رام پنیانی
ملک میں فی الوقت ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں جہاں کمزور طبقات اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک گائے کے گوشت یا بڑے جانوروں کی غیر قانونی منتقلی کا بہانہ بناکر بے خوف لوگوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا اب ملک کے طول و عرض میں بچوں کے اغوا کے نام پر یا انسانوں کو ہجومی تشدد کے ذریعہ ہلاک اور شدید زخمی کیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم نے گجرات میں دلتوں کو گائو رکھشکوں کے ہاتھوں شدید زدوکوب ہوتے ہوئے دیکھا۔ ہماری آنکھوں نے وہ دردناک منظر بھی دیکھا جب گائوکشی کے نام پر چند دلت نوجوانوں کو برہنہ کرکے گائورکھشکوں نے ان کے جسموں پر کوڑے برسائے، دلتوں کو صرف ایک ہی مسئلہ در پیش نہیں ہے بلکہ انہیں ظلم و سستم کا نشانہ بنائے جانے کے پیچھے ذات پات کا امتیاز کارفرما ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں اعلی ذات کے ہندوئوں نے دلتوں کو نچلی ذات قرار دے کر ظلم و جبر کا نشانہ بنایا ہے۔ ملک میں محروم طبقات اور مذہبی اقلیتوں پر ہجومی تشدد کے جو واقعات پیش آرہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انہیں اوپر سے ان جنونی حرکات کی منظوری ملی ہے جس سے وہ حوصلہ پاکر بے قصور انسانوں کو اپنے پاگل پن کا نشانہ بنارہے ہیں۔ منیش شرما جیسے مرکزی وزرائ، دادری میں محمد اخلاق کے قاتلوں میں سے ایک ملزم کی آخری رسومات میں شرکت کی اب سابق مرکزی وزیر فینانس یشونت سنہا کے بیٹے جینت سنہا نے علیم الدین کی ہجومی تشدد میں ہلاکت کے مقدمہ کے ان ملزمین کا خیرمقدم کیا اور انہیں تہنیت پیش کی جنہیں ضمانت حاصل کرنے میں کامیابی ملی تھی۔ بہرحال اس قسم کے ناپسندیدہ اور قومی مفادات کو شدید نقصان پہنچانے والے طبقات میں ہیبت ناک حد تک اضافہ ہورہا ہے اور اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ عصمت ریزی کے واقعات کو فرقہ وارانہ موڑ دیا جارہا ہے۔ جبکہ عصمت ریزی چاہے وہ کسی مذہب یا ذات پات کی ماننے والی لڑکی یا خاتون کے ساتھ ہو ہندوستان کے روادار معاشرے میں انتہائی ناپسندیدہ عمل ہے۔ ایک جانب فرضی خبریں بڑی آسانی کے ساتھ پھیلائی جارہی ہیں دوسری طرف عصمت ریزی کرنے والے ملزمین کو سماجی تائید و حمایت حاصل ہورہی ہے۔ یہ کتنی شرم کی بات ہے کہ کھٹوا میں 8 سالہ کمسن لڑکی کی اجتماعی عصمت دری کیس میں اس وقت کے بی جے پی وزیر چودھری لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا نے اس پروگرام میں شرکت کی جس کا اہتمام ہندو ایکتا منچ نے ملزمین کی تائید و حمایت میں کیا تھا۔ ہندو ایکتا منچ کٹھوا عصمت ریزی کیس میں ملزمین کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کررہی تھی۔
اب مندرسور ایپ کیس میں اس واقعہ کو ایک مخصوص کمیونٹی کو نشانہ بنانے اور اس کے حوصلے پست کرنے غلط موڑ دیا جارہا ہے۔ ملزمین مسلم کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، مسلم گروپوں نے ایک بہت بڑا جلوس نکالا اور ملزمین کو عبرت ناک سزاء دینے کا مطالبہ کیا۔ جیوترآدتیہ سندھیا نے ملزمین کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے نکالے گئے جلوس میں شرکت کی جس کے شرکاء اپنے ہاتھوں میں مومی شمعیں تھامے ہوئے تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس جلوس اور جیوتر آدتیہ سندھیا کے بارے میں گمراہ کن اطلاعات پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا اور ایسے دکھایا گیا جیسے جیوتر آدتیہ سندھیا ملزمین کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہوںؤ اس جلوس کی تصاویر اور ویڈیوز میں