ہندوستانی طلباء یوروپی یونیورسٹیوں کا رخ کرنے پر مجبور : پروفیسر نندہ

H-1B ویزہ پالیسی میں تبدیلی دراصل امریکہ کا نقصان، انفوسیس اور وپرو پر منفی اثرات

واشنگٹن ۔ 28 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) ایک اعلیٰ سطحی ہندوستانی نژاد امریکی ماہر قانون کا کہنا ہیکہ علاقائی استحکام کیلئے ہند ۔ امریکہ تعلقات کا خوشگوار ہونا بیحد اہم ہے۔ تاہم اسے ہم دورخی ٹریفک سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اگر ہم امریکہ کا احترام کرتے ہیں تو امریکہ کا بھی یہ فرض ہیکہ وہ ہندوستان کا احترام کرے خصوصی طور پر ایسی صورتحال میں جب ہندوستان کو دو سخت گیر پڑوسیوں پاکستان اور چین کے ساتھ ’’نباہ‘‘ کرنا ہے۔ یونیورسٹی آف ڈینوراسٹرم کالج آف لاء میں نندا سنٹر برائے انٹرنیشنل اینڈ کمپریٹولاء کے ڈائرکٹر اور ایوانس یونیورسٹی کے پروفیسر ویدنندہ نے کہا کہ ہند اور امریکہ کے درمیان مضبوط معاشی تعلقات بے شک ایک مشترکہ مفاد والی بات ہے۔ تاہم جہاں تک اسٹریٹیجک شراکت داری کا سوال ہے تو ہم اسے زائد اہمیت دیتے ہیں تاکہ علاقائی استحکام کو یقینی بنایا جاسکے خصوصی طور پر مشکل اور پیچیدہ پڑوسی ممالک جیسے پاکستان، افغانستان اور چین کے ہوتے ہوئے اس بات کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ ڈینور پوسٹ میں شائع ہوئے اپنے ایک مضمون میں انہوں نے کہا کہ ہند ۔ امریکہ اپنے باہمی تعلقات کو اگر احترام کی نظر سے دیکھیں تو یہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہیکہ ویدنندہ کے پاس کئی بڑے بڑے قانون دانوں اور سفارتکاروں بشمول سابق امریکی وزیرخارجہ کنڈولیزارائس نے تعلیم حاصل کی ہے اور وہ ان کے استاد رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون میں حالیہ H-1B ویزہ پالیسیوں میں تبدیلی کا بھی ذکر کیا اور دو طلباء کی مثال پیش کی اور کہا کہ ہندوستانی طلباء اب یوروپی اور دیگر ممالک کا رخ کررہے ہیں جو یقینا امریکہ کیلئے نقصان کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے دو ہندوستانی طلباء سے ملاقات کی تھی جن میں سے ایک نے پرڈیو میں انجینئرنگ کی تعلیم کیلئے اور دوسرے نے کارنیگی میلن میں ایم بی اے کی تعلیم حاصل کرنے کے فارم پُر کئے تھے

اور دونوں کے ہی فارمس کو منظور کرلیا گیا تھا تاہم اب جبکہ ٹرمپ ہر دن نئے نئے حکمنامے جاری کررہے ہیں تو اس پس منظر میں یہ دونوں طلباء بھی پریشان ہوگئے کیونکہ انہیں یہ اندیشہ لاحق ہوگیا ہیکہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ان کے (طلباء) روزگار مواقع پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں خصوصی طور پر بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کیلئے۔ لہٰذا انہوں نے مستقبل میں کوئی پریشانی اٹھانے کی بجائے یوروپی یونیورسٹیوں میں درخواست داخل کرنے کو ترجیح دی کیونکہ امریکہ میں اس وقت ٹرمپ انتظامیہ کے تحت حالات انتہائی غیریقینی ہیں۔ لہٰذا مسٹر نندہ نے ان دو طلباء کی جانب سے ادا کئے گئے جملوں کو من و عن دہراتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ مسٹر نندہ نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی مجوزہ پابندیاں جو H-1B ویزہ پروگرام پر عائد کی جانے والی ہیں، اس سے امریکہ کا 150 بلین ڈالرس کے تخمینہ والا ٹیکنالوجی سیکٹر شدید طور پر متاثر ہوا ہے جہاں ہر ایک کو اپنی مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکنالوجی کمپنیوں کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائے  جانے کے باوجود کہ وہ اپنے بزنس ماڈل کو دوبارہ تیار کریں گے یا ان پر نظرثانی کریں گے، اس تبدیلی اور پابندی کی وجہ سے ہندوستان کی اہم ٹیکنالوجی کمپنیاں انفوسیس، ٹاٹا کنسلٹنگ، وپرو اور کاگنی زانٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ بہرحال مسٹر نندہ نے یہ بھی کہا کہ ہند ۔ امریکہ کے درمیان سیاسی، معاشی اور دفاعی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کیلئے بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بیجا نہ ہوگا کہ ٹرمپ کے 20 جنوری کو بطور امریکی صدر حلف لینے کے بعد سے ہی دنیا کی نظریں اس وقت امریکہ پر ٹکی ہوئی ہیں خصوصی طور پر امریکہ کی خارجہ پالیسی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے کیونکہ H-1B ویزوں سے دنیا کے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے مستقبل جڑے ہوئے ہیں۔