محمد ریاض احمد
کیا ہندوستان میں آئی ایس آئی ایس یا داعش کے ہمدرد پائے جاتے ہیں؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب پولیس اور انٹلی جنس ایجنسیاں یہاں تک کہ میڈیا ’ہاں‘ میں دے سکتا ہے اور دے بھی رہا ہے جبکہ آئی ایس آئی ایس کے ہمدرد ہونے کے الزام میں گرفتار مرد و خواتین کے والدین اور رشتہ داروں کے خیال میں وہ بے قصور ہیں۔ انگریزی میگزین ’دی ویک‘ میں ایک خصوصی رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں بہار سے تعلق رکھنے والی 29 سالہ یاسمین محمد زاہد پر توجہ مرکوز کی گئی۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ یاسمین پہلی ہندوستانی خاتون ہیں جس کے خلاف آئی ایس آئی ایس یا داعش سے مبینہ تعلقات کے جرم میں قومی تحقیقاتی ایجنسی NIA نے چارج شیٹ پیش کردی ہے۔ حالانکہ ستمبر 2015 ء میں انڈین اکسپریس میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی جن میں انکشاف کیاگیا تھا کہ ہندوستانی فوج کے ایک سابق لیفٹننٹ کرنل کی بیٹی آئی ایس آئی ایس میں شمولیت کی خواہاں تھی لیکن انٹلی جنس بیورو بتایا جاتا ہے کہ نے اس کی کونسلنگ کردی۔ عام طور پر ساری دنیا میں تاثر پایا جاتا تھا کہ داعش میں صرف مغربی ملکوں سے تعلق رکھنے والی خواتین اور لڑکیاں ہی شمولیت اختیار کررہی ہیں۔ ہندوستان میں بنیاد پرستی کے بڑھتے رجحان پر ایک طویل عرصہ سے گفتگو بحث و مباحث جاری ہیں۔ تحقیقاتی ایجنسیاں بطور خاص اس معاملہ میں جنوبی ریاستوں پر نظر رکھتی ہیں حالانکہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور ملک دشمن سرگرمیوں کے الزام میں اب تک جتنے بھی مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ان میں سے اکثر کو عدالتوں نے باعزت بری کردیا لیکن متعصب عہدیدار اپنے ناپاک منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے اور اپنے سینوں پر نام نہاد بہادری کے تمغے سجانے کی خاطر مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ و برباد کردیتے ہیں۔ دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں انھیں ماخوذ کرکے ان بے قصور نوجوانوں کے سارے خاندان کو پریشان و پشیمان کردیتے ہیں۔ ایک ایسا بھی وقت تھا جب دہشت گردی میں ماخوذ نوجوانوں کے رشتہ بالخصوص ماں با، بیوی بچے اور بھائی بہنیں انٹلی جنس بیورو اور اس کے عہدیداروں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ مسلمانوں میں آئی بی کی شبیہہ بہت زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ ایسے میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کا قیام عمل میں آیا اور ابتداء میں اس نے غیر جانبدار انداز میں کام بھی کیا جس سے بے قصور نوجوانوں اور ان کے ارکان خاندان کو راحت نصیب ہوئی۔ تاہم تین چار سال سے قومی تحقیقاتی ایجنسی کی غیر جانبداری پر بھی سوالات اُٹھائے جارہے ہیں۔ اگر حکومت کی کوئی بھی ایجنسی ملک میں امن و امان قائم کرنے حقیقی مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے اقدامات کرتی ہے تو ہر ہندوستانی کو بلا لحاظ مذہب و ملت اس کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ تاہم این آئی اے ، پولیس یا دوسری سرکاری ایجنسیاں بے قصور نوجوانوں کو قصوروار قرار دینے کی کوشش کرتی ہیں تو اس کے خلاف انصاف پسند عوام کو ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ڈٹ جانا چاہئے تاکہ کسی بے قصور نوجوان کو ناکردہ گناہ کی سزا نہ ملے اور اس کے ماں باپ، بھائی بہن، بیوی بچے متعصب و جانبدار عہدیداروں و عناصر کی شرپسندی سے محفوظ رہیں۔ بہرحال ہم بات کررہے تھے یاسمین محمد زاہد کی جن کے بارے میں این آئی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے پوچھ تاچھ کے دوران انکشاف کیاکہ کیرالا کے کاسکر گڑھ اور بالاکڈ اضلاع سے 22 افراد بشمول 13 مرد ، 6 خواتین اور تین بچے آئی ایس آئی ایس عراق اور ولایت خراساں، افغانستان میں شامل ہونے کے لئے روانہ ہوئے۔ واضح رہے کہ کیرالا پولیس نے یکم اگسٹ کو نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ سے یاسمین کو اُس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے شوہر عبدالرشید سے ملاقات کے لئے افغانستان روانہ ہونے والی تھی۔ جہاں تک عبدالرشید کا سوال ہے وہ کاسکر گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ مبینہ طور پر کیرالا کے مرد و خواتین کے ایک گروپ کے لاپتہ ہونے میں ملوث ہے۔ یہ گروپ مئی کے وسط اور جولائی کے پہلے ہفتہ میں غائب ہوا تھا۔ گزشتہ سال ستمبر میں این آئی اے کے عہدیداروں نے یاسمین سے پوچھ گچھ کی جس پر یاسمین نے بتایا کہ ان کے شوہر عبدالرشید نے اُن 22 مرد و خواتین اور بچوں کی عراق و افغانستان روانگی کا انتظام کیا تھا۔ بعد میں اسے آگاہ کیاکہ وہ لوگ جولائی کے پہلے ہفتہ میں افغانستان میں واقع آئی ایس آئی ایس کے زیر کنٹرول علاقہ میں پہنچ گئے ہیں۔ پوچھ تاچھ میں یاسمین نے نہ صرف عبدالرشید کی مبینہ دہشت گردانہ سرگرمیوں، تربیت اور رکروٹمنٹ (مبینہ دہشت گردوں کی بھرتیوں) کا انکشاف کیا بلکہ یہ بھی بتادیا کہ کیرالا کے مختلف مقامات پر خطبات کے ذریعہ کس طرح نوجوانوں کی ذہن سازی کی جاتی تھی۔ عبدالرشید سے اپنی شادی کے بارے میں یاسمین کا کہنا تھا کہ دونوں پہلی مرتبہ پیس انٹرنیشنل اسکول کاسر گڑھ میں ملے جہاں عبدالرشید پبلک ریلیشن آفیسر (پی آر او) اور وہ ایک ٹیچر کی حیثیت سے خدمات انجام دیا کرتی تھی۔ این آئی اے نے آئی ایس آئی ایس سے متعلق دو کیسوں میں جن میں مبینہ طور پر یاسمین کو ملوث بتایا گیا ہے قانونی کارروائی کے لئے مرکزی وزارت داخلہ سے اجازت بھی طلب کرلی ہے۔ این آئی اے کے مطابق یاسمین نے ہندوستان سے آئی ایس آئی ایس میں شامل ہونے کی بیرون ملک جانے میں مذکورہ گروپ کی مدد کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ دوسرے مقدمہ میں عبدالرشید اور اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کی اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کے ارشد قریشی کو ملوث بتایا گیا ہے جس نے مبینہ طور پر کیرالا سے تعلق رکھنے والی 36 سالہ اشفاق مجید اور ان کی اہلیہ کو داعش میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ وزارت داخلہ نے پہلے ہی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے بیرونی عطیات وصول کرنے پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہاں یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک اور ان کے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کو کیوں نشانہ بنایا گیا۔ یہ سارا ملک بہتر جانتا ہے۔ انٹلی جنس ایجنسیوں سے لے کر حکومت کو بھی اندازہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک نہ صرف عالم اسلام بلکہ ساری دنیا میں اپنی علمی قابلیت، مختلف ادیان کے تقابلی جائزہ میں غیر معمولی مہارت اور ناقابل تردید دلائل کے لئے جانے جاتے ہیں۔ انھیں دین اسلام کی خدمت کے صلہ میں عالم اسلام کا سب سے باوقار شاہ فیصل ایوارڈ بھی دیا جاچکا ہے جو صرف ان ہی کے لئے نہیں بلکہ سارے ہندوستان کے لئے ایک اعزاز ہے۔ اگر دیکھا جائے تو صرف دو ہندوستانی ہیں جنھیں سعودی عرب کے اعلیٰ ترین اعزازات عطا کئے گئے ہیں۔ ایک تو ڈاکٹر ذاکر نائک اور دوسرے خود وزیراعظم نریندر مودی جن پر اپنے دور چیف منسٹری میں گجراتی مسلمانوں کے قتل عام کے الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے مودی جی کو مملکت سعودی عرب کے باوقار شہری اعزاز شاہ عبدالعزیز ایوارڈ سے نوازا۔ ایسے میں ڈاکٹر ذاکر نائک پر دہشت گردی کو فروغ دینے کے الزامات عائد کئے جانا کچھ سوچنے والی بات ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ارشد قریشی کے حوالے سے آنے والے دنوں میں این آئی اے اور دوسری تحقیقاتی ایجنسیاں ڈاکٹر نائک کی پریشانیوں میں اضافہ کرسکتی ہیں۔ ایک بات تو ضرور ہے کہ یاسمین سے پوچھ تاچھ سے یہ بات سامنے لانین کی کوشش کی گئی کہ آئی ایس آئی ایس ہندوستان میں کس طرح خواتین اور نوجوانوں کو راغب کررہی ہے۔ کیرالا سے افغانستان پہنچے 22 مرد و خواتین اور بچوں کے بارے میں گزشتہ 6 ماہ کے دوران ہندوستانی انٹلی جنس ایجنسیوں نے جو معلومات اکٹھا کئے ہیں اس سے پتہ چلا ہے کہ افغانستان میں وہ لوگ خوش ہیں۔ انٹلی جنس عہدیداروں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس گروپ میں شامل کچھ جوڑے کیرالا میں اپنے والدین اور رشتہ داروں سے رابطے میں ہیں جو انھیں ہندوستان واپس آنے کی ناکام ترغیب دے رہے ہیں۔ ’دی ویک‘ نے ایک انٹلی جنس عہدیدار کے حوالے سے بتایا کہ تاحال اس گروپ کے بارے میں جو معلومات اکٹھا کی گئیں اس سے یہ اشارے ملے ہیں کہ وہ لوگ افغانستان میں خوش ہیں۔ وہ شام جانے کے خواہاں ہیں اور نہ ہی ہندوستان واپس ہونے کے متمنی۔ بتایا جاتا ہے کہ پوچھ گچھ کے دوران یاسمین نے انکشاف کیاکہ اس کی شادی 2006 ء ء میں فون پر انجام پائی۔ جس میں داعش کے دو کارندوں نے سرپرستوں کا اور گواہوں کا کردار ادا کیا۔ رشید کے بارے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ وہ اپنی اہلیہ کو آئی ایس آئی ایس خلافت کے بارے میں ٹیلیگرام پر جو ایک میجنگ اپلی کیشن ہے ویڈیوز اور دوسرا مواد روانہ کیا کرتا تھا۔ یاسمین نے یہ بھی انکشاف کیاکہ عبدالرشید اور ان کی پہلی بیوی عائشہ برطانیہ میں مقیم ایک جوڑے سے ربط میں تھے۔ اس برطانوی جوڑے نے اسلام قبول کیا تھا اور ٹیلیگرام اپلی کیشن کے ذریعہ داعش کی حمایت میں پیامات پھیلارہے تھے۔ عبدالرشید نے یاسمین کو عائشہ کا اے ٹی ایم کارڈ دیتے ہوئے اس میں ماہ جولائی میں دیڑھ لاکھ روپئے منتقل کروائے تاکہ ہندوستان سے افغانستان پرواز کے ٹکٹس خریدے جاسکیں۔ یاسمین سے پوچھ تاچھ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ ایک فلپائنی آئی ایس رکروٹر کارین عائشہ نے کئی ہندوستانی نوجوانوں کی ذہن سازی کی اور آئی ایس کے زیرکنٹرول علاقوں میں ان کی روانگی کے انتظامات کئے، اس سلسلہ میں گزشتہ سال جئے پور سے گرفتار محمد سراج الدین نے این آئی اے کو بتایا کہ کارین عائشہ نے آئی ایس رکروٹس کا ایک واٹس اپ گروپ بنایا اور اس کے ارکان کو فرضی نام دیئے۔ بہرحال وقت چاہے کچھ بھی ہو ہندوستان میں آئی ایس آئی ایس کا خوف پایا جاتا ہے۔