سادھوی پراچی … چھوٹا منہ بڑی بات
نریندر مودی … بیرونی دوروں میں مگن
رشیدالدین
بزرگوں کی بچوں کو اکثر یہ نصیحت ہوتی ہے کہ بھلے ہی کھانے میں لقمہ بڑا لیں لیکن زبان سے بڑی بات نہ کر یں۔ بڑا لقمہ دیکھنے والوں کیلئے قابل قبول ہوتا ہے لیکن ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ وشوا ہندو پریشد کی سادھوی پراچی کا کچھ یہی حال ہے۔ سنگھ پریوار مسلمانوں کی دل آزاری کے لئے وقفہ وقفہ سے اپنے تربیت یافتہ کھلاڑیوںکو میدان میں اتار رہا ہے جو کبھی سادھو تو کبھی سادھوی کی شکل میں ہوتے ہیں تو بسا اوقات ایم پی ، مرکزی وزیر حتیٰ کہ چیف منسٹر کے بھیس میں منظر عام پر آتے ہیں۔ نام ، لبادہ اور عہدے بھلے ہی مختلف ہوں لیکن ہر کسی کا ایجنڈہ ایک ہے اور وہ سماج میں نفرت کا زہر گھولنا ہے ۔ بات سادھوی پراچی کی چل رہی تھی جنہوں نے مسلم مکت بھارت کا نعرہ لگایا، یعنی مسلمانوں سے پاک بھارت۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی شکست کے بعد بی جے پی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگایا تھا ۔ اسی نعرہ کو استعمال کرتے ہوئے پراچی نے مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کا شرانگیز نعرہ لگاتے ہوئے مسلمانوںکی رگوں میں پاکستانی خون کی بات کہی۔ پہلی بات تویہ کہ حقیقی سادھو اور سادھوی کو نفرت اور سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ جو نفرت کی بات کرے اور ساتھ میں سادھوی ہونے کا دعویٰ کرے تو ان کے دعویٰ پر شبہ کیا جانا چاہئے۔ ہم ان نام نہاد سادھو اور سادھویوں کی زہر افشانی کو کوئی اہمیت دینا نہیں چاہتے کیونکہ اہمیت دینے سے ہندو فرقہ پرست دنیا میں ان کا مقام اور مرتبہ بلند ہوجائے گا ۔ اپنا مقام بڑھانے اور زائد رینک حاصل کرنے کیلئے اس طرح کی کوششیں کی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا جائے۔
اگر مسلمان اس بیان پر کسی طرح کا ردعمل ظاہر کریں اور کشیدگی پیدا ہو تو یہ ان کی کامیابی ہوگی۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان جذباتی ردعمل کا اظہار کریں تاکہ سماج کو بانٹنے کی سازش کامیاب ہوجائے۔ ہماری نظر میں سادھوی پراچی سنگھ پریوار میں نوزائدہ چوزے کی طرح ہے بلکہ دکنی زبان میں اسے کچپندہ کہتے ہیں۔ سادھوی نے مسلمانوں سے نفرت کی آگ میں یہ نعرہ لگایا لیکن لسانیات کے ماہرین کے مطابق ان کے دل و دماغ میں کچھ اور تھا لیکن زبان سے سچائی اور حقیقت کا اظہار ہوگیا ۔ سادھوی نے ہندی میں نعرہ لگایا لیکن ہندی اور انگریزی کا ایک مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے بھارت کو آزاد کرایا ۔ اگر اردو زبان میں ترجمہ کریں تو مسلم پاک ۔ بھارت یعنی بھارت مسلمانوں کے سبب پاک ہے۔ دونوں مفہوم بھی اپنی جگہ درست ہے اور سادھوی کی زبان سے حقیقت کا اظہار ہوگیا ۔ شائد سادھوی اس حقیقت سے ناواقف ہے کہ ہندوستان میں پاکی ، صفائی اور روحانیت مسلمانوں کے دم سے ہے۔ ایمان والے جہاں رہیں گے وہاں اللہ کا عذاب بھی نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان آفات سماوی اور قدرتی عتاب سے محفوظ ہے۔ مسلمانوں سے ملک کو پاک کرنے کا خواب دیکھنے والے جان لیں کہ پاکی دراصل مسلمانوں کے وجود سے ہے، جن کو پاک کرنے کا منصوبہ ہے ، ان کے قومی رہنما ابوالکلام آزاد نے تادم آخر پاکستان کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا۔پراچی کو کچھ کہنے سے قبل بات کرنے کا سلیقہ سیکھنا چاہئے۔ رہی بات مسلمانوں کی رگوں میں پاکستان کے خون کی تو پراچی کو پتہ نہیں کہ ایل کے اڈوانی سمیت کئی سرکردہ قائدین تقسیم سے قبل پاکستان کے علاقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ کئی قائدین کے آبا و اجداد پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں۔ سادھوی ان تمام کو بھی کیا پاکستانی مانتی ہیں؟ کیا وہاں سے آنے والے اڈوانی اور دوسرے بھی ملک کے غدار ہیں؟ اگر پراچی خود اپنے آبا و اجداد کی تاریخ پر ریسرچ کریں تو کہیں نہ کہیں پاکستان سے تعلق ضرور نکلے گا۔ اکثر یہ دیکھا گیا کہ جن کا سب کچھ چھن جاتا ہے وہ اس علاقہ سے نفرت کرتے ہیں
جو احساس محرومی کا نتیجہ ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی بن بلائے مہمان کی طرح نواز شریف کی سالگرہ میں شرکت کیلئے لاہور پہنچ گئے جہاں پاکستانی غذاؤں سے ان کی تواضع کی گئی ۔ظاہر ہے کہ ان غذاؤں کے سبب مودی کے جسم میں کچھ خون ضرور بنا ہوگا۔ سائنسی اعتبار سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ غذا سے خون بنتا ہے ۔ اس طرح مودی کے خون میں پاکستانی غذاؤں کی آمیزش ہوگئی، اب کیا سادھوی پراچی مودی مکت بھارت کا نعرہ لگائیںگی؟ پراچی کیا مودی کو سارا خون تبدیل کرنے کا مشورہ دیں گی؟ سیاسی اعتبار سے دیکھیں تو سربراہان مملکت اور حکومت میں شامل افراد چونکہ دنیا بھر کا دورہ کرتے ہیں ، لہذا ہر ملک کی غذاؤں کا خون جسم کا لازمی حصہ بن جاتاہے ۔ آج تک کوئی ایسی تحقیق نہیں ہے جس کے ذریعہ الگ الگ ممالک کے خون کو پہچانا جاسکے۔ پراچی کے خون کے ریمارکس سے کئی افراد کے ہندوستانی ہونے پر شبہات پیدا ہوجائیں گے ۔ اسی لئے سوچ سمجھ کر گفتگو کرنا چاہئے تاکہ اپنا جملہ جوابی وار نہ بن جائے۔ سادھوی کو نفرت کا پاٹھ پڑھانے والے اچھی طرح جانتے ہیںکہ ہندوستان سے مسلمانوں کے صفائے کیلئے ہزاروں فسادات کرائے گئے۔ بے گناہوں کے خون کی ہولی کھیلی گئی ۔ معیشت کو تباہ و تاراج کیا گیا۔ سرکاری سرپرستی میں کئی فساد ہوئے لیکن مسلمانوں کو بھگانا تو دور کی بات ہے حوصلوں کو بھی پست نہیں کیا جاسکا۔ یہ حوصلہ ایمان کی حرارت سے حاصل ہوتا ہے ۔ مسلمانوں کو مٹانے کا خواب دیکھنے والے مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے خائف ہیں اور کل تک نسبندی کی وکالت کرنے والے آج ہندوؤں کو ایک سے زائد شادی اور ہر بیوی سے 4 بچے پیدا کر نے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پراچی نے ویسے کوئی نئی بات نہیں کی ہے ۔ مسلم مکت بھارت کا دوسرا نام ہندو راشٹر ہے جو آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کا ایجنڈہ ہے، جس پر نر یندر مودی حکومت کے ذریعہ عمل کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہندو راشٹر کا مطلب ہی مسلمانوں کا دینی اور ملی تشخص چھین لینا اور ان پر عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔ اس خواب اور آخری خواہش کے ساتھ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کے کئی سرکردہ قائدین دنیا سے چل بسے۔ آج بھی کئی اسی آس میں جی رہے ہیں اور دن میں جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھ رہے ہیں ۔
