ہندوتوا ایجنڈہ کا احیاء ؟ !

بابری مسجد شہادت کیس میں بی جے پی کے سینئیر قائدین ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی کے علاوہ دیگر پر تعزیرات ہند کی دفعہ 120-B ( مجرمانہ سازش ) کے تحت الزامات وضع کیے گئے ۔ ان 3 بی جے پی قائدین میں دو کو صدر جمہوریہ کے امیدوار بنائے جانے کا امکان تھا اور مرکزی وزیر اوما بھارتی کی اب مرکزی کابینہ میں برقراری پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے ۔ کانگریس نے اوما بھارتی کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا ۔ بی جے پی کے اندر جب سے نریندر مودی نے غلبہ حاصل کیا ہے پارٹی کے سینئیر قائدین جیسے اڈوانی ، جوشی کو سیاسی کنارہ پر کھڑا کردیا گیا تھا ۔ اب ان سینئیر قائدین کے حق میں بابری مسجد کیس کا فیصلہ جو بھی ہو پارٹی کے لیے ایک طرح کا سیاسی فائدہ ہی ہوگا ۔ رام مندر کے جذبات سے کھلواڑ کرنے میں ماہر بی جے پی کو اب آنے والے دو سال تک 2019 عام انتخابات کی تیاری کرنی ہے تو اس کے پاس گرما گرم موضوع کے لیے کوئی نہ کوئی جذباتی مسئلہ کا احیاء ہونا ضروری تھا ۔ کیوں کہ جس مسئلہ کے زور پر اڈوانی اور ان کی ساری بی جے پی ٹیم نے 1990 سے لے کر اب تک کامیابی حاصل کی ہے ۔ اڈوانی کے رتھ یاترا 1992 میں ملک کی تاریخی 500 سالہ قدیم بابری مسجد کو شہید کرنے کا باعث سمجھی گئی تو اس زور پر بی جے پی نے 1996 اور 1998 میں مرکز میں اہم مقام حاصل کرلیا تھا ۔ اب تک بی جے پی کو ترقی ملنے کا اہم سیلہ اڈوانی ، جوشی اوما بھارتی جیسے قائدین ہی ہیں ۔ ہندوتوا بریگیڈ کا چہرہ لے کر اب مجرمانہ سازش کے الزامات کے ساتھ یہ قائدین مرکز کی مودی حکومت کے لیے مذہبی جذبات کو ہوا دینے کا کام کرسکتے ہیں ۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے کہا کہ تحقیقاتی ایجنسی نے مجرمانہ سازش کے سلسلہ میں کافی ثبوت اکھٹا کیے ہیں ۔ 89 سالہ اڈوانی کو اس کیس میں 25 سال کے دوران دوسری مرتبہ حاضر عدالت ہونا پڑا ۔ اپنی ہی پارٹی میں کنارہ پر کھڑا کردئیے گئے لیڈر اڈوانی اور اپنے مستقبل کی فکر سے زیادہ اس عمر میں پارٹی والوں کے رویہ سے ہونے والی تکلیف ہی کافی تھی کہ اب عدالت نے انہیں بابری مسجد شہادت کیس میں قصور وار ٹھہرایا ۔ اس کیس کی دوسری اہم لیڈر اوما بھارتی کا مستقبل ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے جو قانون و انصاف کا احترام کرتے ہیں ورنہ مرکزی حکومت میں ان کی برقراری کے لیے اب کوئی جواز نہیں ہے ۔ 83 سالہ مرلی منوہر جوشی بھی پارٹی سے دور کردئیے گئے ہیں یہ تمام بی جے پی کی دوڑ کے لیے موزوں نہیں سمجھے جارہے ہیں ۔ اوما بھارتی نے اس سازش کیس کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے اپنی تحریک کو عوامی تحریک قرار دیا تھا ۔ یہ ایک کھلی تحریک تھی جس کے ذریعہ بابری مسجد کو منہدم کرنا پڑا ۔ اس کام میں انہیں کوئی سازش دکھائی نہیں دیتی ۔ اب تک تمام ملزمین نے الزامات سے انکار ہی کیا ہے لیکن اب عدالت نے ان کے خلاف سی بی آئی کے پاس ٹھوس ثبوت ہونے کی بنیاد پر الزامات وضع کیے ہیں ۔ اس کیس کے حوالے سے اب ہندوتوا بریگیڈ رام مندر کے مسئلہ کا احیاء کرنے کے منصوبوں کو مضبوط بنا سکتا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کیس کی سماعت لکھنو میں ہوئی جہاں چیف منسٹر اترپردیش یوگی آدتیہ ناتھ موجود تھے جنہوں نے قبل ازیں مغلوں کو حملہ آور قرار دے کر مہارانا پرتاپ کو اصل راجپوت ہیرو بتایا تھا ۔ کیا یہ بات غور طلب نہیں ہے کہ ادتیہ ناتھ نے وی وی آئی گیسٹ ہاوز پہونچکر اڈوانی سے ملاقات کی اور اس کیس کا سیاسی وزن بڑھانے میں معاونت کی کیوں کہ موجودہ طور پر رام جنم بھومی تحریک کے وہ ہی اصل دعویدار بتائے جارہے ہیں ۔ ہندوستانی عوام کو مذہبی طور پر ہندوتوا رجحان کی جانب لانے میں اہم رول ادا کریں گے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قانون و انصاف کے اس دوڑ میں 2001 میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے اڈوانی کے خلاف الزامات خارج کردئیے تھے ۔ اور سال 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اس فیصلہ کی توثیق کی تھی ۔ لیکن سال 2019 میں ہندوتوا کے ریہرسل کے لیے حکمراں طاقت کے پاس کسی مضبوط کیس و دلیل کی ضرورت تھی ۔ سپریم کورٹ نے دو سال پہلے ہی بابری مسجد میں تمام ملزمین کے خلاف فرد جرم عائد کرنے کی ہدایت دی تھی ۔ اس کے بعد سے اس کیس کو زیادہ اہمیت دے کر تیزی سے سماعت کرنے اور درمیان میں التواء کی اجازت نہ دیتے ہوئے بحث و مباحث کو تیز کردیا گیا جو سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کا اہم موضوع ہے اور اب یہ آئندہ دو سال تک قومی سرخیوں میں چھایا رہے گا ۔ حکمراں طبقہ کے حق میں بولنے والا میڈیا اس بات کو لے کر دھمال بھی مچانا شروع کیا ہے ۔ امکان یہ بھی ہے کہ ہندو مسلم کے درمیان نفرت کی دیواروں کو مضبوط اور بلند کر کے ہندوستانی معاشرہ کو تقسیم کرنے کی ناپاک کوشش کی جائے گی ۔ اب ہندوستانی عوام کو ہی اپنی سمجھداری اور شعوری پن کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہوگی ۔۔