ہندوستان اور چین میں تجارتی مسابقت چین کا پلڑا بھاری کیوں؟

 

محمد ریاض احمد
ہندوستان کیلئے چین، پاکستان سے کہیں زیادہ خطرناک ملک ہے۔ اسی وجہ سے اُسے ہندوستانی سیاستداں بلا لحاظ جماعتی وابستگی نمبر ون دشمن ملک قرار دیتے ہیں۔ کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ پچھلے دو تین دہوں سے چین نے زندگی کے تمام شعبوں میں زبردست ترقی کی۔ خاص طور پر دفاعی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اس کی ترقی قابل رشک رہی۔ اقتصادی و تجارتی محاذ پر بھی اس کی پیشرفت سے امریکہ کے بشمول دنیا کی بڑی طاقتیں پریشان ہوگئیں۔ عالمی فورمس میں چین کی آواز کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ جیسے عالمی اداروں پر جہاں امریکہ کی اجارہ داری ہے وہیں چین کا دبدبہ بھی کچھ کم نہیں۔ دوسری طرف ہندوستان ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان کو ہندوستان کا کٹر دشمن اور حریف تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے ہر شعبہ میں ہندوستان کو پاکستان سے نہیں چین سے مقابلہ اور مسابقت درپیش ہے۔ ہندوستانی سائنسدانوں، ماہرین اقتصادیات، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین، ڈاکٹروں، انجینئروں اور سب سے بڑھ کر ماہرین تعلیم (اساتذہ) نے اپنے ملک کو ترقی کی بلندیوں پر پہنچادیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر خلائی سائنس میں وہ امریکہ، برطانیہ، روس، جرمنی، فرانس اور چین کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیاء میں امریکہ تمام شعبوں میں چین سے راست مقابلہ کی بجائے پس منظر میں رہتے ہوئے ہندوستان کو اپنے حریف سے ٹکرانے کے لئے آگے ڈھکیل رہا ہے اور ہم ہندوستانی اس امریکی پالیسی کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ ہمارے یہاں پولیس کے بارے میں ایک محاورہ ’’پولیس کسی کی دوست ہوتی ہے نہ دشمن‘‘ بہت زیادہ مشہور ہے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ امریکہ کا بھی یہی حال ہے وہ کسی کا دوست نہیں ہوسکتا۔ ہمارے سامنے پڑوسی ملک پاکستان کی مثال باعث عبرت ہے۔ افغانستان میں روس کی شکست اور سویت یونین کا شیرازہ بکھیرنے میں امریکہ کی غیر معمولی مدد کرنے والا پاکستان آج امریکہ کے نشانہ پر ہے۔ آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردوں کے اڈوں کی موجودگی کے بہانے پاکستان کا قریبی دوست امریکہ اپنے حلیف کے خلاف ہی سخت اقدامات کرے گا۔ اس کا اندازہ پاکستانی حکومت اور سیاستدانوں کو بھی ہوچکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان امریکہ کے ساتھ پیش پیش رہا اور اس کے 70 ہزار سے زیادہ شہری ہلاک اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی ہوئے۔ ان میں فوجی اور پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

پاکستان کی ان قربانیوں کا صلہ امریکہ اب اسے دھمکیوں کی شکل میں دے رہا ہے۔ بہرحال ہم ہندوستان اور چین کی مسابقت کی بات کررہے تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہندوستان چین کو دشمن نمبر ون تصور کرتا ہے اور چین ہندوستان سے خطرہ محسوس کرتا ہے اس کے باوجود دونوں ملکوں کی باہمی تجارت 70 ارب ڈالرس سے متجاوز ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس باہمی تجارت سے دونوں ملکوں کو زبردست فائدہ ہوگا لیکن ایسا نہیں ہے۔ فائدہ ضرور ہے لیکن وہ یکطرفہ ہے۔ گزشتہ سال ہندوستانی اکسپورٹس 11.75 ارب ڈالرس رہیں اس کے برعکس چین سے ہندوستان کو 59 ارب ڈالرس مالیتی انواع و اقسام کی اشیاء درآمد کی گئی۔ باہمی تجارت کا تفصیلی جائزہ لیں تو بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ غیر متوازن ہے۔ اس سے صرف چین کو فوائد حاصل ہورہے ہیں اور تجارتی خسارہ 47 ارب ڈالرس کا ہے۔ ان اعداد و شمار کو نظرانداز بھی کیا جاسکتا ہے لیکن ہندوستانی وزارت کامرس کے اس بیان کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جاسکتا جس میں تجارتی خسارہ کا حجم 52 ارب ڈالرس بتایا گیا ہے۔ آج ہم ہندوستانی سستی اشیاء کے استعمال کے عادی ہوچکے ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر مشنریز اور موبائیل فونس تک ہمیں سستے چاہئے ہم یہ نہیں دیکھتے کہ یہ سستی اشیاء پائیدار نہیں ہوتیں۔ چین کی طرح ہندوستان میں دیسی کمپنیوں اور فیاکٹریز یا کارخانوں میں سستی اشیاء تیار نہیں کی جاتیں۔

