ہندوستان میں شراب نوشی سے ہر سال لاکھوں اموات

ایم اے حسیب
ہندوستان بھر میں نقلی شراب کی تیاری اور اس کی فروخت عام ہے ۔ ساتھ ہی شراب کی لعنت میں مبتلا ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔حکومتیں اور سرکاری ادارے دعوے کرتے ہیں کہ وہ نقلی شراب کی تیاری اور اس کی فروخت کو روکنے کیلئے ممکنہ اقدامات کررہے ہیں، لیکن ان کے اقدامات کا اثر کہیں نہیں دکھائی دیتا بلکہ ملک میں ایسے کئی گاؤں ہیں جہاں ہر روز اس قسم کی شراب نوشی کرتے ہوئے نوجوان اور بوڑھے موت کے منہ میں جاپہنچتے ہیں ۔ شراب نوشی کی لعنت کا شکار ہوکر فوت ہونے والوں کی تعداد ویسے تو ملک کی ہر ریاست میں اچھی خاصی ہے لیکن بہار کے بعض دیہاتوں میں شراب نوشی کی لعنت نے بے شمار خاندانوں کو متاثر اور درجنوں خواتین کو بیوہ کردیا ہے ۔ بہار میں ایک ضلع سہسرام ہے جس میں کروندیا نامی ایک گاؤں ہے ۔ اس گاؤں میں ہر طرف اداسی پائی جاتی ہے ۔ وہاں کے گھروں کے در و دیوار سے واضح طور پر غم جھلکتا ہے ۔ اس گاؤں کی ہر پانچ عورتوں میں سے ایک عورت بیوہ ہے اور اس کی بیوگی کی سب سے بڑی وجہ شراب کی لعنت ہے ۔گاؤں میں بوڑھے جوان سب شراب پیتے ہیں اور اسی شراب کے باعث زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔کروندیا گاؤں میں خواتین اپنے شوہروں اور بیٹوں کے شراب کی لت میں مبتلا ہونے پرکافی فکر مند ہیں ‘ ان خواتین نے گاؤں میں شراب نوشی کے خلاف جدوجہد کا آغاز بھی کیا لیکن انہیں تباہی و بربادی سے کوئی نہیں بچا سکا ۔ گاؤں اوراس کے اطراف و اکناف میں شراب کی بھٹیاں ہیں جہاں بنا کسی روک ٹوک کے شراب تیار ہوتی ہے ۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے حکام اور سیاستداں سب کے سب خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ گاؤں کے اکثر گھروں میں مرد اس قدر شراب پیتے ہیں کہ شراب پیتے پیتے ہی ان کی موت ہوجاتی ہے ۔ کروندیا گاؤں میں 50سال کلیانی کنور کا خاندان بھی شراب کی لت سے متاثر ہے ۔ اس خاتون کی شادی صرف 10سال کی عمر میںہوئی تھی ۔ اس کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کی خوشحالی کے خواب دیکھے تھے لیکن کلیانی کنور کے شوہر نے شراب نوشی کے ذریعہ نہ صرف اپنی بلکہ سارے ارکان خاندان کی زندگیاں تباہ کردیں ۔ اب تو اسکے بیٹے بھی سارا دن شراب میں دھت رہتے ہیں ۔ کلیانی اپنے خاندان کی تباہی و بربادی دیکھ کر پریشان ہے ۔

اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ کرے تو کیا کرے ؟ اس کے خیال میں ان مردوں کے پیٹ میں اناج تو نہیں جاتا ‘ ہاں ہمیشہ شراب ہی جاتی ہے ۔ ایسے میں ان لوگوں کی موت نہیں تو اور کیا ہوگی ۔ کلیانی کو خدشہ ہیکہ ایک دن اس کے گھر کے سارے مرد شراب نوشی کرتے کرتے مرجایں گے ۔ یہ صرف کلیانی کے گھر کی حالت نہیں بلکہ کروندیا گاؤں کے ہر گھر میں ایسا ہی ماحول ہے ۔ خواتین کی ایک غیر سرکاری تنظیم ترقی پسند خواتین فورم نے جاریہ سال کے دوسرے ماہ یعنی فبروری میں کروندیا گاؤں میںایک مطالعاتی جائزہ کا اہتمام کیا جس پر پتہ چلا کہ کروندیا میں 500خاتون رائے دہندے ہیں جن میں سے زائد از 100خواتین بیوہ ہیں اور ان تمام کے شوہروں کی اموات شراب نوشی کے باعث ہی ہوئی ہیں ۔ فورم کی صدر نیتا کے مطابق گذشتہ دو برسوں سے ان کی تنظیم اس علاقہ میں کام کررہی ہے ۔ ان کی فورم کے جہد کاروں کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ گاؤں میںبیواؤں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ جب اس کی وجہ معلوم کی گئی تو یہ انکشاف ہوا کہ علاقہ میں شراب نوشی ‘ فاقہ کشی کے باعث مرد بہت جلد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ پتھر توڑنے سے پیدا ہونے والی دھول بھی اموات کی ایک اہم وجہ ہے ۔ اس گاؤں کے بارے میں مشہور ہیکہ پڑوس کے گاؤں والے گاؤں کے لڑکوں سے اپنی لڑکیوں کے رشتے کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔

گاؤں میںراجدھانی دیوی نامی ایک خاتون نے اس رجحان پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ اب گاؤں کے لڑکوں کو لڑکیاں دینے کیلئے کوئی تیار نہیں ۔اطراف و اکناف کے گھروں میں رہنے والوں کا کہنا ہیکہ اگر کروندیا گاؤں میں بیٹیاں بیاہی گئیں تو وہ جلد سے جلد بیوہ ہوجائیں گی ‘ جس کے نتیجہ میں ان کی زندگیاں اجیرن ہوجائیں گی ۔ ایسے میں کون اپنی بیٹیوں کو تباہی و بربادی کے دلدل میںجان بوجھ کر ڈھکیلے گا ‘ حد تو یہ ہیکہ گاؤں میں جو خواتین حاملہ ہیں وہ بیٹوں کی بجائے بیٹیوں کے پیدا ہونے کی تمنا رکھتی ہیں ۔ ان کے خیال میںبیٹی پیدا ہوگی تو کم از کم شراب کے نشے میں دھت پڑی نہیں رہے گی ۔ گاؤں کی خواتین پتھر توڑتی ہیں جس سے انہیں بہت قلیل آمدنی ہوتی ہے ‘ ایسی کئی خواتین ہیں جن کی عمریں 25-30 سال ہیں اور وہ 3تا 4بچوں کی مائیں ہیں ۔ شوہر شراب نوشی کے باعث مرچکے ہیں ‘ اپنی اور بچوں کی بقاء کیلئے وہ پتھر توڑنے کا کام کرتی ہیں جس کا انہیں بہت ہی کم معاوضہ ملتا ہے ۔

حیرت اور افسوس کی بات یہ ہیکہ حق معلومات کے تحت حاصل کردہ معلومات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکومت نے سال 2013-14ء کے دوران ضلع سامارام میں 117کروڑ روپئے بطور ٹیکس آمدنی حاصل کی اوریہ ٹیکس شراب پر لیا گیا ۔ کروندیا کی طرح اڑوس پڑوس کے گاؤں میں بھی شراب نے متعدد خواتین کو بیوہ بنا دیا ہے ۔ شراب پی کر مرد صرف نشے میں دھت نہیں رہتے بلکہ اپنی بیویوں کو طرح طرح کی تکالیف بھی دیا کرتے ہیں ۔ 25سالہ روبی دیوی کا شوہر ہر روز شراب میں دھت ہوکر آتا اور پھر اپنی بیوی کو برہنہ کر کے اس کے سارے جسم پر سوئی چبھوتا تھا ۔ بیوی نے اس کا ظلم برداشت کیا لیکن ایک دن اس کے شوہر نے جب شراب نوشی کیلئے اس کی ساڑی فروخت کردی تب وہ حرکت میںآئی اورپھر پولیس میں اپنے ہی شوہر کے خلاف شکایت درج کروائی ۔ اس گاؤں کے حالات کے بارے میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے لیکر تمام اعلیٰ عہدیدار واقف ہیں لیکن کسی نے بھی یہ اخلاقی جرات نہیں کہ وہ گاؤں میں موجود شراب کی بھٹیوں اور دکانات کا خاتمہ کرتے ہوئے انسانی زندگیوں کے اتلاف کا سلسلہ روکیں ۔ دوسری طرف ہندوستان میں شراب پی کر گاڑی چلانے اور پھر حادثات کا شکار ہوکر مرنے والوں کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔ صرف ایک ریاست اڈیشہ میں ہر سال تقریباً 3000 اموات ان حادثات میں ہوتی ہیں جو شراب پی کر گاڑیاں چلانے کے باعث پیش آتے ہیں ۔ اس طرح اگر سارے ملک کا جائزہ لیا جائے تو شراب پی کر گاڑیاں چلانے سے متعلق حادثات میں سالاجنہ 90000 لوگ موت کا شکار ہوتے ہیں ۔ شراب کی لعنت کے باعث ہی عصمت ریزی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ قتل و غارت گری بھی شراب نوشی کا ہی نتیجہ ہے ۔ ہندوستان میں ہریانہ ‘ مدھیہ پردیش ‘ پنجاب اور گجرات میں شراب سب سے زیادہ تیار کی جاتی ہے ۔ شراب کے باعث ہر روز لاکھوں خاندان تباہ و برباد ہورہے ہیں لیکن شرم کی بات یہ ہیکہ حکومتیں ذبیحہ گاؤ اورگائے کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کرچکی ہے لیکن زندگیاں اجاڑنے اور لاکھوں ‘ کروڑوں خواتین کی بیوگی کا باعث بننے والی شراب پر امتناع عائد نہیں کیا جارہا ہے ۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی جماعتوں کے قائدین ہمیشہ غیر ضروری اور غیر اہم مسائل پر بکواس کرتے رہتے ہیں ۔ ان لوگوں کو انسداد شراف نوشی اور شراب پر پابندی عائد کرنے کیلئے کوئی مہم چلانے یا احتجاج کرنے کا خیال ہی نہیں آتا ۔