ہم کو دعوت نامہ ملا

ناظم الدین مقبول
یہ ستمبر کے اوائل کی بات ہے۔
دہلی (بھارت) سے قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان کی جانب سے ایک دعوت نامہ بذریعہ ای میل موصول ہوا۔ یقیناً خوشی کی بات تھی ۔اگرچہ یہ خوشی کا احساس کچھ عرصہ قبل ہی دل کے کسی گوشے میں اپناسر ابھار رہاتھا کیونکہ محترم ڈاکٹر تقی عابدی صاحب نے اپنی ہندوستان سے واپسی پر یہ مژدہ ہمیں سنادیا تھا کہ ہمارے مسسی ساگا اور ٹورانٹو میں قائم مفت اردو اسکول کی گونج قومی کونسل کے سربراہان تک پہنچ رہی ہے اور کونسل مغربی خطے میں اُردو زبان کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں ہماری مخلصانہ کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ گویا اُردو عالمی کانفرنس میں شرکت کا پروانہ نظروں کے سامنے تھا اور ہماراحال وہی تھا ۔
ہم فقیروں سے کج ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا
ٹورانٹواور دہلی کے درمیان دعوت نامہ کے ملتے ہی ضروری معلومات اور دستاویزات کا تبادلہ عمل میں آنے لگا کچھ کونسل نے ویزہ کے حصول کے لئے حکومت ہندکی وزارت داخلہ‘ وزارت خارجہ کے اجازت نامے ہم کو بجھواے اور کچھ ہم نے اپنے پاسپورٹ او ر حدود اربع کی معلومات اُن کوفراہم کردیں۔ اکتوبر کے اوائل میں کونسل نے ضروری معلومات فراہم کردیں‘ اور یوں 15 اکتوبر کو ہم کسی محاذ پر پوری تیاری اور ساز وسامان سے لیس کسی فوجی کی طرح مقامی قونصل خانے کی طرف چل پڑے۔ویزہ کاحصول بھی ایک خاصا دشوار طلب مرحلہ تھا اور ہم آمناّ صدقناّ کے اصولوں پر ہر مہم کو صبر و سکون کے ساتھ سر کرنے میں سرگرداں ہوگئے اور اُن کی روز کی نئی نئی فرمائشیں ہم کو ذہنی طور پر مزید الجھا رہیں تھیں اور ہمارا حال اس شعر کی ترجمانی کررہاتھا ؎

اللہ اللہ اتنی خاطر داریاں
اور دیوانے کو دیوانہ بناؤ
ویزہ کے حصول میں پیش آنے والے ان مرحلوں پر ایک پوری کتاب تحریر کی جاسکتی ہے یہ موقع نہیں ہے بس یو ں جانیئے ہم اپنے اور اہلِ سیاست کے لیئے وہی گھسا پٹا شعر ورد کرکے اپنے دل کو مطمئن کرتے رہے ۔
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
قونصل خانے میں البتہ استقبالی میز پر موجود سوٹ میں ملبوس ہمہ وقت چاق و چوبند درخواست گزاروں کے ساتھ پیشہ ورانہ انداز میں خدمات دینے والے کارکن کو دیکھ کر مطمئن ہوجاتے جو ہر بار ہم کو تسلی اور اطمینان کے دو بول کہنا نہیں بھولتا تھا۔ یہ ضرور ہے کہ دفتر سے اجازت لے کر ہم کو چار پانچ بار ہندوستانی قونصل خانے کو جانا پڑا اور ہر بار ہم کمالِ ضبط کر مظاہرہ کرتے رہے کیونکہ دل کے کسی گوشے میں اطمینان کا ایک ننھاسا دیا روشن تھا ،اسی لئے متعلقہ افسران کی کسی بھی بات پر ہم مشتعل نہ ہوئے ، شاید اس لئے بھی کہ یہی ہمار ا وصف ہے ۔