ایسے میں چینی کمپنیاں ہماری ان کمزوریوں کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے میک اِن انڈیا مہم شروع کی اس کے بعد سمجھا جارہا تھا کہ ملک میں چینی ساختہ اشیاء کے کاروبار میں کمی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 93 چینی اشیاء پر ADD (اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹیز) نافذ کرنے کے باوجود ہندوستانی مارکٹ میں چینی اشیاء کی بھرمار ہے۔ ہمارے ملک کے 645467 ٹاؤنس اور دیہاتوں میں بھی جابجا چینی اشیاء دکھائی دیں گی۔ فٹ پاتھوں، بنڈیوں سے لے کر بڑی بڑی دوکانات میں رنگ برنگی چینی اشیاء صارفین کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میںحکومتیں غربت کے خاتمہ کے بلند بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن ہنوز کم از کم 500 ملین ہندوستانیوں کی فی یوم آمدنی 2.75 ڈالرس سے بھی کم ہے۔ ایسے میں غریب ہندوستانی سستی اشیاء کی خرید کو ترجیح دیں گے چنانچہ چینی کمپنیوں نے ہندوستانی صارفین کی نفسیات کو اچھی طرح پڑھ لیا ہے۔ تب ہی تو سستی و پُرکشش اشیاء ہندوستان کے بازاروں میں بھیجی جارہی ہیں۔ آپ کو بتادیں گے کہ ہندوستان کی 1.30 ارب آبادی میں 80.85 فیصد آبادی ہندو ہے اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایک سو، دو سو، ایک ہزار ، دو ہزار نہیں بلکہ 33 ملین (33 کروڑ دیوی دیوتاؤں (بھگوانوں) کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کی مورتیوں کو مندروں اور گھروں میں سجا کر رکھتے ہیں جن کے سامنے دیئے جلائے جاتے ہیں جن پر پھول مالائیں چڑھائی جاتی ہے۔ اگربتی جلاکر خوشبو کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ملک میں ان مورتیوں یا بتوں کی تیاری دھاتوں اور چکنی مٹی سے ہوا کرتی تھی لیکن ان ہندو بھگوانوں کو چین تیار کررہا ہے۔

