ہندوستان میں مخطوطات

ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی
اسلام میں علم ، مطالعہ ، تحقیق اور متاع لوح و قلم کی بڑی اہمیت ہے ۔ علم کو عبادت کا درجہ دیا گیا ہے ۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ علم میں زیادتی عبادت میں زیادتی سے بہتر ہے ۔ علم کا ایک شعبہ مخطوطات کی تحقیق بھی ہے ۔ امام اوزاعی نے لکھا ہے کہ کثرت تصنیف اس امت کا اعجاز ہے ۔ یہ تصنیفات مخطوطات کی شکل میں آج بھی موجود ہیں ۔ محققین نے بے شمار مخطوطات کی تحقیق و تدوین کی ہے اور ان کو زیور طبع سے آراستہ کیا ہے اور بے شمار مخطوطات ابھی کتاب خانوں میں بند ہیں اورکسی دست تحقیق و تدقیق کے منتظر ہیں ۔ تحقیق کے میدان میں مستشرقین کی کاوش کا بھی اعتراف کرنا چاہئے اور سچ یہ ہے کہ یہ جدید فن ان ہی کے ذریعے مسلمان محققین تک پہنچا اور عام ہوا ۔ مشہور محقق صلاح الدین المنجد مغرب کے معیار اور اصول تحقیق کو درست اور قابل ترجیح قرار دیتے ہیں اس کے مقابلہ میں عبدالسلام ہارون نے مشرقی اور قدیم بعض اصول تحقیق کی وکالت کی ہے ۔ دونوں کے نقطہ نظر میں کسی قدر فرق ہے ۔ مستشرقین نے ابتداء میں اپنے مقاصد کے تحت عربی زبان سیکھی ، عربی کتابیں پڑھیں اور ان کی تحقیق کی اور پھر ان کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان میں شکوک پیدا کرنے کی کوشش کی ، مقصد یہ تھا کہ اسلام کے سیل رواں کو روکا جائے  ۔بعد میں بعض مستشرقین کے یہاں معروضیت بھی پیدا ہوئی یعنی تعصب میں کمی آئی ، پریس کی ایجاد کے بعد مخطوطات کو تحقیق و تدوین کے بعد شائع کیا جانے لگا ، اس طرح سے علم سینہ علم سفینہ بن گیا اورہر خاص و عام تک ان کتابوں کی رسائی ہوگئی ۔ حاجی خلیفہ کی کشف الظنون ابن الندیم کی الفہرست زمخشری کی المفصل علامہ ذہبی کی تذکرہ الحفاظ ابن ہشام کی السیرۃ النبویۃ ابن خلکان کی وفیان الاعیان یاقوت الحموی کی معجم البلدان وغیرہ کی ایڈیٹنگ سب مستشرقین کے کارنامے ہیں ۔

کارل بروکلمان کی تاریخ ادب عربی میں دنیا میں پھیلے ہوئے مخطوطات کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے ۔ فواد سزگین کی تاریخ التراث العربی میں بھی مخطوطات اور مراجع کا ذکر شرح و بسط سے کیا گیا ہے ۔ عرب ملکوں میں جب طباعت کا دور شروع ہوا اور چھاپہ خانہ قائم ہونے شروع ہوئے تو تحقیق اور تدوین کادور بھی شروع ہوا اور عرب علماء بھی مخطوطات کی تدوین کا کام کرنے لگے ۔ رفاعہ طہطاوی کے ساتھ تحقیق و تدوین کا کام کرنے والوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی ۔ دارالکتب المصریہ نے بھی مخطوطات کی فہرست شائع کی ، مختلف کتاب خانوں نے اپنے اپنے مخطوطات کی مبسوط فہرستیں شائع کی ۔ اس طرح  تحقیق اور مخطوطہ شناسی کا فن پروان چڑھنے لگا ۔ مخطوطہ شناسی اور تحقیق کے لئے زبان و ادب میں مہارت و موضوع سے پوری مناسبت اور مخطوطہ کے مختلف نسخوں کا علم اور تقابلی مطالعہ لازمی شرط ہے ۔ اصل مقصد یہ ہے کہ متن کو اصلی اور حقیقی صورت میں پیش کیا جائے ، اگر وہ قلمی نسخہ ہاتھ آجائے جو بخط مؤلف ہو تو وہ اسیس نسحہ ہوگا ورنہ قدیم ترین نسخہ کو اساسی نسخہ بنایا جاتا ہے اور پھر تحقیق و تدوین کے لئے اسی کو معیار بنایا جائے گا ۔ مخطوطہ کے مختلف نسخوں میں وہ نسخہ سب سے بہتر ہوگا جو کامل ہو اور جو اغلاط سے پاک ہو ۔