بہت ہی ضبط سے کاٹی ہے زندگی ہم نے
کسی کی بات پہ آیا نہ اشتعال ہمیں
سنتے آئے ہیںکہ صبر کا پھل میٹھا ہوتاہے، شائد صبر کرتے کرتے ہمارے منہ کا ذائقہ بھی بدل چکا تھا اسی لیے ہم کو ویزہ ملنے کی اطلاع پر منہ میں کوئی شیرینی کی مٹھاس کا احساس نہ ہواہاں ہونٹوں سے الحمدللہ بے ساختہ نکل گیا۔ بیس اکتوبر سے ویزہ کی ایک مہینے کی معیاد کی گنتی بھی شروع ہوگئی۔ عالمی اردو کانفرنس 30 اکتوبر سے یکم نومبر تک منعقد ہورہی تھی اور ہم ایک ایک دن کی قیمت کا بخوبی اندازہ کررہے تھے۔

فروغ اُردو کونسل کے ڈائرکٹر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین صاحب نے شرکت کرنے والے مندوبین کے لئے ہوٹل سیج میں 28 اکتوبر سے کمروں کو مختص کروادیا تھا ، مگر میں نے سوچا اس حساب سے ویزاکی معیاد میں نو دن یوں ہی بے کار ضائع جایئنگے اسی لئے میں نے 25 اکتوبر کو اپنی روانگی کی تاریخ مقرر کرلی اور ہوائی ٹکٹ بھی اسی حساب سے بنوالیا ۔
ایرکینیڈا کی فلائٹ 6580 سے ہمارا پہلا پڑاؤ لندن کے ہیتھرو اپرپورٹ پر ہوا میں اپنے ایک انتہائی قریبی اور حددرجہ انسان پرور و نیک خصلت دوست جناب رضا عباس مرحوم کی چھوٹی صاحبزادی عزیزی فاطمہ عباس سے ملاقات کا متمنی تھا اور وہ بھی اتنی ہی مجھ سے ملنے بے چین تھی جو خیر سے شادی کے بعد مستقل طور پر لندن کے مضافات سرے میں رہائش پذیر ہے۔
صبح کی اولین ساعتوں میں ایر کینڈا کی پرواز وقت مقررہ پر لندن کے ہیتھ رہ ایئر پورٹ پرپہنچی۔لندن کے مشرقی حصہ میں واقع یہ ایئر پورٹ چار ٹرمینلز پر مشتمل ہے ۔ پانچواں ابھی زیر تعمیر ہے۔ دنیا کی نوے فضائی کمپنیاں کسی بھی مصروف دن کوئی 3,12,0000مسافروں کو لیکر آتیں ہیں۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مسافر اسی مقام سے گزرتے ہیں اور سالانہ تقریباّ 36 ملین مسافر اس مقام کو اپنی منزل بناتے ہیں۔ مسافروں کی سہولت کی خاطر ایئر پورٹ پر مختلف شعبوں میں 66 ہزار ملازمین چوبیس گھنٹے خدمات انجام دیتے ہیں۔ 3000 ایکڑ پر پھیلے ہوئے اس ایئر پورٹ پر اوسطاّ 1250 پروازیں روزآنہ اترتی ہیں۔ یورپ کی سہولتوں سے آراستہ یہ طیران گاہ واقع دیکھنے کا مقام ہے۔ میرے ساتھ صرف دستی سامان تھا اور میں ٹرمینل تین پر مسافروں کی لمبی قطاروں میں کھڑا سوچ رہا تھاکہ یہ لندن ہے یا برصغیرکوئی شہر جہاں اپنی بولی بولنے والے اور اپنی ہی طرح سے نظر آنے والے امیگریشن کے حصے میں مسافروں کی رہنمائی اور ان کو ہدایت دے رہے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرتا دھرتاوں کے اس ملک میں کسی زمانے میں محکوم رہنے والی قوم کے افرادآج برطانوی شہریت کے حامل ہو کر اپنا حکم چلا رہے تھے ان میں سے کچھ کا تعلق پاکستان اور کچھ کا ہندوستان سے تھا۔حقیقت کا سامنا کرنے والی میری آنکھیں مجھے بہت خوبصورت لگنے لگیںاور ان ہشاش بشاش لوگوںکے اور بہتر مستقبل کی دعابے ساختہ میرے لبوں پر مچل گئی۔