سادھوی پراچی کی شرانگیزیوں پر ہمیں کوئی تعجب اور حیرت نہیں ہے بلکہ افسوس تو حکومت پر ہوتا ہے جس نے دستور کی پاسداری کا حلف لیا لیکن دستور کی دھجیاں اڑانے کا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جو حکومت اپنے حلف کی پاسداری میں ناکام ہو ، اسے اقتدار میں برقرار رہنے کا کوئی حق نہیں۔ نریندر مودی نے گزشتہ دو برسوں کے دوران نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ وہ ہر سطح پر زہر اگل رہے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ۔ نریندر مودی جس وقت امریکی کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں مذہبی اور اظہار خیال کی آزادی کی دہائی دے رہے تھے، سادھوی پراچی نے ان کے دعویٰ کی نفی کردی۔ مودی نے دستور ہند کو حکومت کیلئے مقدس کتاب قرار دیا لیکن جب اس کی پاسداری نہ ہو تو پھر کیا فائدہ ۔ مرکزی وزراء ، بی جے پی چیف منسٹر اور ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے دو برسوں میں کئی اشتعال انگیز بیانات دیئے گئے لیکن مودی نے کارروائی توکجا مذمت تک نہیں کی۔ اسی طرح پراچی کو بھی مذہبی منافرت پھیلانے کے جرم میںجیل بھیج دیاجانا چاہئے ۔ اگر کوئی مسلمان معمولی بھی اشتعال انگیزی کرے تو حکومت اور پولیس حرکت میں آجاتے ہیں۔ پولیس از خود مقدمات درج کرتی ہے لیکن سادھوی پراچی کے ساتھ ہمدردی اور چھوٹ برقرار ہے۔ نفرت کے ان سوداگروںکی سماج میں کوئی جگہ نہیں بلکہ انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہئے اور یہی حقیقی معنوں میں دستور کا تحفظ اور احترام ہوگا۔ ہندوستان سے مسلمانوںکو علحدہ کرنے کا خواب دیکھنے والے جان لیں کہ ہندوستان مسلمانوںکے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔
اگر ہندوستان ایک پھول ہے تو مسلمان اس کی خوشبو ہے اور ملک کی شان مسلمانوں سے ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں مسلمانوں کی نشانیاں ہندوستان کا نام روشن کر رہی ہیں ورنہ سادھوی پراچی کی وراثت میں صرف اجنتا ایلورہ کے سوا کچھ نہیں آئے گا ۔ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک حکمرانی کی لیکن انہوں نے کسی کو مکت کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ اگر وہ یہ کام کرتے تو شائد پراچی آج مسلمان ہوتی۔ مسلمانوں پر تنقید سے قبل پراچی کو سوچنا چاہئے کہ مسلمان مرنے کے بعد بھی دو گز زمین کے ساتھ ہندوستان میں رہتے ہیں اور یہی ان کی حب الوطنی کا واضح ثبوت ہے جبکہ دوسروں کی استھیوں کی راکھ بہہ کر کسی اور ملک کو جاسکتی ہے۔ ہندوستان میں آج جتنی بھی تاریخی عمارتیں ہیں ، وہ مسلمانوں کی دین ہیں۔ نریندر مودی ہر سال یوم آزادی کے موقع پر مسلمانوں کی نشانی لال قلعہ سے پرچم کشائی کیلئے مجبور ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے تیار کردہ شاہکار حیدرآباد ہاؤز میں بیرونی مہمانوںکا استقبال کیا جاتا ہے ۔ ملک میں نفرت کے سوداگر کھلے عام گھوم رہے ہیں تو دوسری طرف نریندر مودی کو بیرونی تفریحات سے فرصت نہیں۔ بیرونی دورہ نریندر مودی کا محبوب ترین مشغلہ ہے اور انہوں نے دو برسوں میں 35 سے زائد ممالک کے دورہ کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ 5 سال کی میعاد میں ہوسکتا ہے کہ وہ ورلڈ ٹور مکمل کرلیں اور ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہوجائے۔ 2014-15 ء میں مودی کے بیرونی دوروں پر 317 کروڑ اور 2015-16 ء میں 269 کروڑ روپئے خرچ ہوئے ہیں۔ نریندر مودی کو بیرونی تفریحات کو چھوڑ کر ملک پر توجہ دینی ہوگی جب تک ملک میں دستور اور قانون کی پاسداری نہیں ہوگی، اس وقت تک ترقی اور خوشحالی نہیں آسکتی۔ سادھوی پراچی کو راحت اندوری نے کچھ اس طرح جواب دیا ہے ؎
ہم ہی بنیاد کا پتھر ہیں لیکن
ہمیں گھر سے نکالا جارہا ہے