنگ بھی سبز ہے ۔ انھیں یہ ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ سبز رنگ ان کی زندگی کے ہر لمحہ ان کاتعاقب کرے گا ۔ کبھی سبزی کی شکل میں تو کبھی درختوں کی شکل میں ، ان کے سامنے ہمیشہ رہے گا ۔ حال ہی میں دھرم جاگرن منچ کے سربراہ نے بیان دیتے ہوئے پرزور اندازمیں کہا کہ 21 ڈسمبر 2021 تک تمام عیسائی اور مسلمان ہندو بن جائیں گے ۔ اس کے مجنونانہ بیان پر مودی کو سانپ سونگھ گیا ۔ اب تو لوگ کہنے لگے ہیں کہ عہدہ وزارت عظمی پر فائز ہونے کے ساتھ ہی مودی کی قوت گویائی ، ان میں وسیع النظری اور وسیع القلبی کی طرح بہت کم ہوگئی ہے ۔ اس بات کے بھی شکوک و شبہات ظاہر کئے جارہے ہیں کہ آر ایس ایس قیادت نے مودی کی زبان بندی کردی ہے اور ان سے خاص طور پر کہہ دیا گیاہے کہ ہم جب تمہیں ہری جھنڈی دکھائیں گے تب ہی اپنی زبان کھولنے کی ہمت کرنا بہرحال ہر انسان کی ایک عزت نفس ہوتی ہے ‘دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والا انسان کمزور مجبور و بے بس ہوتا ہے اسے کسی بھی طرح مضبوط عزم و ارادوں کا مالک نہیں کہا جاسکتا بلکہ اس کا مقام اس بندر کا ہوتا ہے جو ڈگڈگی والے کے اشارہ پر ناچتا ہے ۔ قلابازیاں لگاتے ہوئے کرتب بازی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ اپنے آقا کے اشارہ کے بغیر وہ ضرورت سے فارغ بھی نہیں ہوسکتا ۔
mriyaz2002@yahoo.com