ہندوتوا کا کارڈ کھیل کر یو پی فتح کرنے کی تیاری

مولانا اسرار الحق قاسمی
2014 کے پارلیمانی انتخابات میں یوں تو بی جے پی نے ملک کی بیشتر ریاستوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور واضح اکثریت حاصل کرکے مرکز میں اپنی حکومت قائم کی لیکن اترپردیش میں اس کی شاندار کامیابی نے سب کو متحیر کردیا تھا ۔  ملک کی اس سب سے بڑی ریاست میں لوک سبھا کی 80 نشستوں میں سے 71 سیٹیں اس کی جھولی میں آگری تھیں ۔ اس متاثرکن کامیابی کا سہرا پارٹی کے وزارت اعظمی کے امیدوار نریندر مودی کی مقبولیت سے بھی بڑھ کر پارٹی کے صدر اور مودی کے دست راست امیت شاہ کے سربندھا تھا اور ان کی سیاسی حکمت عملی کو بے مثال قرار دیا گیا تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ چند ماہ بعد ہی مرکزی حکومت کی ناک کے نیچے دہلی کے اسمبلی انتخابات ہوئے تو انہی امیت شاہ کی حکمت عملی پوری طرح بے اثر ثابت ہوئی ۔ بی جے پی کو شرمناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا اور نومولود سیاسی جماعت عام آدمی پارٹی نے میدان سیاست کے نووارد اور ناپختہ کھلاڑی اروند کیجریوال کی قیادت میں ویسی ہی زبردست کامیابی حاصل کی جیسی بی جے پی نے اترپردیش میں پارلیمانی انتخابات میں حاصل کی تھی ۔ امیت شاہ کے ساتھ ساتھ نریندر مودی ، جو اب وزیراعظم بن چکے تھے  ،ان کی مقبولیت بھی بی جے پی کو کوئی راحت نہیں پہنچاسکی تھی ۔ دہلی کی شکست مودی اور شاہ دونوں کے لئے بڑا جھٹکا تھی لیکن یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا ۔

دہلی کے چند ماہ بعد ہی بہار میں اسمبلی انتخابات ہوئے جس میں ناپسندیدہ چہروں کو جو باوزن ثابت ہوسکتے تھے انہیں بری طرح بے وزن، بے زبان اور پس پردہ کرکے سرپرست تنظیم آر ایس ایس ، صدر بی جے ہی امیت شاہ اور وزیراعظم مودی نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے تمام آزمودہ مہروں اور پسندیدہ وزیروں کی تمام تر محنت ، طاقت ، حکمت ، مقبولیت سب جھونک دی ، دہلی کا تاج و تخت چھوڑ کر سرزمین بہار کی خاک چھانتے رہے ، بے تکے جملوں اور حملوں سے اہالیان بہار کی عزت نفس کو چوٹ پہنچاتے رہے ، لوگوں کو تقسیم کرنے کی سازشیں کرتے رہے لیکن سب رائیگاں ۔ نتیش کمار اور لالو پرساد جیسے سرد گرم چشیدہ سیاستدانوں نے بہار میں بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار کرکے چاروں خانے چت کردیا تھا ۔ مرکز میں حصول اقتدار کے بعد بی جے پی اور بطور خاص وزیراعظم مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ کے لئے یہ دوسرا بڑا جھٹکا تھا ۔ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پارٹی کے معتوب اور مجبور و مقہور گوشہ نشین لیڈروں نے اعلی قیادت کو ڈکٹیٹر اور مطلق العنان جیسے القاب سے نواز کر اپنی بھڑاس نکالی ۔ لیکن ظاہر ہے کہ جن پرندوں کے پر کتر دئے گئے ہوں ، ان سے بلند پرواز کی توقع نہیں کی جاسکتی  ۔نتیجتاً یہ لیڈران بھی اپنی کم مائیگی کے احساس کے ساتھ بس پھڑپھڑا کر رہ گئے اور اعلی قیادت کی روش میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکے ۔