ہندوستان کی عربی فارسی مخطوطات کے اعتبار سے پورے عالم اسلام میں شہرت ہے  ،کہا جاسکتا ہے کہ ’’دفن ہوگا نہ کہیں ایسا خزانہ ہرگز‘‘ ۔ یہ مخطوطات جب تک محقق ہو کر منظر عام پر نہ آجائیں ان کی حیثیت ایک طرح سے دفینہ کی ہے ۔ ان دفینوں اور نگینوں کو تحقیق کرکے وقف خاص و عام کردینے کی ضرورت ہے ۔ اس لئے مخطوطات کی تدوین کی ٹریننگ دینے اور اس علمی اور تحقیقی ذوق کو عام کرنے اور محققین کی قدر افزائی کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔ افسوس ہے کہ یہ کام ہمارے علمی اداروں میں ابھی تک ناقدری کا شکار ہے ۔ جب عالم اسلام پر تاتاریوں کی یورش ہوئی تھی اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی مستحکم حکومت قائم تھی  ۔اسلامی ملکوں سے بیشمار علماء اور مصنفین اپنی علمی کتابوں اور مخطوطات کو اور علمی جواہر پاروں کو سینوں سے لگائے ہوئے ہندوستان پہنچے تھے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے کتاب خانے مخطوطات کی بے بہار ثروت سے نہال اور مالا مال ہیں ۔ حیدرآباد ، عظیم آباد ،رام پور ، علی گڑھ ، ٹونک ، کلکتہ اور دوسرے شہروں کے کتاب خانوں میں مخطوطات کے ذخائر ہیں جو کسی محقق کے دست ہنرمند اور مرد خردمند کے منتظر ہیں اور زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ ’’مردے از غیب بروں آیدوکارے بکند‘‘ لیکن ہندوستان کے بعض کتاب خانوں میں مخطوطات کے سرقے اور ان کی اسمگلنگ کے جو واقعات پیش آئے ہیں ان کی وجہ سے مخطوطات کی نقل حاصل کرنے کے قوانین سخت ہوگئے ہیں اور مخطوطات کی پوری نقل حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا ہے اور تحقیق کا کام راہ پُرخار بن گیا ہے ۔

تحقیق دراصل متن کو تصویب و تصحیح کے بعد منظر عام پر لانے کا نام ہے ۔ اس کام میں متن کے مختلف نسخوں کا تقابلی مطالعہ کرنا پڑتا ہے اور متن کو تحریف اور تصحیف سے پاک کرنا پڑتا ہے ۔ الحاقات کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے اور مختلف رسم خط پڑھنے میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے ۔ کیونکہ تمام مخطوطے ایک ہی رسم خط میں نہیں ہوتے ہیں اور پھر ہر عہد کا رسم خط الگ ہوتا ہے ۔ اگر نسخہ خوش خط لکھا ہوا نہ ہو تو دشواریاں دوچند ہوجاتی ہیں اور مخطوطے کا محقق قدم قدم پر دشواریوں کے خارزار سے گزرتا ہے اور اگر کوئی نسخہ شکست و ریخت اور کرم خوردگی کا شکار ہے تو محقق کو تحقیق کے سفر میں خطرات اور مصائب کو انگیز کرنا پڑتا ہے ۔ مخطوطے کو پڑھنے کے لئے بہت زیادہ مشق و مزاولت کی ضرورت ہے ۔ اسی لئے سا وادی پُرخار میں کوئی آسانی سے آنے کی ہمت نہیں کرتا ہے ۔ اسی طرح ایک محقق کو حواشی تحریر کرنے پڑتے ہیں ۔حواشی میں متن کے الفاظ کی وضاحت کرنی پڑتی ہے ، مختلف نسخوں کے درمیان اگر فرق ہو تو وہ بھی بیان کرنا پڑتا ہے ۔ اگر محقق جس مخطوطے پر کام کررہا ہے اس کا کوئی حصہ ناقص ہو تو دوسرے نسخوں کو سامنے رکھ کر اس کی تکمیل کرنی پڑتی ہے ، اس کا ذکر اسے حاشیے میں کرنا پڑتا ہے ۔ املا درست کرنا ہوتاہے اور رموز اوقاف کا لحاظ کرنا پڑتا ہے ۔ مقدمہ میں مخطوطے کی اہمیت اجاگر کرنی پڑتی ہے اگرقرآن کی آیتیں اور حدیثیں یا اشعار یا اقوال مخطوطے میں ہوں تو ان کے لئے مصادر اور مراجع کی طرف رجوع ہونا پڑتا ہے ۔ اماکن و اشخاص کا تذکرہ اگر ہے تو ان کا تعارف بھی لکھنا ہوتا ہے ۔ تعیین زمانہ کے لئے تاریخ و سیر کی کتابوں کا کھنگالا جاتا ہے  ، مشکل اور مغلق الفاظ اور اصطلاحات کی حاشیے میں تشریح بھی ایڈٹ کرنے والے کی ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اگر کسی ناشر کے پاس کسی معاصر مصنف کا کوئی نیا مخطوطہ آتا ہے جسے شائع کرنا ہے تو پیراگراف کو گھٹا بڑھانا زبان و بیان کو بہتر بنانا ، تکرار کے عیب کو دور کرنا یہ سب محقق کی ذمہ داری ہے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحقیق و تدوین کا کام کس قدر مشکل اور نازک ہے اور اس کے لئے کس قدر علمی صلاحیت درکار ہے ۔ یہ کام بہت محنت اور دیدہ ریزی کا طالب ہے ۔ بہت باریک بینی اور دقت نظری کا طلبگار ہے ۔ اس کام میں تمام ذہنی توانائیوں کو بروئے کار لانا ہوتا ہے ۔ یہ چونٹیوں کی طرح شکر کے دانے جمع کرنے کا کام ہے ۔ یہ بادصبا کی طرح گل کترنا ہے شبنم کی طرح پھولوں کو نہلانا ہے یہ عروس نو کو آراستہ کرنا ہے اور اس کی حنا بندی کرنا ہے ۔ یہ ایک پوشیدہ گنج گرانمایہ کو علماء اور ارباب ذوق تک پہنچانا ہے ۔
مخطوطہ کسی زبان کا ہو وہ جتنا زیادہ قدیم ہوگا اس کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ ہندوستان میں جو لوگ تحقیق و تدوین میں مشہور ہوئے ان میں امتیاز علی خان عرشی ، حافظ محمود خان شیرانی ، قاضی عبدالودود ، ڈاکٹر حمید اللہ ، پروفیسر عبدالمعید خان ، مولانا ابوالوفاء افغانی ، مولانا حبیب الرحمن اعظمی ، عبدالعزیز میمن ، پروفیسر نثار احمد فاروقی ، پروفیسر مختار الدین آرز اور محی الدین قادری زور کا نام آتا ہے ۔ عربی مخطوطات کی تحقیق کے لئے عربی زبان اور قواعد سے واقفیت اور جدید دور کے تحقیقی اور علمی طریقوں سے آشنائی ضروری ہے ۔