چینی مارکٹ میں آپ کو ہندوؤں کے ہر بھگوان (دیوتائیں اور دیوئیاں مل جائیں گی) پوجا کا سارا سامان بھی چینی کمپنیاں سستے داموں میں سربراہ کررہی ہیں۔ تالے اور ہمہ اقسام کے برقی قمقمے (بلبس) اور ایل ای ڈی بلب ، مصنوعی زیورات، الیکٹرانکس اور اسمارٹ فونس بھی چینی کمپنیاں سربراہ کررہی ہیں۔ غرض ہر طرف چین کا مال ہے۔ صرف ہندوستان میں ہی نہیں عالمی سطح پر چینی سامان کی سربراہی ہندوستان سے تین گنا زیادہ ہے۔ سال 2016 ء میں دنیا کے مختلف ممالک کو ہندوستانی برآمدات 264 ارب ڈالرس رہی۔ اس کے برخلاف چین کی برآمدات 2098 ارب ڈالرس درج کی گئی۔ ہم نے جیسا کہ سطور بالا میں چینی اشیاء کی ہندوستانی بازاروں میں فروخت کا ذکر کیا ہے ہر سال 75 ملین قفل (تالے) چین سے ہندوستان لائے جاتے ہیں۔ حال ہی میں ہماری نظر سے فاروق جے کنٹراکٹر کا ایک آرٹیکل گزرا جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی میک اِن انڈیا مہم کی کامیابی میں سات بڑی رکاوٹیں ہیں۔ اگر ان رکاوٹوں کو دور کرلیا جائے تو ہندوستان اور چین کی باہمی تجارت میں عدم توازن کا جو رجحان یا تجارتی خسارہ پایا جاتا ہے وہ کم سے کم ہونے لگے گا۔ ان رکاوٹوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے کہ ہندوستانی کمپنیوں میں سامان کی بڑی پیمانے پر تیاری نہیں ہوتی مثال کے طور پر ایک ہندوستانی کمپنیوں میں تین پلاسٹک انجیکشن، مولڈنگ مشینیں ہوتی ہیں جبکہ چینی کمپنی میں 70 سے زائد پلاسٹک انجکشن مولڈنگ مشینیں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چینی کمپنیوں میں ہندوستانیوں کمپنیوں کی بہ نسبت پیداوار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ دوسری اہم بات پیداوار ہے۔ پیداوار کیلئے ورکروں کی اہلیت بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ چینی ورکر پیداوار کے معاملہ میں ہندوستانی ورکروں سے چار تا پانچ گنا کم پیداواری ہیں۔ تیسری رکاوٹ کرپشن ہے چین میں اعلیٰ سطح پر کرپشن پایا جاتا ہے لیکن ہندوستان میں نیچے سے لے کر اوپر تک رشوت کا بازار گرم ہے۔ چین اشیاء اکسپورٹ کرنے کے لئے حمل و نقل کے بہترین ذرائع استعمال کرتا ہے۔ جن میں برقی کی سربراہی بنا خلل جاری رہتی ہے۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں فیکٹریوں کو برقی سربراہی میں بار بار خلل کا سامنا رہتا ہے۔ ہندوستان میں سرخ فیتے کی رکاوٹیں بھی پیداوار میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ چین میں کمپنیوں اور فیکٹریوں کو حکومت سے ہر قسم کا تعاون حاصل رہتا ہے۔ وہاں اراضیات بھی بآسانی فراہم کی جاتی ہیں۔ ہمارے یہاں حکومت تجارت دوست رویہ نہیں اپناتی اور اراضیات کے حصول میں بھی رکاوٹیں کھڑتی ہوتی ہیں۔ غرض موجودہ حالات میں ہندوستان کو چین سے تجارتی مسابقت کیلئے سب سے پہلے کرپشن مذہب و ذات پات کی بنیاد پر برتے جانے والے امتیاز اور مذہبی تعصب کو ختم کرنا ہوگا ورنہ ہمیں تباہی و بربادی کیلئے چین یا پاکستان جیسے دشمن ملکوں کی ضرورت نہیں کیوں کہ داخلی اختلافات بے چینی کسی بھی قوم و ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔ ہندوستانیوں میں صلاحیتوں کی کوئی کمی نہیں وہ اپنے اتحاد اور صلاحیتوں کے ذریعہ کسی بھی ملک کو مات دینے کے اہل ہیں۔ مودی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بی جے پی حکومت نے اسرائیل اور امریکہ سے قربت حاصل تو کرلی لیکن حکومت کو امریکیوں کی دوستی اور اسرائیل کی مکاری کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل اس کرۂ ارض کی ناجائز مملکت ہے اور اس نے اپنے سب سے بڑے حلیف امریکہ کی پیٹھ میں خنجر بھی گھونپا ہے۔ امریکی حساس اداروں میں اپنے جاسوس سرائیت کردیئے ہیں۔ اگر اسرائیل اپنے آقا کو ہی دھوکہ دے سکتا ہے تو ہندوستان کے ساتھ کیا نہیں کرسکتا اس لئے ہندوستان کو چین اور پاکستان سے نمٹنے کیلئے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ اپنے بل بوتے پر کرنا ہوگا۔
mriyaz2002@yahoo.com