بسواجیت دھار
مئی کے مہینے میں امریکہ نے عالمی تنظیم تجارت میں ایک دستاویز پیش کیا تھا اور ہندوستانی زرعی سبسڈیز اور اگریکلچر معاہدہ کے متعلقہ دفعات کے مابین یکسانیت پر سوال کیا تھا ۔ اس دستاویز میں اقل ترین امدادی قیمت جو گیہوں اور چاول کو دی جاتی ہے اس پر سوال کیا گیا تھا ۔ امریکہ کی شکایت یہ ہے کہ زرعی معاہدہ میں جو قیمتیں مقرر کی گئی ہیں ان کی بہ نسبت اقل ترین امدادی قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔ امریکہ کا اصل استدلال یہ تھا کہ چاول کی پیداوار پر ہندوستان میں جو مدد کی جاتی ہے وہ زرعی پیداوار کے جملہ قدر سے 70 فیصد زائد ہوتی ہے اور یہ عمل 2010-11 سے چل رہا ہے جبکہ اسی عمل کے دوران گیہوں پر دی جانی والی امدادی قیمت 60 فیصد زائد ہے ۔ امریکہ کا دعوی ہے کہ زرعی معاہدہ میں ہندوستان کیلئے جو 10 فیصد کی حد مقرر کی گئی تھی اس سے یہ قیمتیں بہت زیادہ ہیں۔
ہندوستان میں زراعت کیلئے جو سبسڈی دی جاتی ہے اس پر امریکہ کی مخالفت سے اس کے عزائم اور منصوبوں کا پتہ چلتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ زرعی معاہدہ میں سبسڈی کے تعلق سے جو حد مقرر کی گئی ہے وہ بھی غیر منطقی ہے ۔ زرعی معاہدہ اصل میں خود امریکہ نے تیار کیا تھا اور یوروپی یونین کے ارکان بھی اس کا حصہ رہے تھے اور اس کی تیاری کا مقصد خود ان کے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا تھا ۔ ایسا کرتے ہوئے ان ممالک نے ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو حاشیہ پر لا کھڑا کردیا تھا ۔
حالانکہ عالمی تنظیم تجارت کی جانب سے سبسڈی کے استعمال کی کچھ مخالفت کی گئی ہے لیکن اس کی جانب سے استجارتی پالیسی کو زرعی شعبہ کیلئے استعمال کرنے کی اجازت ضرور دی گئی ہے ۔ زرعی معاہدہ میں سبسڈی کی تین اشکال بیان کی گئی ہیں ۔ ان کی زمرہ بندی ایسی گئی ہے کہ کچھ سبسڈیز ایسی ہیں جن سے مارکٹ کی حالت خراب نہیں ہوتی جبکہ کچھ سبسڈیز ایسے زمرہ میں رکھی گئی ہیں جن کی وجہ سے مارکٹ کی حالت متاثر ہوکر رہ جاتی ہے ۔ ان سبسڈیز میں جو فرق رکھا گیا ہے اس کے مطابق جن سبسڈیز سے مارکٹوں پر کوئی منفی اثر نہیں ہوتا ان کے تحت اخراجات میں کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے جبکہ جن سبسڈیز سے مارکٹوں کی حالت متاثر ہوتی ہے اس زمرہ میں ترقی پذیر ممالک کیلئے زرعی پیداوار کا صرف دس فیصد خرچ کرنے کی حد مقرر کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ حد ترقی یافتہ ممالک کیلئے پانچ فیصد رکھی گئی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ زرعی معاہدہ میں اسطرح کی سبسڈیز کے مارکٹ پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کا کوئی طریقہ کار بیان نہیں کیا گیا ہے ۔
زرعی معاہدہ کے تحت سبسڈیز کی جو اشکال پیش کی گئی ہیں ان کے مطابق یہ کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک مارکٹوں پر منفی اثر کرنے والی سبسڈیز پر زیادہ انحصار کرتی ہیں ۔ جب اس معاہد ہ کو 1995 میں قطعیت دی گئی اس کے بعد سے امریکہ اور دوسرے یوروپی یونین کے ممالک نے مارکٹوں پر منفی اثر نہ ڈالنے والی سبسڈیز کا زیادہ استعمال کیا ہے ۔ عالمی تنظیم تجارت کی جانب سے پیش کردہ سبسڈیز کاشمار بین الاقوامی قیمتوں سے مطابقت میں کیا جاتا ہے جنہیں مسابقتی سمجھا جاتا ہے ۔ اس معاہدہ کی منظوری سے قبل ہوئے مذاکرات میں ہر شئے کے 1986-88 کے درمیان کی قیمتوں کو بیرونی ریفرینس قیمت قرار دینے سے بھی اتفاق کیا گیا تھا ۔
یہ ساری صورتحال ہندوستان کیلئے کیا معنی رکھتی ہے ؟ ۔ ہندوستان میں چاول کی عام اقسام کیلئے جو اقل ترین امدادی قیمت تھی وہ 1986-88 میں فی ٹن 112 امریکی ڈالر تھی جو 2014-15 میں بڑھ کر 334 امریکی ڈالر ہوگئی ہے ۔ یہاں اس اضافہ کے باوجود جو بیرونی ریفرینس قیمت 1986-88میں 263 ڈالرس فی ٹن تھی وہ اب تک برقرار ہے ۔ یہ تاثر عام ہے کہ ہندوستان متفقہ حد سے تجاوز کر رہا ہے ۔ تاہم تین دہے قبل کی بیرونی ریفرینس قیمت کا موجودہ اقل ترین امدادی قیمت سے تقابل کرنا خود غیر حقیقت پسندانہ ہے ۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ زرعی سبسڈیز کی سطح کا ایک قدیم نظام کے تحت تقابل کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو دھمکا رہا ہے ۔ جب یہی ان کا مقصد رہا تو پھر معاشی منطق کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔
ہندوستان اور دوسرے ترقی پذیر ممالک کا اصرار ہے کہ یا تو بیرونی ریفرینس قیمت ( ای آر پی ) کا تعین کرنے کیلئے جو بنیادی وقت ہے اس کو حالیہ برسوں کی مطابقت میں لایا جائے یا پھر ای آر پی کو افراط زر کی شرحوں سے مربوط کرتے ہوئے مقرر کیا جائے ۔ امریکہ نے ان دونوں تجاویز کو مسترد کردیا کیونکہ اس نے اپنی بیشتر سبسڈیز کو غیر منفی سبسڈیز میں منتقل کردیا ہے جن سے مارکٹ پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ جو دستاویز امریکہ کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اس میں ہندوستانی مارکٹ میں امدادی قیمتوں کے حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ آخری نکتہ یہ ہے کہ امریکہ ان سبسڈیز کو نشانہ بنا رہا ہے جو ہندوستان چھوٹے اور غریب کسانوں کو دیتا ہے ۔ ہندوستان میں دی جانے والی سبسڈیز ان کسانوں کے تحفظ کا کام کرتی ہیں اور ان کی زندگیوں پر بھی اس کا حثر ہوتا ہے خاص طور پر ایسے وقت میں جبکہ زرعی شعبہ بحران کا شکار ہے یہ سبسڈیز بہت اہمیت رکھتی ہیں۔