امیگریشن کی کارروائی کے بعد میںٹرمینل کے اس حصے کی طرف آگیا جہاں مسافروں کا خیر مقدم کرنے اور ان کو اپنے ساتھ لے کر جانے والے عزیزوں اور دوستوں کا ایک جم غفیرجمع ہوتا ہے اور میںاس ہجوم میں فاطمہ بیٹی کو تلاش کررہا تھا۔ میر ی بے چینی نے مجھے اس کے موبایل پر فون کرنے پر مجبور کردیا فون کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ راستے میں ہے اور کوئی بیس منٹ بعد وہ ایرپورٹ پہنچ جائے گی
تقریباً اتنی ہی دیر بعد فاطمہ بیٹی اپنے خوش شکل اور اسمارٹ شوہر کے ساتھ ٹرمینل میں داخل ہوئی ان کے والد بزرگوارمحترم رضاعباس مرحوم کے انتقال کے بعد اور اسکی شادی کے بعد مجھ سے یہ پہلی ملاقات تھی، وہ بے ساختہ بچوں کی طرح میرے سینے سے لگ گئی اسکی ہلکی ہلکی سسکیاں اور میرے ہاتھ کی ہتھیلی پر گرتے اسکے گرم گرم آنسو مجھے بھی رنجیدہ کرگئے اور میری آنکھیں بھی اس بچی کی یتیمی پر بھیگ گئیں۔میں نے اسکو بڑے پیا ر سے تسلی اور دلاسہ دلایا اور کہا کہ رضابھائی مرحوم کی برابری کرنے کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا مگر تم مجھ کو ان کی جگہ ضرور سمجھنا۔فاطمہ بیٹی کے شوہر داور خان کے لیے غالباًیہ صورت حال خاصی حیران کن تھی ان کو یوں تو ایک سنّی عقیدہ اور ایک شیعہ عقیدہ سے تعلق رکھنے والے دو دوستوں کی دوستی کا احوال بھی معلوم تھا ، مگر اس چشم دید منظر نے ان کو بھی خاصا متاثر کردیا تھا۔

چند لمحے سوگوار فضا اور بوجھل لمحے طاری رہے پھر میرا دستی سامان بڑی سرعت کے ساتھ داور نے لے لیا اور ہم پارکنگ میں کھڑی موٹر سے لندن کی سڑکوں پر نکل آئے۔موسم گیلاگیلا تھا اور فضا میں خنکی کا ہلکا سا احساس مجموعی طورپر موسم کو دل کش بنا رہا تھا میرے لیے دہلی کے سفر کا یہ پہلا پڑاؤ فی الواقع مسرت انگیز تھا۔میرے منع کرنے کے باوجود ان دونوں نے گھر کے بجائے جنوبی لندن میں ناربیری علاقہ میں واقع پاکستانی ریسٹورنٹ کراچی کیوزین کا رخ کیا اور روایتی پاکستانی ناشتے سے میر ی تواضع کاآغاز ہوا۔ میں پہلے بھی 1983 میں فرینک فورٹ (جرمنی) میں اپنی ملازمت کے دوران بارہا دفتری کام کے سبب لندن آتا جاتا رہا ہوںاب کوئی اکتیس سال بعد ہر شے نئی اور بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔ تقریباّ بیس منٹ میں ہم اسٹانفورڈ (والنگٹن ۔سرے) میں واقع گھر پہنچ گئے۔ داور خان کے والد محترم جناب علی حسین خان نے بڑے تپاک سے ہم کو خوش آمدید کہا جو کوئی 25 سالوں سے یہاں مقیم ہیں۔فاطمہ بیٹی کے سسر اور ساس اور اہل خانہ کے خلوص اور فاطمہ کے ایک منہ بولے چاچا کے لیے ان کی مہمان نوازی اور گرم جوشی دیکھ کر ہم نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا کہ بھائی رضا عباس مرحوم اور صبیحہ بھابی مرحومہ کی دعاوں اور نیکیوں کے صلے میں آج انکی بیٹی خیر سے لندن میںایک خوشگوار اور بہتر زندگی گزاررہی ہے۔
( دہلی میں ہمار پہلے دن کا احوال اگلے ہفتہ ملاحظہ فرمایئے)