عقیل احمد
ان خبروں کے دوران کہ کوہ ہمالیہ کے سلسلہ کے چند حصوں میں ایک زبردست زلزلہ کا وقت آچکا ہے ۔ ہندوستانی سائنسدانوں کا ایک گوشہ کہتا ہے کہ کوئی غیر معمولی ارضیاتی سرگرمی یا سطح زمین پر تبدیلیوں میں غیر معمولی اضافہ کا شمالی مشرقی ہند میں کوئی سراغ نہیں ملا ہے ۔ علاوہ ازیں وہ نشان دہی کرتے ہیں کہ سلسلہ کوہ ہمالیہ میں یکے بعد دیگرے مسلسل دو بڑے زلزلے نہیں آئے ہیں۔ نیپال میں 25 اپریل کے طاقتور زلزلہ نے جس کی شدت زنجیر پیماے پر 7.9 ریکارڈ کی گئی ہے ہزاروں افراد کو ہلاک کردیا اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلائی ہے ۔ زلزلہ کے جھٹکوں سے ہپندوستان اور تبت میں بھی جانی نقصان ہوا اور نقصانات پہنچے ہیں ۔ 2500 کیلومیٹر طویل سلسلہ کوہ ہمالیہ شمال مغرب میں کشمیر سے لے کر شمال مشرق میں اروناچل پردیش تک پھیلا ہوا ہے اور ارضیاتی اعتبار سے ’’بہت سرگرم‘‘ ہے ۔ گاندھی نگر کے ادارہ برائے ارضیاتی تحقیق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ارضیاتی پرتوں کی نقل و حرکت وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دباؤ پیدا کرتی ہے اور علاقہ کو دہلادیتی ہے جس کے نتیجہ میں سطح میں شگاف پیدا ہوجاتے ہیں ۔ اگر دباؤ مرتکز ہوجائے تو ہر 150 تا 200 کیلومیٹر کی پٹی 2500 کیلومیٹر طویل سلسلہ ہمالیہ میں 150 تا 200 سال کی مدت میں ایک بلند شدت کے زلزلہ کا شکار ہوسکتی ہے ۔تاریخی معلومات کی بنا پر کہاجاتا ہے کہ اتراکھنڈ یا آسام میں زلزلہ کا وقت آچکا ہے لیکن دیگر اشاروں سے کسی غیر معمولی سرگرمی کا پتہ نہیں چلتا ۔
اعداد و شمار اور زلزلوں کی تاریخی فہرست سے پتہ چلتا ہے کہ 8 یا اس سے زیادہ شدت کے آسام یا اتراکھنڈ میں زلزلہ کا وقت آچکا ہے ۔ تاہم یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ایسا آج ہوگا یا اب سے 50 سال بعد کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ دباؤ کا ارتکاز کہاں ہے ۔اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کھنچاؤ کی حد ختم ہوچکی ہے اور نہ یہ کہ کب ختم ہوئی ہے ۔ آئی ایس آر کے سائنسداں اے پی سنگھ نے کہا کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ ارضیاتی سرگرمی میں کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا ہے اور جی پی ایس (گلوبل پوزیشننگ سسٹم ۔ عالمی تعین مقام کا نظام) نٹ ورک پورے شمال مشرقی ہند میں پھیلا ہوا ہے لیکن اس نے حالیہ برسوں میں قشر ارض کی ساخت میں غیر معمولی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے ۔ چنانچہ بڑے پیمانہ پر زلزلہ آنے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا ۔
امریکی ارضیاتی سروے کے بموجب قشر ارض کی ساخت میں تبدیلی زمین کی سطح کے نیچے پرتوں کی طاقت سے سطح زمین میں تبدیلی کی نشان دہی کرتی ہے ۔ پرتوں کی طاقت قشر ارض میں مرتکز ہوچکی ہے اور اس کے زیر اثر زلزلے آسکتے ہیں ۔ اس لئے ساخت میں تبدیلی کو اور اس کے کوتاہوں یا خامیوں پر اثرات سمجھنا ضروری ہے تاکہ پتہ چلایا جاسکے کہ کونسی تبدیلیاں اگلا زلزلہ لاسکتی ہیں لیکن سنگھ کہتے ہیں کہ موجودہ ٹکنالوجی اس پیش قیاسی میں مددگار نہیں ہے کہ اگلا زلزلہ کب آئے گا ۔
ماضی کا مشاہدہ ہے کہ مابعد جھٹکے اصل جھٹکوں کی بہ نسبت کم شدت کے ہوتے ہیں ۔ دوسری بات یہ کہ سلسلۂ کوہ ہمالیہ میں دو شدید زلزلے ایک دوسرے کے فوری بعد نہیں آئے ۔ چنانچہ یہ خبر کہ ایک بڑا زلزلہ جلد ہی آئے گا سائنسی اعتبار سے بے بنیاد ہے ۔ آئی ایس بی کی ایک اور سائنسداں پلسی چودھری نے وضاحت کی ۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ میں تین قابل توجہ پٹیاں ہیں اور تمام کی تمام نوعیت کے اعتبار سے ارضیاتی ہیں ۔ نیپال کا زلزلہ اہم قابل توجہ احاطہ سے وجود میں آیا تھا ۔ سینئر سائنسداں سنکر کمارناتھ نے آئی آئی ٹی کھرگپور میں کہا کہ سلسلہ کوہ ہمالیہ کے زلزلے شدید ہوتے ہیں ۔ اگر آپ سلسلہ کوہ ہمالیہ کا جائزہ لیں تو بڑے پیمانہ پر زلزلے اور عظیم ترین سے بھی عظیم زلزلے اب بھی ممکن ہیں ۔ جب بھی کوئی زلزلہ آئے یہ تقریباً کئی میٹر تک اثر انداز ہوتا ہے ۔ یہ وسیع شدت (تقریباً 8) کے زلزلہ کی صورت میں ہوتا ہے ۔ سلسلہ کوہ ہمالیہ میں 9 شدت کا زلزلہ پیدا کرنے کی بھی قوت ہے ۔ ناتھ نہ کہا کہ گوہاٹی اور سری نگر دو ایسے مقامات ہیں جہاں تباہ کن زلزلے آنے کا امکان ہے ۔ 36 دیگر شہر بھی زلزلوں کے اعتبار سے مخدوش ہیں ۔ حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق گوہاٹی اور سری نگر اس زمرے میں شامل ہیں جو ’’انتہائی حساس علاقہ‘‘ کہلاتا ہے ۔ بیورو آف انڈین اسٹینڈرڈس کے جاری کردہ نقشہ کے مطابق یہ زون ٹی وی میں آتے ہیں ۔ یہ نقشہ ارضیاتی حلقوں کا ہے ۔ اسکا حوالہ ترقی انتظامیہ برائے آفات سماوی میںبھی دیا گیاہے ۔ دیگر 30 شہر ’’اوسط شدت کے حلقہ‘‘ یا حلقہ III کے تحت آتے ہیں ۔