ہندوستانی مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ’’ شکست خوردہ ذہنیت ‘‘ سے باہر ہیں۔ ڈاکٹر قطب ایم الدین

یہاں پر اس بات کا تذکرہ نہایت ضروری ہے کہ اعلی تعلیم یافتہ اور پیشہ وار ہندوستانی مسلمان جو امریکہ میں آرام کی زندہ گذار رہے ہیں انہوں نے ہندوستان رہنے والے اپنے بھالیوں کو بھولا نہیں ہے اور مشترکہ طور پر کوشش کررہے ہیں تعلیم کے ذریعہ ان کی سماجی اور معاشی حالات کو فروغ دے سکیں

انہوں نے کہاکہ 1989میں فیلان تھرپک چیریٹی آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایاتھا جس امریکن فیڈریشن آف ہندوستانی نژاد مسلم ( اے ایف ایم ائی) کے نام سے مشہور ہے‘ جو نہایت سنجیدگی اور بے لوث انداز میں ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم کے ذریعہ مستحکم بنانے کاکام کررہی ہے۔

ڈاکٹر قطب ایم الدین( ایم ڈی‘ پی ایچ ڈی‘ ماہر نفسیات اور پروفیسر نفسیات) بھی اے ایف ایم ائی کے سابق صدر او ربانی ٹرسٹیوں مںی شامل ہے ‘ نے کہاکہ ’ہندوستانی مسلمانوں کا مستقبل کافی روشن ہے اور ہمیں چاہئے کے نوجوان نسل کے ذریعہ سے ناامیدی کو نکال باہر کریں۔وہ ہندوستان کے سماجی ‘ سیاسی اور معاشی ترقی کا حصہ رہیں گے اور اس کے اثر ات واضح طور پر ہندوستانی مسلمانوں میں دیکھائی بھی دے رہے ہیں۔

مسلم میریر کے ایڈیٹر سید زبیر احمد سے آمنے سامنے کی بات میں ڈاکٹر قطب ایم الدین نے پسماندگی کاشکار مسلمانوں کی حالت زار میں تبدیلی اور دیگر ابنائے وطن کے ساتھ بہتر رشتوں کے فروغ کے لئے بے شمار مشورہ دئے۔

انہوں نے کہاکہ ہندوستانی مسلمانوں کو اپنی سونچ اورذہنیت میں تبدیلی لانی چاہئے کیونکہ ان کی آبادی نسبتاً امریکہ کے مساوی ہے۔ پیش ہے انٹرویو کے کچھ جھلکیاں۔

پہلے آپ اے ایف ایم ائی کے متعلق کچھ بتائیں؟۔

اے ایف ایم ائی ایک سونچ ہے ‘ جس کا مقصد خدمات اور مسائل کو اجاگر کرنے والی تنظیم‘ جس کا قیام 1989 میں ہندوستانی نژاد امریکی مسلم نے عمل میں لایاتھا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی ترقی سے ہمکنار کرنا جو امریکہ اور ہندوستانی کی ریلیف اور تعلیمی تنظیموں کے اشتراک سے کیا جانے والا کام ہے۔

اس کے علاوہ اے ایف ایم ائی ہندوستانی دانشواروں ‘ عوامی عہدیداروں اور صنعت کاروں اور ہندوستانی نژاد امریکیوں بالخصوص مسلمانوں کے درمیان ایک پل کی طرح کام کرتا ہے۔فی الحال اے ایف ایم ائی مسلمانوں میں سو فیصد خواندگی لانے کاکام کررہا ہے۔

اس کے لئے ادارے نے کئی ہندوستانی دیہاتوں میں اسکولس قائم کئے ہیں اور کئی اسکولوں کو اپنے ماتحت کیاہے ‘ جہاں پر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعدادکئی سو اور ہزار ہے ۔

تعلیم کو فروغ دینے کے لئے اے ایف ایم ائی نے 1300گولڈ میڈیل‘ سلور اور براونز میڈیل ( اب تک 2000بچوں میں تقسیم کئے ہیں)اس کے علاوہ ہندوستان کی ہر ریاست میں اعلی نمبرات حاصل کرنے والے دسویں او ربارہویں جماعت کے طلبہ میں اسناد کی تقسیم بھی عمل میں لائی ہے

یہ حکومت اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک مسلمانوں اور دیگرپسماندہ طبقات کی موجودہ حالات زار کے متعلق آپ اپنے آبائی وطن کا موازنہ کس طرح کریں گے؟

حالانکہ حالات تشویش ناک ہیں مگر اپنے ہاتھ میں ہی ہیں۔ لہذا ہمیں منفی اور ناخوشگوار ہونے سے پرہیز کرنا چاہئے۔ حالات بری ہیں مگر خراب نہیں ۔

کیاآپ جانتے ہیں اس طرح کا بحران اونچائی پر لے جانے اور چمکنے کاموقع فراہم کرتا ہے۔ مثبت سونچ اور خود اعتمادی کی سونچ کا ہمارے اندر فروغ ضروری ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں سے میرے ادباتجویز ہے وہ خود کو تناؤ کے ساتھ خود کو مفلوج نہ بنالیں مگر بلکہ اٹھائیں اور اپنی قابلیت کاڈنکابجائیں

کس طرح ہندوستانی مسلمان اس بحران سے باہر ائیں؟

مسلمانوں کو حقیقت پسند اور مثبت سونچ کا حامل ہونا ہوگا۔ انہیں دنیا بھر میں اپنے اطراف ہونے والی واقعات کاجائزہ لینا ہوگا۔

ہمیں بہتر کی امید کے ساتھ بدبختانہ واقعات کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا جو ہماری کامیابی کا اہم عنصر ثابت ہوگا۔

تاہم ہندوستانی مسلمانوں کو خوف کے عالم میں دیکھ کر افسوس ہوتا ہے‘

ہمیں اس طرح کے احساس سے باہر آنا ہوگا۔ زہریلے نفسیاتی خوف سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ایک مسلمان کو سوائے اللہ کے کسی کا خوف نہیں ہوناچاہئے‘ اور اس کایقین اس بات پر ہوکہ سوائے اللہ کے کوئی مددگار نہیں ہے‘ او رنہ کوئی ہمیں نقصان پہنچاسکتا ہے۔

ہمیں خوف کے عالم سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