مخطوطات کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ پہلے پتلی کھال پر کتابت ہوتی تھی ۔ ہارون رشید (متوفی193) کے زمانے تک کھال پر قرآن مجید کے نسخے لکھے جاتے تھے ۔ کھال کی دباغت کی جاتی تھی ۔ کھال کے ساتھ درختوں کی چھال کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جانے لگا ۔ پیشہ ور کاتبوں کا طبقہ وجود میں آیا جن کو نساخین یا وراقین کہا جاتا تھا اس طرح خوش نویسی کے فن نے بھی ترقی کی ۔ کتابیں جب کثرت سے لکھی جانے لگیں تو پھر کتاب خانے وجود میں آئے جہاں ہاتھ سے لکھی ہوئی کتابیں رکھی جاتی تھیں ۔ اکثر مخطوطات اسی دور کی یادگار ہیں ۔ اندلس کے بعض کتاب خانوں کے بارے میں آتا ہے کہ ان میں ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں تھیں ۔ بغداد کے دار الحکمت مصر کے دارالعلم اندلس کے مکتبہ قرطبہ شام کے مکتبہ دمشق اور مکتبہ نظامیہ کا نام قدیم عہد کے مشہور کتاب خانوں میں ہوتا ہے ۔ ترکی میں غالباً سب سے زیادہ مخطوطات ہیں۔ ڈاکٹر حمید اللہ نے ترکی کو مخطوطات کا دارالخلافہ قرار دیا تھا ۔ پہلے اعلی علمی ذوق کے لوگ اچھی اور پسند کی کتابوں کو نساخین سے نقل کرواتے تھے ۔ ایک ایک کتاب کی کئی کئی نقلیں تیار کی جاتی تھیں اور مختلف کتاب خانوں میں ان کو محفوظ کیا جاتا تھا ۔ صحت متن کا خاص خیال رکھا جاتا تھا ۔ آج بہت سے مخطوطات کے مختلف نسخے دنیا کے مختلف کتاب خانوں میں اسی لئے پاتے جاتے ہیں ۔ یہ مخطوطات ہماری میراث گم گشتہ ہیں ، متاع عہد رفتہ ہیں اور سرمایہ تاریخ ہیں اور دولت بے بہا ہیں اور علمی اداروں کی طرف سے نگاہ التفات کے منتظر ہیں ۔
آج چونکہ مخطوطات شناسی اور تحقیق کا کام ناقدری کا شکار ہے ، اس لئے اہل علم و ہنر نے اس کام سے صرف نظر کرلیا ہے اور یہ کہنے لگے ہیں کہ ’’اس نے نظر جو پھیرلی ہم نے بھی جام رکھ دیا‘‘ اور جو محققین گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر ابھی تک ستائش کی تمنا اور صلہ کی پروا کئے بغیر باین ہمہ ناقدری اور ناسپاسی اس کام میں لگے ہوئے ہیں جیسے دائرۃ المعارف کے محققین جنہیں مصحین کہا جاتا ہے ، وہ دراصل علم اور تحقیق کی خاطر بڑی قربانی دے رہے ہیں اور معیار زندگی کی بلندی کی اس ریس میں اور دولت پرستی کی باد صرصر میں علم کا چراغ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ کیونکہ اسی محنت و جستجو سے شجر علم سایہ دار اور روکش بہار ہوتا ہے اور دانہ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے ۔ ان سے کوئی ان کا حال پوچھتا ہے تو جواب میں یہ کہتے ہیں ۔
اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے
لنگر سے روٹی ملتی ہے پانی سبیل سے