جاپانی وزیراعظم نے چلائی گجرات کی انتخابی مہم
بہادر شاہ ظفر کو خراج… بابر سے دشمنی کیوں ؟
رشیدالدین
وزیراعظم نریندر مودی نے 2022 ء تک نیو انڈیا کا نعرہ دیا ہے یعنی ملک کی آزادی کے 75 سال کی تکمیل تک ہندوستان کی حالت تبدیل کردی جائے گی۔ مودی حکومت کی میعاد 2019 ء میں ختم ہورہی ہے لیکن وہ مزید دو سال آگے کے خواب دکھارہے ہیں۔ وہ خواب کیوں نہ دکھائیں کیونکہ وہ موجودہ وقت کے سپنوں کے سوداگر ہیں۔ اس فن میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ نیو انڈیا کا ابھی تو نعرہ لگا ہے لیکن اس کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ ملک کی سفارتی روایات سے انحراف اور دستوری عہدوں کی اہمیت گھٹانا کیا یہی نئے ہندوستان کی تصویر ہے؟ انتخابی مہم میں ہر پارٹی کے اسٹار کیمپنرس حصہ لیتے ہیں لیکن آج تک کسی نے یہ دیکھا نہ سنا کہ کسی پارٹی نے بیرونی سربراہان مملکت کو انتخابی مہم کیلئے استعمال کیا ہو۔ ظاہر ہے کہ جب نریندر مودی نئے ہندوستان کی تشکیل کا تہیہ کرچکے ہیں تو پھر ان سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ تو ابھی شروعات ہے، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔ کسی بھی ملک کے سربراہ کے دورہ کے سلسلہ میں یہ روایت رہی ہے کہ وہ دارالحکومت دہلی پہنچتے ہیں جہاں رسمی طور پر راشٹراپتی بھون میں استقبال کیا جاتا ہے۔ صدر جمہوریہ کے بعد وزیراعظم سے مذاکرات ہوتے ہیں۔ اگر کوئی سربراہ دہلی کے بجائے کسی اور شہر سے دورہ کا آغاز کرے تب بھی وہ دہلی پہنچ کر صدر اور وزیراعظم سے ملاقات ضرور کرتے ہیں۔ وزیراعظم جاپان شنزوآبے کا دو روزہ دورہ ہندوستان تمام روایات کے برعکس تھا ۔ اس دورہ سے ثابت ہوگیا کہ ’’مودی جہاں حکومت وہاں‘‘۔ دوسروں کی کوئی اہمیت نہیں، مودی اقتدار کا مرکز بن گئے اور جاپان کے وزیراعظم گجرات سے ہی وطن واپس ہوگئے اور صدر جمہوریہ سے ملاقات اور رسمی استقبال کی روایات سے انحراف کیا۔
ظاہر ہے کہ وزیراعظم نے جو پروگرام بنایا ، مہمان کو اس کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ اب تو صدر اور نائب صدر کے دستوری عہدوں پر بی جے پی کے سابق قائدین براجمان ہیں لہذا نریندر مودی نے جاپان کے مہمان سے ان کی ملاقات کو شائد ضروری نہیں سمجھا ۔اگر کسی اور پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ہوتے یا پرنب مکرجی ہوتے تو شاید ایسا نہ ہوتا۔ اچھا ہوا کہ مودی نے صدر اور نائب صدر کو گجرات طلب نہیں کیا۔ نیو انڈیا میں یہ کوئی عجب بھی نہیں تھا۔ وزیراعظم جاپان کے دورہ گجرات سے یہ ثابت ہوگیا کہ مودی اقتدار کا واحد مرکز ہیں اور وہ جو چاہیں وہی ہوگا۔ مودی نے اپنی ’’کرم بھومی‘‘ کیلئے جاپان کے تعاون سے ملک کے پہلے بلٹ ٹرین پراجکٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔ جاپان کے وزیراعظم کے دورہ کو سیاسی اغراض کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ۔ دونوں وزرائے اعظم نے احمد آباد میں 8 کیلو میٹر طویل روڈ شو کیا اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دونوں انتخابی امیدوار ہیں اور اپنے حامیوں کے درمیان ہاتھ ہلاکر استقبال کا جواب دے رہے ہیں۔ روڈ شو اور وہ بھی کسی بیرونی مہمان کے ساتھ شائد یہ ملک کے کسی وزیراعظم نے پہلی مرتبہ کیا ہے۔ یہ روڈ شو نہیں بلکہ گجرات اسمبلی انتخابات کی مہم کا آغاز تھا اور اسٹار کیمپینر جاپان کے وزیراعظم شنزو آبے تھے۔ گجرات میں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات ہیں اور وہاں بی جے پی کی حالت ٹھیک نہیں ہے ۔