فوٹو شاپ کے ذریعہ چھیڑ چھاڑ کی گئی تاکہ مسلمانوں کو خراب انداز میں پیش کیا جائے اور بھولے بھالے عوام پر یہ ظاہر کیا جائے کہ مسلمان عصمت ریزی کے ملزمین کی تائید و حمایت کررہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں نے ملزمین کو سخت سے سخت اور عبرت ناک سزاء دینے کا مطالبہ کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک پیام گشت کروایا گیا جس میں بتایا گیا کہ مندسور میں مسلمانوں نے جلوس نکال کر عصمت ریزی جیسے جرم کے مرتکبین کی رہائی کا مطالبہ کیا کیوں کہ قرآن غیر مسلم خواتین کی عصمت ریزی کی اجازت دیتا ہے (حالانکہ دین اسلام حالت جنگ میں بھی بوڑھوں، بچوں، خواتین مسلمانوں کی پناہ میں آنے والوں یہاں تک کہ سبز درختوں کے تحفظ پر کا حکم دیتا ہے)۔
مندسور احتجاجی جلوس میں مظاہرین نے جو پلے کارڈس تھامے ہوئے تھے اس پر یہ تحریر درج تھی ’’ہم بیٹیوں پر حملہ برداشت نہیں کریں گے، اس ظلم کو روکو‘‘ لیکن ٹوئٹر پر ایک پیام گشت کروایا گیا جس میں کچھ اس طرح تحریر تھی کہ NCRB رپورٹ نے ہندوستانی خواتین کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ہندوستان میں پیش آنے والے عصمت ریزی کے 95 فیصد واقعات میں ایکم ذب مسلمان ہوتا ہے ملک میں پیش آئے عصمت ریزی کے 84734 واقعات میں سے 81000 واقعات میں ایک مسلم ملزم ملوث رہا اور 90 فیصد متاثرہ خواتین یا لڑکیاں غیر مسلم ہیں اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کے ساتھ عصمت ریزی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس ٹوئٹ میں جو کچھ تحریر کیا گیا اس میں کوئی سچائی نہیں۔ NCRB (نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو) عصمت ریزی کے واقعات میں متاثرہ اور ملزم کے مذہب کا اندراج نہیں کیا گیا اس ٹوئٹ اور جوتر آدتیہ سندھیا کے بارے میں جاری کردہ خبر کی حقیقت Alt news نے کھول کر رکھدی ہے۔ نیوز پورٹل اس قسم کی جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی جڑ تک پہنچکر عوام کو حقیقت سے واقف کروانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے اس طرح وہ سماج کی عظیم خدمت کررہا ہے ان فرضی اور جھوٹی خبروں کو پھیلانے مقصد مذہبی اقلیتوں کے حوصلہ پست کرنا اور انہیں تشدد کا نشانہ بناینا ہے۔ یہاں ہم مظفر نگر فسادات کا تذکرہ کرسکتے ہیں جہاں ایک ایسی تصویر گشت کروانے سے بھیانک فساد پھوٹ پڑا جس میں دکھایا گیا کہ مسلم نظرآنے والا ہجوم دو نوجوانوں کو زدوکوب کررہا ہے۔ سوشل میلڈیا پر اسے ایسے پیش کیا گیا جیسے ہندونوجوانوں کو زدوکوب کیا جارہا ہے۔ حالانکہ وہ تصویر ہندوستان کی نہیں بلکہ پاکستان کے کسی مقام کی تھی جہاں عوام دو سارفین کو زدوکوب کررہے تھے۔
حال ہی میں حلقہ لوک سبھا کیرانہ کے ضمنی انتخابات میں مہا گٹھ بندھن کے امیدوار تبسم حسین نے بی جے پی امیدوار کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ اپنی کامیابی کے بعد انہوں نے پرزور انداز میں کہا کہ یہ سچائی اور مہا گٹھ بندھن کی جیت ہے اور ریاست و مرکز میں بی جے پی کی ہار ہے۔ ہر کوئی اپنے گھروں سے نکل آیا اور ہماری تائید و حمایت کی میں ان کا شکریہ ادا کرتی ہوں لیکن سوشل میڈیا اور ٹی وی چیانلس پر ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر ایسے پیش کیا گیا ’’یہ اللہ کی فتح اور رام کی شکست ہے‘‘ تبسم حسین سے منسوب اس غلط اور گمراہ کن بیان کو موافق بی جے پی کے فیس بک صحافت پر پوسٹ کیا گیا جن میں یوگی آدتیہ ناتھ کا فیس بک صفحہ بھی شامل ہے، ٹرو انڈین نے یکم جون کو اسے پوسٹ کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کثیر تعداد میں اسے شیر