یہ سرزمین ہے چشتی ؒ کی اور گوتم کی
اس سرزمین پر وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہندوستان میں رحم دلی کا مظاہرہ
ہندوستان کوئی چھوٹا موٹا اور معمولی ملک نہیںہے۔ صدیوں پرانی تہذیبوں تمندوں اور زبانوں کا گہوارہ ہے۔ انصاف پسند عوام کا مرکز ہے اس لئے آج ممبئی سلسلہ وار بم دھماکوں کے ملزم کی حیثیت سے سزائے موت کا سامنا کرنے والے یعقوب میمن کی تائید میں ممتاز شخصیتیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں کسی بے قصور کی موت کا پروانہ جاری کیا جانا افسوسناک واقعہ کہلائے گا اسی لئے ہندوستانی معاشرہ سے وابستہ اور شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے و الی شخصیتوںنے یعقوب میمن کی سزائے موت کی مخالفت کی ہے اب سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ اور صدر جمہوریہ ہند پرنب مکرجی کو رحم کی درخواستوں پر نظر ثانی کرنے میں تعمیل کیوں ہورہا ہے ۔ آیا مرکز میں ایک کٹر فرقہ پرست پارٹی کی موجودگی نے قانون کو تنگ دست بنادیا ہے کہ وہ رحم کی درخواست پر غور کرنے سے گریزکرسکے ملک کی مختلف جیلوں میں ایسے خطرناک مجرمین محروم ہیں جن پر کئی افراد کے قتل کے الزامات ہیں ۔ راجیو گاندھی کے قاتل بھی محروس ہیں۔ سزائے موت دیئے جانے کے باوجود اس پر تعمیل نہیں ہورہی ہے۔ ہندو فرقہ پرستوں کے خلاف بھی عدالتوں کی کارروائی ایک مطلب کی حد تک محدود ہوچکی ہیں اس ملک میں جہاں دہشت گردی اور انسانی جانوں کے اتلاف والے واقعات کو محض سیاسی مقصد براری کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو وہاں قانون کا مطلب پر مبنی استعمال ہونا غیر یقینی نہیں ہوگا۔ یعقوب میمن پھانسی پر لٹکائے جانے کا مستحق ہے یا نہیں اس کا فیصلہ قانون کی عدالت کے فیصلہ کے تابع ہے مگر رحم کی درخواست کو نظر انداز کرنا انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والے افراد کیلئے تکلیف دہ ہے ۔ یعقوب میمن کی سزائے موت کے بارے میں سابق چیف جسٹس کاٹجو سے لیکر را کے سابق عہدیدار ولام بی رامن کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ قانون کو اندھا نہیں ہونا چاہئے ۔ دیگر معافی یافتہ گواہوں کی طرح یعقوب میمن کا کیس بھی غور طلب ہے کیونکہ ممبئی دھماکہ واقعہ کی تحقیقات کرنے و الے تمام آفیسرس کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ میمن نے تحقیقات کے معاملے میں ان کی ہر ممکنہ مدد کی تھی۔ بلا شبہ یعقوب میمن اس سازش کا حصہ ضرور تھا لیکن اس نے بم نصب نہیں کئے تھے بلکہ وہ ٹائیگر ممبئی کے مددگار کی حیثیت سے سرگرم تھا اس کے باوجود یعقوب نے ہندوستان آکر اپنی بے گناہی کا ثبوت دینے کی کوشش کی تھی اس کے عوض میں آج اسے ان ثبوتوں کی بنیاد پر جنہیں غیر درست متصور کیا جارہا ہے پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ کیا گیا ۔ واقعات اور حالات کی خبریں اتنی شور نہیں مچاتی جتنی ایک طبقہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان کو سزائے موت دینے کے معاملے میں قانون اور صدر جمہوریہ کی رحمدلی کو مظاہرہ کا موقع نہ دینے والی طاقتوں نے شور مچایا ہے۔ آخر ہندوستان میں کسی مسلم سزائے موت یافتہ قیدی کو پھانسی پر لگانے کی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے راجیو گاندھی کے قاتل اور 1993 کے دہلی دھماکوں کے مجرموں کی موت کی سزا کو حال ہی میں عمر قید میں تبدیل کی ہے ۔ ان مجرموں کی رقم کی اپیلوں پر غور کرنے کیلئے کئی سال درکار ہوئے جبکہ یعقوب میمن کو رحم کی اپیل کو فوری مسترد کردیا گیا ۔ اس قانونی کمزوریوں اور جانبداری کا نوٹ لیتے ہوئے ہندوستان کی ممتاز سماجی ‘سیاسی اور ادبی شخصیتوں نے صدر جمہوریہ سے درخواست کی ہے کہ وہ یعقوب میمن کی سزائے مومت کے فیصلہ کے معاملہ میں اپنی رحم دلی کو اولیت دیں کیونکہ یعقوب میمن کو پھانسی کی سزا ایک ایسے جرم کی دی جارہی ہے جس کا ارتکاب کسی اور نے کیا تھا ۔ کسی کا خون بہانے اور انسانوں کی قربانی دینے سے ہی ملک محفوظ ہوسکتا ہے تو ان تمام قاتلوں کو پھانسی دی جانی چاہئے جن پر خطرناک الزامات ہیں۔ ہندوستانی صحافت سے وابستہ کئی افراد نے یعقوب میمن کی سزائے موت کے تعلق سے یہی رائے قائم کی ہے کہ وہ بے قصور ہے اس لئے انہیں الزام سے بری کردیاجانا چاہئے ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے اور یہاں بے گناہوں کے حقوق کا تحفظ ہوگا لیکن حکومت ان کے ساتھ تفریق کرنے لگی ہے تو قانون کے حوالے سے انصافی بھی ہونے لگے گی ۔ سپریم کورٹ نے بعض دیگر کیسوں کے معاملہ میں اپنی رولنگ میں یہ بھی کہا تھا کہ کسی بھی شخص کو جلد بازی ‘پوشیدہ طور پر یا من مانی طریقہ سے پھانسی نہیں دی جاسکتی ہے۔ اس عدالت عالیہ کو یعقوب میمن کے خلاف سزائے موت کی تعمیل میں عجلت سے کام لیتے ہوئے دیکھ کر ہندوستان کی ممتاز شخصیتوں نے صدر جمہوریہ سے اپیل کی ہے تو اس اپیل پر غور کرنا صدر جمہوریہ ہند کے اختیارات اور رحم دلی پر منحر ہے ۔ اگر اس ساری دوڑ دھوپ کے بعد بھی یعقوب میمن کوپھانسی کی سزا دینے میں سیاسی مقصد براری کا عمل دخل ہوتا ہے تو اس سے ہندوستانی انصاف پسند عوام کے جذبات کو ٹھیس پہونچے گی۔