بی جے پی کے پاس مودی سے بڑھ کر کوئی اسٹار کیمپینر نہیں ہے اور مودی کو اپنے آپ سے زیادہ بیرونی قائدین کی مقبولیت پر بھروسہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلٹ ٹرین کے نام پر شنزو آبے سے انتخابی بگل بجایا گیا۔ مودی نے انتہائی کم عرصہ میں بیرونی دوروں کا ریکارڈ قائم کیا ہے ۔ اس اعتبار سے آنے والے دنوں میں کیا دیگر ممالک کے قائدین بی جے پی کی انتخابی مہم کا حصہ بنیں گے ؟ بی جے پی اور مودی کے پاس کوئی ایسا کارنامہ نہیں جس کی بنیاد پر عوام کی تائید حاصل ہو لہذا بیرونی مہمانوں کا سہارا لیا جاسکتا ہے اور یہی نیو انڈیا کا حصہ ہوگا۔ بیرونی مہمان کا روڈ شو سے کیا تعلق ہوسکتا ہے اور وہ بھی ایسی ریاست میں جہاں اسمبلی انتخابات قریب ہیں۔ نریندر مودی جس طرح ملک کی روایات سے انحراف کر رہے ہیں، ہمیں محمد بن تغلق کی تاریخ یاد آگئی۔ کیا وزیراعظم پائے تخت دہلی سے احمد آباد منتقل کر رہے ہیں، جس طرح محمد بن تغلق نے دہلی سے دولت آباد منتقل کیا تھا ۔ یوں بھی تغلق کا شائد گہرا مطالعہ کرچکے ہیں اور متاثر بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ تغلق نے چمڑے کا سکہ چلایا تھا اور مودی نے اسی طرز پر نوٹ بندی کرتے ہوئے Pay TM متعارف کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے نریندر مودی خود کو ملک کا نہیں بلکہ صرف گجرات کے وزیراعظم تصور کر رہے ہیں۔ وزیراعظم ، بی جے پی صدر اور ریزرو بینک کے گورنر تینوں کا تعلق گجرات سے ہے اور ملک کے سب سے بڑے پراجکٹ بلٹ ٹرین کا آغاز بھی گجرات سے ہوا ہے جو مہاراشٹرا جائے گی۔ دونوں ریاستوں میں بی جے پی حکومت ہے۔ بلٹ ٹرین پراجکٹ کا سنگ بنیاد ایسے وقت رکھا گیا جبکہ حالیہ عرصہ میں کئی ٹرین حادثات پیش آچکے ہیں۔ حادثات میں اضافہ کے سبب عوام کو ریل سیفٹی پر بھروسہ کم ہوچکا ہے۔ جس طرح ٹرینیں پٹری سے اتر رہی ہیں، پتہ نہیں گجرات کے عوام کب مودی اور بی جے پی کی سیاسی ٹرین کو پٹری سے اتاردیں گے۔ یوں بھی ڈسمبر میں گجرات اسمبلی انتخابات بی جے پی اور مودی کیلئے وقار کا مسئلہ ہے۔ دہلی جانے کے بعد سے گجرات میں مودی اور امیت شاہ کی مقبولیت اور بی جے پی کے استحکام میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مودی کے بعد کوئی بھی چیف منسٹر گجرات کے عوام کو پارٹی سے جوڑ کر رکھنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔
گزشتہ دنوں راجیہ سبھا کے انتخابات میں مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے کانگریس قائد احمد پٹیل کو ہرانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا لیکن تمام سازشیں ناکام ثابت ہوئی۔ اس ناکامی کے بعد مودی نے اپنی ساکھ بچانے کیلئے وزیراعظم جاپان کا سہارا لیا ۔ راجیہ سبھا انتخابات کے بعد گجرات میں کانگریس کیڈر کے حوصلے بلند ہوگئے اور عام انتخابات میں کانگریس پارٹی مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کے موقف میں آچکی ہے۔ بی جے پی حکومت کے تین برسوں میں مخالف عوام فیصلوں سے عام آدمی اور خاص طور پر نوجوان نسل کے رجحان میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ پنجاب اور راجستھان یونیورسٹیز کے بعد دہلی یونیورسٹی میں بی جے پی طلبہ تنظیم کو شکست اور کانگریس طلبہ تنظیم NSUI کی کامیابی اس کا ثبوت ہے۔ دہلی یونیورسٹی میں جہاں 2003 ء سے ABVP کا غلبہ تھا ، وہاں طلبہ نے اس مرتبہ بھگوا ذہنیت کو مسترد کردیا ۔ نوجوان کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیںاور وہ مودی کے وعدوں کی حقیقت سے واقف ہوچکے ہیں۔ دو کروڑ ملازمتوں کا وعدہ کہا گیا۔ بی جے پی برسر اقتدار آتے ہی تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیز کو زعفرانی رنگ دینے کی مہم شروع کی گئی ۔ بائیں بازو اور مخالف فرقہ پرست نظریات کے حامل طلبہ قائدین کو مقدمات کے ذریعہ ہراساں کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کے نتائج انصاف پسند اور سیکولر نظریات کی جیت ہے۔ معاشی سطح پر مودی نے اپنے فیصلوں کے ذریعہ ملک کو جس طرح معاشی بحران میں مبتلا کردیا ہے، اس کی حقیقت منظر عام پر آنے لگی ہے۔ نوٹ بندی کا فیصلہ غلط ثابت ہوا جس نے شرح ترقی کی رفتار کو کم کردیا ہے۔ ماہرین معاشیات اور ریزرو بینک کے سابق گورنرس نے معاشی صورتحال کی حقیقت بیان کی ہے ۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے امریکہ میں کہا کہ 100 بڑے صنعت کار ہندوستان کی معیشت پر راج کر رہے ہیں اور مودی کی سرپرستی حاصل ہے۔ جاپان کے وزیراعظم کے دورہ سے ہندوستان مخالف چین محاذ میں شامل ہوچکا ہے ۔ امریکہ نے ساؤتھ کوریا اور جاپان کے ساتھ مل کر چین کے خلاف محاذ تیار کیا ہے اور اس محاذ میں اب ہندوستان شامل ہوچکا ہے ۔ ڈوکلام تنازعہ کے پس منظر میں ہندوستان نے جاپان اور امریکہ کے ساتھ قربت کے ذریعہ چین کو سخت پیام دینے کی کوشش کی ہے۔ سیاسی سطح پر اترپردیش ان دنوں سرخیوں میں ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ کے چیف منسٹر بننے کے بعد سے سنگھ پریوار کے عناصر بے قابو ہوچکے ہیں۔ یوگی کی زہر افشانی اپنی جگہ لیکن ان کے وزراء بھی ہم کسی سے کم نہیں کے مصداق بیانات جاری کر رہے ہیں۔ اترپردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر نے مغلیہ حکومت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کی خوب تعریف کی اور انہیں محب وطن اور مجاہد آزادی قرار دیا ۔ اس کے ساتھ انہوں نے ظہیر الدین بابر اور اورنگ زیب کو ہندوستان کے لٹیرے قرار دیا ۔ڈپٹی چیف منسٹر نے دراصل وزیراعظم نریندر مودی کے میانمار میں بہادر شاہ ظفر کی مزار پر حاضری کے پس منظر میں اس طرح کا بیان دیا ہوگا۔ چونکہ مودی بہادر شاہ ظفر کی مزار پر گئے ، لہذا بی جے پی کے وزیر انہیں محب وطن قرار دے رہے ہیں۔ بابر اور اورنگ زیب نے ایسا کیا کردیا کہ انہیں ہندوستان کے لٹیرے کہا جارہا ہے ۔ بابر نے سلطنت مغلیہ کی ہندوستان میں وسعت میں اہم رول ادا کیا اور ان کا کوئی بھی قدم ہندوستان کے خلاف نہیں تھا۔ بی جے پی کے وزیر کو جب بابر اور اورنگ زیب ملک دشمن دکھائی دے رہے ہیں تو ان کی رائے شاہجہاں کے بارے میں کیا ہے جنہوں نے ہندوستان کو دنیا کا نادر تعمیری شاہکار تاج محل تحفہ میں دیا ہے۔ آج بھی سیاح دنیا کے شاہکار کو دیکھنے کیلئے ہندوستان کا رخ کرتی ہے۔ کوئی بھی اجنتا ایلورہ کی پینٹنگس اور نقش نگاری کو دیکھنے نہیں آتا اور ملک کے بیرونی زر مبادلہ میں تاج محل کا اہم حصہ ہے۔ اب تو تاج محل پر بھی بری نظریں پڑنے لگی ہیں۔ مظفر وارثی نے کیا خوب کہا ہے ؎
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
ان کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے