میرا کالم مجتبیٰ حسین
کرکٹ کے کھیل میں ہم نے کبھی عملاً دلچسپی نہیں لی البتہ ہماری ٹیم کے رن نہ بنانے کی ’’رننگ کمنٹری‘’ ضرور سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں کیونکہ اچھے بھلے وقت کو اتنے وسیع پیمانے پر ضائع کرنے کا اس سے بہتر کوئی اور طریقہ آج تک ایجاد نہیں ہوا ہے ۔ جس طرح کھیل کے کچھ آداب ہوتے ہیں اسی طرح رننگ کمنٹری کو دیکھنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں۔ پھر رننگ کمنٹری سننے یا دیکھنے کی ایک خوبی یہ ہوتی ہے کہ اسے دیکھنے والا کبھی ’’ریٹائر‘‘ نہیں ہوتا ۔ پچھلے چار دہوں میں کرکٹ کے کتنے ہی کھلاڑی ہمارے دیکھتے دیکھتے آئے اور چلے گئے ۔ چاہے وہ سنیل گواسکر ہوں یا کپل دیو ۔ سب کے سب ریٹائر ہوگئے لیکن ہم ہیں کہ رننگ کمنٹری دیکھنے سے ریٹائر نہیں ہوئے ۔ کبھی ہمیں دنیا والوں کے سامنے یہ شکایت کرنے کی حاجت نہ ہوئی کہ دنیا والو! دیکھو ہمیں رننگ کمنٹری دیکھنے سے ریٹائر کردیا گیا ہے حالانکہ ہم اب بھی اچھے بھلے ہیں اور آنکھوں دیکھا اور کانوں سنا حال دیکھنے اور سننے کے اہل ہیں ۔ خیر یہ ایک الگ معاملہ ہے ۔ آج ہمیں بیٹھے بٹھائے کرکٹ کے بارے میں اظہار خیال کرنے کی نوبت اس لئے آئی کہ ادھر جب سے آسٹریلیا میں ہماری ٹیم ہارنے کے سارے ریکارڈ کر واپس آئی ہے ، ہر کس وناکس ہماری ٹیم کے بارے میں کچھ نہ کچھ اظہار خیال کرنے کو ضروری سمجھ رہا ہے ۔ پرسوں پریس کلب میں ہمارے ایک دوست مل گئے تو خود ہی بات چیت کو کرکٹ کے کھیل کی طرف لے گئے ۔ کہنے لگے ’’میاں! ہمارے ملک میں کرکٹ کے کھیل کا کیا حشر ہورہا ہے ۔ حشر تو اور بھی کئی چیزوں کا اچھا نہیں ہورہا ہے لیکن کم از کم کرکٹ کا تو یہ حشر نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ ہماری ٹیم آسٹریلیا میں لگاتار دومہینوں تک ہارتی رہی اور ہم ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھے اس ہار کو بڑے اہتمام اور ذوق و شوق سے دیکھتے رہے ۔ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہماری کرکٹ ٹیم میچ جیتنا تو بہت دور کی بات ہے ’ٹاس‘ جیتنے کی بھی اہل نہیں ہے ۔ تم خود دیکھ لو کہ آسٹریلیا کے دورے میں ہماری ٹیم نے کتنی مرتبہ ’ٹاس‘ جیتا‘‘ ہم نے کہا ’’ٹاس جیتنا اور میچ کو جیتنا دو الگ چیزیں ہیں‘‘ بولے ’’ہماری ٹیم کو سب سے پہلے ٹاس جیتنے کی تربیت دی جانی چاہئے ۔ کھیل کی تربیت کا نمبر تو بعد میں آئے گا ۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہماری ٹیم آخر آسٹریلیا کیوں گئی تھی اور اگر گئی تھی تو واپس کیوں آگئی‘‘ ۔
ہم نے سوچا کہ ہمارے دوست کا غصہ نقطہ عروج پر ہے اسی لئے دوسرے ٹیبل پر چلے گئے جہاں دیپا مہتا کی فلم کے پس منظر میں شبانہ اعظمی کے سرمنڈوانے کے مسئلے پر بحث ہورہی تھی ۔ ذرا سوچئے کہ ہم لوگ کتنے غیر ضروری موضوعات پر بحث کرتے ہیں ۔ پچھلے کئی دنوں سے ہماری کرکٹ ٹیم کی ہار کے مسئلے پر ساری قوم بلاوجہ بحث کئے چلی جارہی ہے ۔ ہماری ٹیم کی ہار پر ہمیں تو کوئی افسوس نہیں ہوا ۔ افسوس ہوا تو اس بات پر کہ ہماری ٹیم نے ہارنے میں اتنی عجلت اور پھرتی کیوں دکھائی ۔ ہارنا ہی تھا تو ذرا اطمینان اور دلجمعی سے ہارتے ۔ کم از کم دوبار تو ایسا ہوا کہ صبح میں آسٹریلیا نے کھیلنا شروع کیا ۔ ہم نے سوچا کہ آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کے کھیل کو کیا دیکھنا ہے ۔ اتنی دیر میں کیوں نہ کچھ ضروری کام کرلئے جائیں ۔ بازار جائیں ، بجلی کا بل ادا کریں اور سارے کام نپٹا کر دوپہر میں اطمینان سے گھر واپس آکر کھانا کھائیں اور پھر اطمینان سے ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ کر اپنے محبوب کھلاڑیوں کو کھیلتا ہوا دیکھیں ۔ یوں بھی سارے کاموں سے فارغ ہو کر کرکٹ کے کھیل کو دیکھنے میں اور بھی لطف آتا ہے ۔ لیکن دونوں مرتبہ ہم کاموں سے فارغ ہو کر گھر آئے اور ٹی وی آن کیا تو پتہ چلا کہ کھیل کے بجائے کوئی اور پروگرام دکھایا جارہا ہے ۔ ہم نے غصے سے کیبل والے کو فون کیا کہ ’’میاں کرکٹ کی بجائے یہ تم کون سا پروگرام دکھا رہے ہو۔ تم لوگ ڈھنگ سے کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘ کیبل والے نے کہا ’’جناب! ہم پر ڈھنگ سے کام نہ کرنے کا الزام عائد کرنے سے پہلے آپ اپنی کرکٹ ٹیم سے کیوں نہیں پوچھتے کہ وہ ڈھنگ سے کیوں نہیں کھیلتی‘‘ ۔ ہم نے پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ بولا ’’حضور ہماری ٹیم کھیلنے کے لئے آئی تھی ضرور لیکن اسے ہارنے کی اتنی جلدی تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ساری ٹیم آؤٹ ہوگئی ۔ یہ ضرور ہے کہ اس نے کرکٹ کے میدان میں سب سے کم اسکور بنانے کا ریکارڈ قائم کیا ہے‘‘ ۔ ظاہر ہے کہ کیبل والے کے اس جواب کو سن کر ہم شرمندہ ہوگئے حالانکہ ہم جیتنے کو اتنا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ ہارنے کو نہایت اعلی و ارفع کام سمجھتے ہیں کیونکہ ہارنے سے آدمی کے ظرف میں اضافہ ہوتا ہے ۔ ہارنے والا کچھ سوچتا ہے سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو پرکھتا ہے ۔ جیتنے میں کیا رکھا ہے ۔ جیتنے والا تو ہمیشہ نقصان میں رہتا ہے کیونکہ جیت سے اس کا دماغ خراب ہوجاتا ہے ۔ فخر ، غرور ، نخوت اور گھمنڈ کا مادہ بڑھ جاتا ہے اور یہ چیزیں ہماری تہذیب میں کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھی جاتیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہارنے کے لئے جتنے بل بوتے کی ضرورت ہوتی ہے اتنے بل بوتے کی ضرورت جیتنے کے لئے نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری ہمدردیاں ہمیشہ ہارنے والے کے ساتھ رہتی ہیں ۔ چنانچہ پچھلے دنوں جب ہماری ٹیم آسٹریلیا سے ہار کر واپس آئی اور اسے ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا تو یقین مانئے ہمارا سینہ فخر سے تن گیا کیونکہ ان میں سے بعض کھلاڑی اچھے خاصے ہشاش بشاش بلکہ ہنستے بولتے نظر آئے ۔ ہم جان گئے کہ ہماری ٹیم میں وہ حوصلہ اور وہ اعتماد پیدا ہوگیا ہے جو ہارنے کے بعد آدمی میں پیدا ہونا چاہئے ۔ مگر بعد میں پتہ چلا کہ ہماری ٹیم کے بعض کھلاڑی چیلنجر کپ میں کھیلنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔ سچن تنڈولکر نے کہا کہ وہ آرام کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ آرام کرنے کی ضرورت تو جیتنے والی ٹیم کو پیش آتی ہے ۔ سورو گنگولی اور سری ناتھ نے بھی کسی چوٹ کا بہانہ کرکے کھیلنے سے معذوری ظاہر کردی ۔ یہ اچھی بات نہیں ہے ۔ ابھی تو جنوبی افریقہ کی ٹیم سے ہمیں اپنی ہی سرزمین پر ہارنا ہے ۔ ہماری ٹیم کے لئے ملک سے باہر جا کر ہارنے کا تجربہ کافی نہیں ہے ۔ اسے اپنے لوگوں کے درمیان بھی ہارنا چاہئے ۔ تبھی تو وہ ہار اور پے در پے ہاروں سے سبق حاصل کرسکے گی ۔
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں
چاہے کچھ بھی ہو آسٹریلیا میں ہماری ٹیم کی شکست فاش سے کچھ اچھے نتائج بھی برآمد ہورہے ہیں ۔ گلی کے وہ آوارہ لڑکے جو دل بھر بلے بازی کرنے کے شوق میں ہمارے گھر کی کھڑکیوں کے شیشوں کو توڑا کرتے تھے اب ذرا کم ہی دکھائی دیتے ہیں ۔ اور تو اور ہمارا وہ نواسہ جو پڑھنے لکھنے سے حتی الامکان دور رہنے لگا تھا اور کرکٹ کے کھیل کا دیوانہ بن رہا تھا اب بڑی مسکین سی صورت بنائے اپنے اسکول کی کتابیں پڑھنے میں مصروف نظر آتا ہے ۔ اللہ اللہ کیا تبدیلی ہے ! ہماری ٹیم نے ہار کے ذریعے جو کارنامہ انجام دیا ہے وہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے ، ورنہ ہم اپنی آنے والی نسل سے مایوس ہوچلے تھے ۔
لہذا اب ہم نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ سے ٹیلی ویژن پر کرکٹ کا کھیل نہیں دیکھیں گے ۔ اگرچہ ہمیں کرکٹ کی رننگ کمنٹری سننے اور دیکھنے کا چالیس برس پرانا تجربہ ہے لیکن اس کے باوجود اب ہم نے ٹیلی ویژن پر کرکٹ کے کھیل کو دیکھنے سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کرلیاہے ۔ اب تک جو کچھ دیکھا ہے وہ کچھ کم ہے جو ہم مزید دیکھیں ۔ لہذا ہماری ٹیم کے کھلاڑیوں سے گذارش ہے کہ وہ اب شوق سے ہارتے رہیں اور ہارنے کے معاملے میں ان کا مرحلۂ شوق کبھی طے نہ ہو ۔ (ایک پرانی تحریر)