کیا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ حالیہ عرصہ کے دوران بی جے پی نے جان بوجھ کر سوشل میڈیا کو فرقہ پرستی کی آلودگی سے آلودہ کیا ہے اور اس کے لیے اس نے ہزاروں افراد کی خدمات حاصل کی ہیں جنہیں سوشل میڈیا پر بی جے پی کے حق میں اور اپوزیشن جماعتوں سے لے کر مذہبی اقلیتوں کے خلاف پروپگنڈہ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ سواتی چترودیدی نے اپنی کتاب i am a Troll میں بی جے پی کی اس ڈیجٹل آرمی کی خفیہ دنیا کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کتاب کے ذریعہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عام ہندوئوں میں مسلمانوں اور مسلم حکمرانوں کے تئیں نفرت پیدا کرنے اس قسم کا پروپگنڈہ شروع کیا گیا اور بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہقرون وسطی میں مسلم بادشاہوں نے ہندوئوں کی منادر منہدم کی اور یہ سب کچھ ان لوگوں نے اسلام پھیلانے بڑے بڑے خاندان تشکیل دینے ایک سے زائد شادی کرنے اور دہشت گردی وغیرہ کے لیے ایسا کیا ہے۔ اب یہ مہم خطرناک موڑ اختیار کرگئی کیوں کہ اس میں فرقہ وارانہ نظریات کے تربیت پائے عناصر شامل ہوگئے جس کے نتیجہ میں سوشل میڈیا پر جان بوجھ کر بھیانک انداز میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہا ہے۔ (افسوس اس بات پر ہے کہ یہ سب کچھ قانون کی نظروں کے سامنے کیا جارہا ہے)
اس بات کی اطلاعات بھی ہیں کہ مجوزہ عام انتخابات میں بی جے پی انتخابی فوائد حاصل کرنے کی خاطر اپنے لاکھوں والنٹیرس کو سوشل میڈیا کا استعمال سکھانے کا منصوبہ بنارہی ہے مگر ہر ہندوستانی کو یہ حقیقت جان لینی چاہئے کہ ملک میں بڑھتی نفرت ایک عنصریت کی شکل اختیار کرہی ہے اور وہ کنٹرول سے باہر ہوگئی ہے۔
ان حالات میں ہم نفرت پھیلانے کی مہم میں شدت کے لیے صرف سوشل میڈیا کو ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں؟ سوشل میڈیا پر کنٹرول اور اس کے ذریعہ پھیلائے جانے والے نفرت انگیز پیامات کی مزاحمت کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا حقیقت میں ایک بااثر میڈیا ہے اس پر کچھ پابندیاں اور شرائط عائد کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ Alt News جیسے میکانزم کو زیادہ سے زیادہ مقبول عام بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جھوٹ پھیلانے والے جھوٹوں کا منہ کالا کیا جاسکے۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ٹوئٹر نے سات کروڑ فرضی اکائونٹس بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہمیں سوشل میڈیا پر مخصوص مذہب کے ماننے والوں کے بارے میں غلط باتیں اور نفرت پھیلانے والوں کے جواب میں پیار و محبت کے پیام پھیلانے ضرورت ہے تب ہی ہمارے معاشرہ میں تیزی کے ساتھ شرانت کرجانے والے فرقہ پرستی کے زہر کا توڑ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں سچائی پھیلانے اور پیام امن کو موثر طور پر پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے یہاں فیصل خان جیسے جہدکار ہیں جو اپنی خدائی خدمت گارکے ذریعہ امن مارچ نکالتے ہیں اور ہرش مندر (پیغام محبت) کے ذریعہ ہجومی تشدد میں مارے جانے والے افراد کے ارکان خاندان سے ملاقات کرتے ہوئے انسانیت کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ دوستی کا ماحول پیدا کررہے ہیں۔
ایودھیا سے تعلق رکھنے والے مہنت پوکال کشور شرن شاستری اپنے امن مارچوں کے ذریعہ سماج کے مختلف طبقات تک پہنچ کر انہیں امن و رواداری کا پیام دے رہے ہیں۔ ان کی یہ کوششتشہیر سے دور ہے۔ اس طرح کی کوشش برقرار رکھنے اور ان میں وسعت دیئے جانے کی ضرورت ہے۔