ان دو بڑی ناکامیوں کے باوجود امیت شاہ دوبارہ بی جے پی  کی مسند صدارت پر متمکن ہیں تو ان کے ساتھ اگلا انتہائی اہم اور مشکل ترین چیلنج اترپردیش کے اسمبلی انتخابات ہیں جو آئندہ سال 2017 میں منعقد ہوں گے ۔ یہاں بھی اگر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہیں اور ان کے وزیراعظم کس کس کا منہ بند کرسکیں گے ۔ نیز یہ بھی طے ہوجائے گا کہ عوام کا جو اعتماد اور سپورٹ انہیں 2014 میں حاصل ہوا تھا اسے برقرار رکھنا ان کے بس کی بات نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ جاننا یقیناً دلچسپ ہوگا کہ اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے وہ کون سی تدبیریں اختیار کرتے ہیں ۔ خاص کر اس صورتحال میں کہ جب دو ریاستوں دہلی اور بہار کے اسمبلی انتخابات میں خود ان کی سیاسی حکمت عملیاں غیر موثر رہیں اور دوسری طرف وزیراعظم مودی کے نام نہاد مقبولیت کا گراف بھی ہرگزرتے ہوئے دن کے ساتھ لڑھکتا جارہاہے ۔ امیت شاہ نے اس سلسلے میں تاخیر نہیں کی ہے اور نہ ہی انہوں نے اپنی نیت اور ارادوں کا اظہار  ڈھکے چھپے لفظوں میں کیا ہے ۔ انہوں نے واضح اشارہ دے دیا ہے کہ ان کی پارٹی حسب سابق ہندوتوا کا کارڈ کھیل کر اترپردیش کی جنگ جیتنے کی کوشش کرے گی یہی اس کا آزمودہ کارگر نسخہ رہا ہے ۔ البتہ بہار کے اسمبلی انتخابات کے دوران لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے کی کوششیں ناکام رہی تھیں ، پھر بھی اسے آزمانے میں ہرج ہی نہیں ہے ۔
چنانچہ گزشتہ ہفتہ اترپردیش کے شہر ورنداون میں پانچ ایکڑ کی اراضی پر کمل کے پھول کے مشابہ ایک نو تعمیر شدہ مندر کا افتتاح کرتے ہوئے امیت شاہ نے 2 لاکھ ہندوؤں کے مجمع سے جو کچھ کہا ، اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے یوپی مشن کے لئے ہندوتوا کا کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔ انہوں نے نریندر مودی کو ہندوستان کا ایسا پہلا سچا ہندو قوم پرست وزیراعظم قرار دیا جس نے بنارس کے گھاٹوں پر آرتی کی رسم ادا کی اور جس کا نظریہ حکمرانی ملک کی محض بھوتک (مادی) ترقی تک محدود نہیں بلکہ ادھیاتمک (روحانی) ترقی بھی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم مودی اس ملک کی اصل رسوم و روایات اور ثقافت کا تحفظ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور یہ ہندوازم (سناتن دھرم) کے لئے انتہائی فخر کی بات ہے ۔ نیز یہ کہ انہوں (مودی) نے کروڑوں لوگوں کے دلوں میں یہ امید پیدا کردی ہے کہ وہ ’ہمارے‘ (ہندو) کلچر کا یقینی تحفظ کریںگے ۔ بی جے پی صدر امیت شاہ نے یہ بھی کہا کہ پارٹی جن ریاستوں میں بھی برسراقتدار ہے وہاں حکومتیں یہ نشانہ (ہندو کلچر کا تحفظ) حاصل کرنے کی بھرپور سعی کررہی ہیں اور ’’جتنا اور ساتھ ہوگا ، اتنی گتی (رفتار) تیز ہوگی ۔ رادھے رادھے کی گونج کے دوران امیت شاہ نے یہ توقع بھی ظاہر کی کہ اس مقدس مقام سے جو توانائی پھوٹ رہی ہے وہ انسانیت کو درپیش بہت سے مسائل کو حل کرنے میں معاون ہوگی ۔

لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی اس سے بھی بڑھ کر ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔ اترپردیش کے مظفر نگر میں 13 فروری کو ہوئے ضمنی الیکشن کی مہم کے دوران بی جے پی لیڈران نے مسلمانوں کے خلاف کھلی اشتعال انگیزی کی ۔ انہو ںنے قانون کو بالائے طاق رکھ کر متنازع مقام پر رام مندر بنانے کی باتیں کیں ، لو جہاد کا شوشہ چھوڑا اور مظفرنگر فسادات میں مسلمانوں کو پہنچائے جانے والے جانی و مالی نقصانات کی یادیں تازہ کرائیں اور اسی راہ و روش پر قائم رہنے کے خطرناک ارادوں کا برملا اظہار کیا ۔ انہوں نے علی الاعلان کہا ’’ہم مسلمانوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں ، ایسا سبق جو ہندوؤں کے مابین اتحاد کو مضبوط اور ہمارے مذہب کواسلام سے محفوظ رکھ سکے ۔ انہوں نے دعوی کیا کہ 2013 کے مظفرنگر فرقہ وارانہ فسادات کے اثرات ملک بھر میں پھیلے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ نریندر مودی 2014 میں ملک کے وزیراعظم بنے ۔افسوس کا مقام ہے کہ اترپردیش کے سیاسی قائدین جو ابھی برسراقتدار بھی ہیں اور بی جے پی کے فرقہ واریت کے کھیل کو روکنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں ، ان کی سیاسی ترجیحات نامعلوم مصلحتوں کی وجہ سے بہار کے لیڈروں سے یکسر مختلف نظر آتی ہیں ۔ اس صورتحال میں بی جے پی کا ہندوتوا اور فرقہ واریت کا نسخہ اس ریاست میں ایک بار پھر کارر ہوسکتا ہے ۔