ہندوستانی مسلمانوں کیلئے اچھی تعلیم تاریخی پس منظر

آر اپادھیائے                 دوسری قسط

تاریخی اعتبار سے مسلمانوںکو اپنے اثر میں رکھنے کی تحریک در اصل چھٹی صدی کے آحری دہے سے شروع ہوئی ہے جب مغل شہنشاہ اکبر کی مذہبی آزادی تنزل پذیر ہونی شروع ہوئی ۔ اس کا آغاز شیخ احمد سرہندی ( 1564- 1624 ) سے شروع ہوکر مسلم مفرین جیسے شاہ ولی اللہ ( 1704-1763 ) سید احمد بریلوی ( 1786-1931 ) سر سید احمد خاں 1917-98 ) علامہ اقبال 1873/76-1938 ) اور دوسروں نے بھی علیحدہ مسلم شناخت پر زور دیا جو بنیادی طور پر ایک علیحدہ سیاسی شناخت برقرار رکھنے پر زور تھا اوریہ ہندوستان میں مسلم سماج کا مستقل جز رہا ۔
شیخ احمد سر ہندی ( 1564-1624)
شیخ احمد سر ہندی ایک سخت گیر سنی مسلم تھے اور اپنے وقت کے ایک معروف بزرگ تھے جنہوں نے انہوں نے مغل شہنشاہ اکبر کی مذہب میں چھیڑ چھاڑ کی شدت سے مخالفت کی اور انہوں نے ہندوستان میں راسخ العقیدہ اسلام کو بحال کرنے میں بڑا رول ادا کیا ۔ انہوں نے اکبر کے امرا پر بھی اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور انہوں نے ہندووں اور شیعہ برادری کے خلاف بھی اپنی مہم جاری رکھی تھی جب جہانگیر تخت شاہی پر فائز ہوا ۔ شیخ احمد سر ہندی فارسی زبان میں تحریر کردہ اپنے مکتوبات کی وجہ سے بھی شہرت رکھتے ہیں جو انہوں نے نہ صرف اپنے مریدوں کو تحریر کئے تھے بلکہ انہوں نے جہانگیر کے دربار کے با اثر امرا کو بھی یہ خطوط روانہ کئے تھے ۔ وہ اکبر کے دور میں ہوئی تبدیلیوں کو ختم کرنے اور دوبارہ شرعی احکام نافذ کرنے میں اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرنے میں کامیابی حاصل کی اور اسی پر بعد جہانگیر سے لے کر اورنگ ذیب تک تمام مغل حکمران کاربند رہے ۔ شیخ احمد سرہندی کا مقبرہ آج بھی سر ہند پٹیالہ میں واقع ہے اور یہاں آج بھی لوگ آتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ ( 1704 – 1762 )
شاہ ولی اللہ بھی شیخ احمد سر ہندی کی تحریروں سے متاثر تھے ۔ وہ بھی اپنے وقت کے ایک باکمال صوفی بزرگ تھے جو اپنا تعلق پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ و صلعم کے قبیلہ قریش اورخلیفہ دوم حضرت سید نا عمر فاروق ؓ کے خاندان سے بتاتے تھے ۔ وہ اورنگ ذیب کی موت کے بعد سیاسی نظام کے تعلق سے زیادہ فکرمند تھے ۔ غیر مسلموں جیسے مراٹھا ‘ جاٹ اور سکھ طاقتوں کے سیاسی عروج کی وجہ سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہورہا تھا اور اس کی وجہ سے اسلام کو خطرہ درپیش تھا اور اس کا سیاسی تسلسل شاہ ولی اللہ کیلئے ناقابل برداشت تھا ۔ ’ اسلام خطرہ میں ہے ‘ کا نعرہ در اصل اسی وقت سے شروع ہوا تھا جب وہ غیر مسلم طاقتوں کے ابھرنے سے فکرمند تھے ۔ مذہبی ۔ سیاسی سوچ در اصل فارسی ۔ اسلامی بادشاہت ہی ان کے سیاسی اسلام کے نظریہ کی بنیاد تھی ۔ شاہ ولی اللہ ایک عظیم مسلم مفکر تھے اور وہ ذیلی بر اعظم ہندوستان میں احیاء اسلام کی تحریک کے ایک اہم باب کا انتہائی جذباتی حصہ تھے ۔ ان کی اسی سیاسی سوچ نے ہندوستانی مسلمانوں کو روایتی اسلام کے اثر میں کر دیا تھا ۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان عوام اس وقت کے مسلم حکمرانوں کے سیاسی اتحاد کیلئے پیغمبر اسلام ؐ کے دور میں واپس ہوجائیں تاکہ ذیلی بر اعظم میں اسلامی سالمیت کو یقینی بنایا جاسکے ۔ مراٹھا حکمرانوںکے خلاف مقابلہ کیلئے انہوں نے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالی کو جو دعوت دی تھی اس کا مقصد مسلمانوں کو ہندووں کے اثر سے بچانا تھا ۔ انہوں نے احمد شاہ ابدالی کو جو مکتوب تحریر کیا تھا اس میں کہا تھا کہ ’’ تمام اختیارات ہندووں کے ہاتھ میں ہیں کیونکہ وہی صنعتکار ہیں اور حالات کے مطابق ڈھلتے ہیں۔ امارت اور خوشحالی ان کی ہے ۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس سوائے غربت اور غم کے کچھ بھی نہیںہے ۔ اس موقع پر آپ ہی وہ واحد شخص ہیں جو پہل کرسکتے ہیں۔ دور اندیش ہیں ‘ طاقت رکھتے ہیں اور دشمن کو شکست دے کر مسلمانوں کو کافروں کے پنجہ سے نجات دلاسکتے ہیں۔ اللہ معاف کرے اگر ان کا تسلط جاری رہا تو مسلمان اسلام کو بھول جائیں گے اور غیر مسلموں میں ان کو پہچاننا مشکل ہوجائیگا ‘‘ ۔ ( ماخذ : ڈاکٹر سید ریاض احمد کی کتاب ’’ مولانا مودودی اور اسلامی مملکت ‘ ۔ لاہور پیپلز پبلشنگ ہاوز صفحہ 15-  1976 ) انہوں نے شیخ احمد سرہندی کی تحریروں کا فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا تاکہ ایک ہندو اکثریت والے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک علیحدہ سیاسی شناخت بنانے کا جذبہ پیدا کرسکیں ۔ انہیں اپنے عربی نژاد ہونے پر فخر تھا اور وہ اسلامی کلچر کو ذیلی بر اعظم کی روایات سے خلط ملط کرنے کے شدید مخالف تھے اور چاہتے تھے کہ مسلمان اس سے دور رہیں۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ مسلمان ذیلی بر اعظم کے عمومی روایت کا حصہ بن جائیں۔ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے تعلقات مابقی مسلم دنیا سے بحال رکھیں تاکہ ان کی جڑیں اسلام سے جڑی رہیں عالمی برادری کی روایات بھی اس کا حصہ بن جائیں۔ ( ماخذ : دی مسلم کمیونٹی آف انڈو ۔ پاکستان ذیلی براعظم ‘ اشتیاق حسین قریشی 1985 ) ۔
شاہ ولی اللہ کی خدمات ہندوستانی مسلمانوں کیلئے یہ رہیں کہ انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی زندگی کو برقرار رکھا ۔ ان کے داخلی جذبہ کو ہندوستان میں اسلامی سیاسی اتھاریٹی کی بحالی سے مربوط کیا ۔ یہ شاہ ولی اللہ کا سیاسی نظریہ تھا جس سے ہندوستانی مسلمان مستقبل کے ویژن اور بہتر تعلیم سے محروم رہ گئے ۔(جاری ہے